انصاف مرحوم کی لحد پر

اسلام آباد میں استاد گرامی انصاف علی انصاف مرحوم کی لحد پر حاضری دیتے ہوئے دوران گریہ میری ہچکی بندھ گئی۔ میں نے انصاف مرحوم کو مخاطب کرتے ہوئے فریاد کی کہ درجہ چہارم کے جس مجسٹریٹ نے آپ کی منکوحہ کو مغویہ قرار دے کر آپ کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور بعد میں اس عفیفہ سے اس نے خود شادی کر لی تھی، وہ آپ کی وفات کے بعد بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ سڑک پر سے آپ کا جنازہ اور بے شمار لوگوں کو سینہ کوبی کرتے دیکھ کر ایک راہ گیر نے جنازے میں شامل ایک شخص سے پوچھا ’’یہ کس کا جنازہ جا رہا ہے‘‘ تو اس شخص نے کہا ’’یہ انصاف کا جنازہ ہے‘‘ جس پر درجہ چہارم کے اس کینہ پرور مجسٹریٹ نے جنازے پر لاٹھی چارج کا حکم دے دیا اور عذر یہ تراشا کہ اس سے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا۔

فریاد اور فاتحہ کے بعد جب میں منہ پر ہاتھ پھیر کر استاد کی لحد سے اٹھا اور ابھی وہاں سے جانے ہی کو تھا کہ استاد گرامی انصاف مرحوم کی آواز سنائی دی، یہ بہت نحیف اور ناتواں تھی، اس میں وہ گھن گرج نہیں تھی جو کبھی انصاف کی آواز میں سنائی دیا کرتی تھی۔ استاد نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’تم نے میری وفات پر جو کالم لکھا تھا وہ داروغۂ جہنم نے مجھے پڑھا دیا تھا۔‘‘ یہ سن کر میری چیخ نکل گئی، میں نے چلا کر کہا ’’استاد محترم یہ آپ کیا فرما رہے ہیں آپ کا دوزخ میں کیا کام؟

آپ تو نماز پنجگانہ باقاعدگی سے ادا کرتے رہے ہیں بلکہ عالم سرور میں تو آپ کئی دفعہ مغرب کی تین رکعتوں کی بجائے چار رکعتیں بھی پڑھ جاتے تھے پھر آپ کو جنت میں کیوں نہیں بھیجا گیا؟‘‘ اس پر انصاف مرحوم نے فرمایا ’’میں نے داروغۂ جنت سے بات کی تھی اور اسے اپنے نماز روزے کی باقاعدگی کے متعلق بتایا مگر داروغۂ جنت نے کہا یہ تمہارا ذاتی مسئلہ ہے، تم نے خدا کے بندوں کے لئے کیا کیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ ایک ضرورتمند کو ایک اٹھنی دی تھی، فرشتے نے پوچھا ’’اس طرح کی کوئی اور نیکی‘‘ میں نے دماغ پر بہت زور ڈالا مگر کمزور حافظے کی بنا پر کچھ یاد نہ آیا چنانچہ میں نے فرشتے سے صاف صاف کہہ دیا کہ کوئی اور نیکی یاد نہیں آ رہی۔ اس پر اس نے جیب سے اٹھنی نکال کر میری ہتھیلی پہ رکھی اور گردن سے پکڑ کر دھکا دیتے ہوئے کہا ’’چل دوزخ میں‘‘۔ گویا دوسرے جہاں میں بھی میری شنوائی نہیں ہوئی۔ گو مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے مگر خوشی بھی ہے کہ مجسٹریٹ درجہ چہارم بھی میری طرح صرف نمازیں پڑھتا ہے، انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر لوگوں کو انصاف نہیں دیتا۔ چنانچہ مرنے کے بعد وہ بھی دوزخ میں میری ہمسائیگی میں ہو گا اس کی فوتیدگی کی اطلاع مجھے بذریعہ تار دینا۔ دوزخ کے داروغہ سے میرے بہت اچھے تعلقات ہیں چنانچہ مجسٹریٹ درجہ چہارم کے لئے میں نے خصوصی طور پر کچھ سلاخیں بنوائی ہیں جو بہت جلدی گرم ہوتی ہیں اور بہت دیر بعد ٹھنڈی پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت بھاری گرز بھی آرڈر پر تیار کروائے ہیں۔ میں نے اس کی دوزخ میں آمد پہ اس کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ایک سپاسنامہ بھی تیار کیا ہے جس کی ابتدا شہزاد احمد کے اس شعر سے ہوتی ہے؎

خانۂ عدل سے منصف کی صدا گونجتی ہے
اور ڈر جاتے ہیں زنجیر ہلاتے ہوئے لوگ

میں نے استاد مرحوم کی زبانی یہ حالات سنے تو ایک دفعہ پھر میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور میں سینہ کوبی میں مشغول ہو گیا۔ اس پر انصاف مرحوم نے فرمایا انصاف کا یوں ماتم کرنے کی ضرورت نہیں، تم صرف مجسٹریٹ درجہ چہارم پر نظر رکھو، وہ بیمار پڑے تو اس کا ہمدرد بن کر اس کی عیادت کو جائو اور اٹک کے اس حکیم کی دوا بھی ساتھ لے کر جائو جس کا ایڈریس میں نے تمہیں دیا تھا۔ اس دوا سے اسے بہت جلد آرام آ جائے گا مگر پھر وہ جلد ہی موت کے منہ میں بھی چلا جائے گا کیونکہ حکیم صاحب کی ادویات میں سٹیرائڈز ہوتے ہیں۔ میں دوزخ میں مجسٹریٹ درجہ چہارم کا منتظر ہوں۔ میں نے حامی بھری مگر آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ اور پھر میں انصاف کی لحد سے اٹھ آیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے