زبیدہ آپا کی یاد میں: ’بیٹا چاہتی ہوں کہ ایسے ہی کام کرتے ہوئے دنیا سے جاؤں‘

فاطمہ ثریّا بجیا، جگ بھر کی بجیا تو تھیں مگر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے وہ نام کی بجیا اور ذات میں ماں جیسی تھیں،بالکل ایسے ہی زبیدہ طارق دنیا کے لیےٹوٹکا ایکسپرٹ، کوکنگ ماسٹر اور آپا ہوئیں مگر بجیا کے لیے وہ بیٹی ہی تھیں، وہی ماں بیٹی کا رشتہ، وہی بجیا کی ڈانٹ اور زبیدہ آپا کی مسکراہٹ، زبیدہ آپا کی ضد اور بجیا کا اپنی چھوٹی زبیدہ کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنا۔۔۔

میں بجیا کی سوانح عمری لکھنے اور ان سےروحانی قربت کی وجہ سے ان کے ہمراہ کراچی کی بہار مسلم سوسائٹی کے گھر میں کچھ عرصے سے رہ رہی تھی، یہ سن 2010 کی بات ہے، گرمیوں کے دن تھے، گذشتہ کئی دن سے بجیا کی طبیعت خراب چل رہی تھی، ناک بند تھی اور ساتھ ہی کھانسی سے سانس دوہری ہو رہی تھی۔

حمیدی خاندان کا یہ معمول تھا کہ بجیا کہ طبعیت معمولی سی بھی خراب ہوتی تو سب ان کے سرہانے جمع ہو رہتے۔ وہ جمعے کا دن تھا، میں اور بجیا ناشتہ کر کے ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ زبیدہ آپا کا فون آ گیا۔ انھوں نے بجیا کے برسوں پرانے بنگالی گھریلو ملازم عبدالوہاب کو ہانڈی چڑھانے سے منع کیا اور کہا کہ وہ خود کھانا پکا کر لارہی ہیں۔

زبیدہ آپا کا فون آنا تھا کہ عبدالوہاب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اتنے دن بجیا کے ساتھ رہ کر مجھے بھی کچھ کچھ سمجھ تو آ گیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے، عبدالوہاب کہنے لگا ’اب مزا آئے گا جب زبیدہ آپا سارا کباڑ باہر پھینکے گا، بجیا ہمیں تو ہاتھ لگانے نہیں دیتا۔‘ عبدالوہاب کی پیش گوئی درست تھی۔

زبیدہ آپا آئیں تو بجیا ڈائننگ روم میں بیٹھی فون پہ مصروف تھیں، یہ میری بجیا کی چھوٹی بہن زبیدہ آپا سے پہلی ملاقات تھی، زبیدہ آپا نے ہلکا میک اپ کررکھا تھا، نازک کلائیوں میں درجن بھر سبز، سرخ اور سنہری چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں مگر اپنی روایتی پہچان ساڑھی کی جگہ ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھیں۔ ان کے حلیے سے واضح تھا کہ ان کے عزائم نشستاً برخاستاً کے علاوہ کچھ اور ہی تھے۔

زبیدہ آپا نے عبدالوہاب سے ایک کپ چائے بنانے کو کہا اور بجیا سے باتیں کرتے کرتے ان کے گھر کا طائرانہ جائزہ لینے لگیں۔ بجیا زبیدہ آپا کے ارادے بھانپ چکی تھیں اس لیے ان کے چہرے پہ بھی ایک رنگ آتا ایک رنگ جاتا۔ چائے پیتے پیتے زبیدہ آپا نے عبدالوہاب سے جھاڑ پونچھ کا کپڑا مانگا۔ عبدالوہاب شاید یہ منظر پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا اس لیے خاموشی سے دو تین جھاڑن کے کپڑے زبیدہ آپا کے حوالے کیے اور کچن کا رخ کیا۔

زبیدہ آپا نے قیمتی برتنوں کے شوکیس سے ڈسٹنگ کی ابتدا کی۔ میں نے جو اب تک چائے کی پیالی ہاتھ میں تھامے صورتحال سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں، ایک جھاڑن میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہنے لگیں کہ ’تم شوکیس صاف کرو میں ذرا اور چیزیں دیکھ لوں۔‘

یہ اور چیزیں وہ ڈھیروں ڈھیر جار، بوتلیں، ڈبے، شاپرز اور نجانے کیا کچھ تھا جو کہ بجیا کے گھر آتے تھے اور گھر کے بالائی حصے کی جانب جانے والی سیڑھیوں کے نیچے رکھی لکڑی کی الماریوں میں سج جاتے تھے۔

میں نے مڑ کر دیکھا تو زبیدہ آپا سیڑھی کے نیچے زمین پر جھکی ہوئی بیٹھیں ایک ایک بوتل پر جمی مٹی صاف کرتیں اور پھر سلیقے سے اس کی جگہ پر رکھتی جاتیں، بجیا خاموشی سے دیکھ رہی تھیں مگر فی الحال کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اچانک زبیدہ آپا نے خشک میوہ جات کی ایک بوتل کا ڈھکن کھولا اور چیخیں ’ارے بجیا یہ تو نجانے کب کے پرانے کاجو رکھے ہیں، یہ تو پھینکنے لائق ہیں۔‘ بس یہیں سے بجیا کا صبر جواب دے گیا، کہنے لگیں ارے یہ سب کام کی چیزیں ہیں تم سیڑھی کے نیچے سے نکل آؤ، مگر جواب میں زبیدہ آپا نے سیڑھی کے نیچے سے مسکراتے ہوئے آواز لگائی ’عبدالوہاب کچرے کا بڑا والا ڈبہ باہر سے اٹھا لاؤ۔‘

بجیا بڑبڑانے لگیں، زبیدہ آپا ہر ڈبیہ، بوتل، جار کے اوپر لکھی قابل استعمال کی آخری تاریخ ڈھونڈتی جاتیں، کوئی بسکٹ 2008 کا نکلتا، کوئی شہد کی بوتل 2006 کی ہوتی سب کچرا، کاٹھ کباڑ چھانٹ چھانٹ کر نکلتا رہا، بجیا کا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگا اور ادھر عبدالوہاب زبیدہ آپا کے اشارے پہ خوشی خوشی کبھی یہاں جاتا کبھی وہاں۔

بالاخر زبیدہ آپا کی صفائی ستھرائی کی ضد کے آگے بجیا نے ہتھیار ڈالے اور ساتھ والے کمرے میں ٹی وی لگا کر بیٹھ گئیں۔ بجیا کا ڈھیروں سامان سے بکھرا گھر آہستہ آہستہ سدھرنے لگا، بجیا کمرے میں گئیں تو اب باری عبدالوہاب کی تھی۔ زبیدہ آپا نے صفائی نہ کرنے پر عبدالوہاب کی کلاس لی تو اس نے کھل کر بتا دیا کہ ’بجیا کسی ایک چیز کو گھر سے باہر نہیں پھینکنے دیتا، میں کیا کروں۔ کہتا ہے ہر چیز کسی نہ کسی کام آ جاتی ہے۔اب آپ ہی بتاؤ یہ کاغذ چپکانے کی گلو کا اتنا بڑا جار تین سال سے کام نہیں آیا مگر رکھا وا ہے۔‘ عبدالوہاب گلو کی بڑی بوتل لہراتے ہوئے کہنے لگا۔

میں بجیا کے کمرے میں گئی تو مجھے پاس بلا کر کہنے لگیں ’چاندی کے ورقوں کا ایک ڈبہ تھا، کیا اس نے وہ بھی پھینک دیا؟‘ مجھے بجیا کی معصومیت اتنی پیاری لگی، میں نے زبیدہ آپا کو آ کے بتایا کہ بجیا چاندی کے ورقوں کی ڈبیا کا پوچھ رہی ہیں، کہنے لگیں کہ جا کر کہہ دو کچھ بھی نہیں پھینکا، زبیدہ سب سامان اپنے گھر لے جا رہی ہیں تاکہ کام آجائے، میں ہر تھوڑی دیر بعد بجیا کے پاس جاتی تو وہ رازداری سے پوچھتیں ’اب کیا پھینکا؟‘

جھاڑ پونچھ کے بعد زبیدہ آپا کا اگلا ہدف گھر کی جھاڑو تھا، میں نے زبیدہ آپا سے کہا کہ جھاڑو دوسرا ملازم اجمل یا عبدالوہاب دے لے گا، آپ جھاڑو چھوڑ دیں ، آپا نہیں مانیں، میں نے آگے بڑھ کر جھاڑو خود لینا چاہی تو کہنے لگیں کہ بیٹا اپنے ہاتھ سے جھاڑو دے کر ہی مجھے سکون ملے گا۔

سالانہ صفائی مہم زور شور سے جاری تھی، ادھر بجیا کو فکر کھائے جارہی تھی۔ اللہ جانے کیا کچھ نہ پھینک دیا گیا ہو گا۔ گھر میں ایک ہلچل سی مچی تھی اور بجیا جو خود بہت متحرک خاتون تھیں ،اس آپریشن کلین اپ کے باعث ان کی بیماری، کمزوری کچھ وقت کے لیے بھاگ گئی تھی، بجیا کمرے سے باہر آئیں اور آواز لگائی ’عبدالوہاب، دیکھو زبیدہ بی بی کو بھوک لگی ہو گی، چلو جلدی سے کھانا لگاؤ۔‘
کھانے کا حکم ایک طرح سے زبیدہ آپا کے لیے پیغام تھا کہ جھاڑو چھوڑ کر اب آپریشن ختم کریں۔ عبدالوہاب زبیدہ آپا کی طرف دیکھنے لگا، انھوں نے مسکرا کر بجیا کے گلے میں بانھیں ڈال دیں۔

ماش کی دال سے بنے پاپڑ تلے ہوئے، مسور کی پتلی دال، بغیر روغن کے خشک مگر خوشبودار ابلے چاول، شلجم گوشت کا شوربے والا سالن ، فرائی کُرکُری بھنڈی اور بجیا کے لیے نرم روغنی روٹی، سب کچھ زبیدہ آپا نے اپنے ہاتھ سے صبح سویرے ہی بنا لیا تھا اور پیک کر کے اپنی پیاری ماں جیسی بجیا کے لیے لائی تھیں۔

سب جانتے تھے کہ بجیا کی خوراک بہت مختصر اور سادہ سی تھی مگر سب بہن بھائیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کا دسترخوان بہت دراز ہے۔ کوئی نہ کوئی کھانے کے وقت مہمان بن ہی جاتا ہے، اسی لیے زبیدہ آپا خوب سارا پکا کر لائیں۔ میں نے پوچھا کہ بھلا چوڑیوں سے بھرے ہاتھوں کے ساتھ کیسے کر لیتی ہیں اتنا کام؟ جواب میں بجیا زبیدہ آپا کے سجنے سنورنے کی عادت کے قصے سنانے لگیں۔ بجیا جو کچھ دیر پہلے بیماری سے نیم جاں تھیں اب باتوں ہی باتوں میں ان کے چہرے کی رونق لوٹ آئی تھی، مجھے یوں لگا جیسے زبیدہ آپا کا مشن کامیاب ہوگیا۔

زبیدہ آپا کا اگلا نشانہ بجیا کا لان تھا، عبدالوہاب کو ساتھ لگایا اور آپا ایک ایک پودا ہاتھوں سے سجاتی جاتیں۔ پتوں کو دھوتیں،پیار سے ہاتھ لگاتیں، پھر دالان دھونے کی باری آئی۔ میں جوان ہونے کے باوجود تھک چکی تھی مگر زبیدہ آپا بلاتکان بجیا کا گھر چمکانے میں جُتی ہوئی تھیں۔

تین گھریلو ملازم کھڑے منہ تک رہے تھے کہ اچانک زبیدہ آپا کی نظر ہاتھ کی گھڑی پر پڑی۔ دوپہر کے تین بج رہے تھے، چار بجے زبیدہ آپا کا ٹی وی پہ لائیو کوکنگ شو تھا۔ انھوں نے گاڑی میں رکھی استری شدہ سبز ساڑھی منگوائی، جھٹ سے باندھی، گلے میں پنے کے پتھر سے بنی مالا پہنی اور تیار۔ زبیدہ آپا بہت فریش لگ رہی تھیں جیسے کچھ کیا ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ آج تو چُھٹی کر لیں تھک گئی ہوں گی، جاتے جاتے کہنے لگیں ’بس بیٹا چاہتی ہوں کہ ایسے ہی کام کرتے ہوئے دنیا سے جاؤں، اس سے پہلے میں کبھی نہیں تھک سکتی۔‘
شاید اب زبیدہ آپا تھک گئی تھیں، اسی لیے آنکھیں بند کر کے سو گئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے