نئے سال کے لئے خصوصی دعا

’’اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ آسمان سے مینہ برسایا۔ پھر اس سے تمہارے لئے کھانے کے پھل پیدا کئے اور کشتیوں جہازوں کو تمہارے زیر فرمان کیا۔ تاکہ دریا اور سمندر میں اسی کے حکم سے چلیں اور نہروں کو تمہارے زیر فرمان کیا۔‘‘

’’اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں اور رات اور دن کو بھی تمہاری خاطر کام میں لگا دیا اور جو کچھ تم نے مانگا۔ سب میں سے تم کو عنایت کیا اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو۔ تو شمار نہ کرسکو (مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے) کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘ (سورۃ ابراہیم۔ آیت: 32 تا 34)

اے معلوم اور نامعلوم کائناتوں کے رب! تیرا لاکھ لاکھ شکریہ کہ ہمارے لئے امکانات کے نئے نئے دروازے کھولتا ہے۔ ہماری التجا ہے کہ ہمیں ان بارہ مہینوں۔ ان 365 دنوں میں اپنے اور اپنے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عنایت کر۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم ناشکرے ہیں۔ ظالم ہیں۔ اپنے عظیم دین کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ صرف جذبات سے کام لیتے ہیں۔ ہم اس افتخار کا ادراک نہیں کرتے جو ہمیں پیغمبر آخر الزماںﷺ کی امّت میں شامل ہونے سے ملا ہے۔ ہم یہ جاننے کی سعی نہیں کرتے کہ ہم سے رحمتیں کیوں روٹھ گئی ہیں۔ مسلم معاشروں سے برکتیں کیوں اُٹھ گئی ہیں۔ علم اور تحقیق میں اسلامی ممالک غیر مسلموں سے پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔

اے ہمیں پیدا کرنے والے۔ ہمیں یہ استطاعت۔ استعداد اور ادراک بخش کہ ہم آج کے دور کے سائنسی علمی۔ معاشی۔ تجارتی۔ صنعتی۔ سماجی۔ سیاسی چیلنجوں کا منظم مقابلہ کرسکیں۔ اپنے دین متین کی تعلیمات کا اطلاق آج کے تقاضوں کے تناظر میں کرسکیں۔ ہمیں بھرپور احساس ہے۔ یقین ہے کہ اسلام میں یہ طاقت۔ یہ گنجائش۔ یہ فراخی موجود ہے کہ وہ سارے آنے والے زمانوں میں فعال۔ متحرک نظام کے طور پر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ اے علیم و بصیر۔ ہمارے علماء کو یہ توفیق دے کہ وہ قرآن کی آیات کو یوں ارزاں نہ بیچیں۔ انہیں انسانیت کی اعلیٰ اقدار کا فہم دے تاکہ وہ سائنس اور وجدان کا حسین امتزاج تشکیل دے سکیں۔ ہمارے اسکالرز پروفیسرز اور اساتذہ کو یہ روشنی عطا کر کہ وہ ہر لحظہ بدلتی۔ ترقی کرتی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرکے اس سے اللہ کے بندوں کو آسانیاں فراہم کریں ۔ اے خدائے بزرگ و برتر۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ہمارے اکابرین کو یہ ہنر عطا کر کہ وہ مختلف مسالک۔ مختلف گروہوں بہرہ ور اور بے بہرہ۔ امیر اور غریب۔ مغرب اور مشرق۔ جہالت اور فضیلت کے درمیان فاصلے ختم کرنے کے لئے منصوبے تشکیل دیں۔ اے مالک و مختار۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ استطاعت دے کہ وہ ان راستوں پر چلیں جن پر تیرا انعام نازل ہوتا ہے۔ نہ کہ ان راستوں پر بھٹکیں جو تیرے غضب کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ ان کے پاس جن کی امانتیں ہیں۔ وہ ان کو لوٹا دیں ان میں خیانت نہ کریں۔ ہم میں سے ہر ایک کو صادق و امین بننے کی توفیق دے۔ جس کا راستہ ہم خود چنیں۔ جس کا فیصلہ ہم خود کریں۔

تو ہمارے دِلوں کے بھید جانتا ہے۔ تو ہماری تمنائیں۔ اُمنگیں۔ خواہشوں سے واقف ہے۔ خشکی۔ سمندر۔ فضائوں پر تیرا ہی حکم چلتا ہے۔ تجھ سے دل کی گہرائی سے التماس ہے کہ ہمارے ہر ریاستی ادارے کو استحکام دے اور یہ فہم و ادراک کہ وہ اپنا اپنا کام کریں۔ اپنی حدود میں رہیں۔ کسی دوسرے کے امور میں مداخلت نہ کریں۔ کوئی بھی اپنے کو عقلِ کل نہ سمجھے۔ صرف اپنے رزق کو ہی رزق حلال نہ قرار دے۔
انسانوں کے لئے تونے ہوائیں مسخر کردی ہیں۔ زمین تابع کردی ہے۔ ہمارے رہبروں کو اس ادراک سے نواز کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح نہ دیں۔ دولت کو ہی قبلہ و کعبہ تسلیم نہ کریں۔

اے رحمان و رحیم۔ یہ جو ہماری قیادت کے دعویدار ہیں۔ کسی بھی اسلامی مملکت سے تعلق رکھتے ہوں ہماری استدعا ہے کہ ان کی باگ ڈور اسوۂ حسنہﷺ کی طرف موڑ دے۔ اس سے بہتر قیادت۔ سیادت اور امامت کا نمونہ کوئی نہیں ہے۔ پھر انہیں خلفائے راشدین کے ادوار سے گزرنے کی توفیق دے۔ امویوں عباسیوں اور عثمانیوں کی جہانبانی اور حکمرانی پر نظر ڈالنے کا حوصلہ بخش۔ انہیں تاریخ کے ان فیصلہ کن مراحل کا فہم دے جب مسلمان یونانی علوم کو اپنی زبان میں منتقل کرکے اپنے ذہن حکمت و تدبر سے آراستہ کررہے تھے۔ یہ جو ترجمے کا عہد کہلاتا ہے اب ہمارا زوال پھر اسی ترجمے کا متقاضی ہے۔ ہمیں پھر یہ جذبہ عطا کر کہ جہاں جہاں سے علم نصیب ہوسکتا ہے۔ اسے اپنی اپنی زبانوں میں منتقل کریں۔ ہمیں یہ جاننے کی توفیق دے کہ ہم ساتویں صدی سے بارہویں صدی تک میڈیکل۔ فلسفے۔ علم الابدان۔ نباتات حیوانات۔ حیاتیات میں سب سے آگے تھے۔ تیرہویں صدی سے اکیسویں صدی تک پستیاں ہمارا کیوں مقدر بنی رہیں۔ اے ہمارے عیوب پر پردہ ڈالنے والے! ہمیں یہ حوصلہ عطا کر کہ ہم میں سے ہر ایک ادارہ ہر ایک جماعت ہر ایک فرد اپنی خطائوں کو تسلیم کرے۔ اپنے مصائب کا سبب اپنے اندر تلاش کرے۔ دوسروں کی سازشوں کو اس کا ذمہ دار نہ سمجھے۔

ہم تیری پناہ مانگتے ہیں۔ ہم بہت ظالم ہیں۔ کیا زمانہ آگیا ہے۔ بیٹے مائوں کو قتل کررہے ہیں۔ شوہر بیویوں کا خون بہا رہے ہیں۔ بھائی بہنوں کو غیرت کے نام پر قتل کررہے ہیں۔ مسلمان مسلمان کو موت کے گھاٹ اُتار رہا ہے۔ رشتوں کا احترام ختم ہوگیا ہے۔ اتنے عظیم دین کے ماننے والے۔ اتنی قابلِ فخر امّت سے وابستگی والے دنیا کے سامنے کیسا کردار پیش کررہے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں ان ذلتوں سے نکال۔ ہمیں بلند کردار اور اعلیٰ اخلاق کا مظہر ہونے کا ولولہ دے۔

یہ ارض و سما۔ بحر و بر۔ شہر۔ بیابان۔ معلوم کائنات۔ نامعلوم جہاں سب تیرے ہیں۔ ہم بھی تیرے بندے ہیں۔ زمین پر تو نے ہمیں اپنے نائب ہونے کا اعزاز دیا ہے۔ ہم پر رحم کر ہمیں وہ بنا دے جو تجھے پسند ہے۔ ہمیں اپنے اپنے ملک کو آگے لے جانے کا راستہ دِکھا۔ اسلامی ملکوں میں صنعتوں کے پھیلائو کا دور شروع کردے۔ مسلم معاشروں میں زندگی آسان اور خوبصورت بنادے۔ ہمیں صفائی اور بہتر ماحول پیدا کرنے کی ہمت دے۔ ہمارے امراء میں حضرت ابو بکر صدیقؓ سا ایثار۔ ہمارے سالاروں میں عمر فاروقؓ سی شجاعت۔ ہمارے دولتمندوں میں حضرت عثمان غنیؓ سی سخاوت اور ہمارے منصفوں میں حضرت علی المرتضیٰؓ سے عدل کے خصائل پیدا کر۔ ہمارے میڈیا کو صرف اطلاع پہنچانے تک محدود کردے۔ ہمارے اینکر پرسنوں کو ٹاک شوز کے شرکاء کو تحمل برداشت اور کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کی مہارت نصیب فرما۔ 2018کے ایک ایک لمحے کو پاکستان کے لئے خوشحالی۔ ترقی۔ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری کا مظہر بنا دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے