امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی عسکری امداد روک دی

امریکی محکمہٴ خارجہ نے جمعرات کے دِن پاکستان کی ’سکیورٹی اسسٹینس‘ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جس کی مالیت کا تخمینہ حکام کے بقول لگایا جا رہا ہے۔

روزانہ اخباری بریفینگ میں ایک سوال کے جواب میں ترجمان ہیدر نوئرٹ نے کہا ہے کہ ’’یہ سکیورٹی امداد تب تک بند رہے گی جب تک پاکستان دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کُن اقدام نہیں کرتا‘‘۔

اِس ضمن میں، ترجمان نے پاکستان کی جانب سے ’’حقانی نیٹ ورک اور دیگر افغان طالبان کے خلاف اقدام نہ کرنے‘‘ کا حوالہ دیا۔

ترجمان نے کہا کہ اِس سے قبل، اگست میں پاکستان کو فوجی ساز و سامان خریدنے کے لیے دی جانے والی 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی مالیت کی امداد بھی روک دی گئی تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ آج بند کی جانے والی امداد کا تعلق ’سکیورٹی اسسٹینس‘ سے ہے، ’’اور یہ کہ، جب تک پاکستان حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی نہیں کرتا تب تک یہ معاونت بند رہے گی‘‘۔

نوئرٹ نے کہا کہ ’’پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے کے نتیجے میں، افغانستان میں تعینات امریکی فوج بھی حملوں کی زد میں آتی ہے‘‘۔

ساتھ ہی، ترجمان نے بتایا کہ پاکستان کو دیا جانے والا فوجی ساز و سامان بھی روک دیا جائے گا۔

اِس سے قبل بدھ کو وائٹ ہاؤس ترجمان، سارہ سینڈرز نے اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا تھا کہ پاکستان کی امداد روکنے کا اعلان جمعرات کو متوقع ہے۔ محکمۂ خارجہ نے بھی ‘رائٹرز’ کی جانب سے اس ضمن میں پوچھے جانے والے سوال کا فوری جواب نہیں دیا تھا۔

رائٹرز کی خبر میں بتایا گیا تھا کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے ارکانِ کانگریس سے رابطہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ٹوئٹ کے بعد کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان پر امریکہ سے اربوں ڈالر امداد لینے اور بدلے میں امریکہ کو صرف "جھوٹ اور دھوکہ” دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے متعلق اپنی مستقبل کی حکمتِ عملی کا اعلان آئندہ ایک دو روز میں کرے گی۔

سالِ نو کے پہلے دن صدر کی جانب سے کیے جانےوالے اس ٹوئٹ کے بعد امریکی حکومت کے کئی اعلیٰ عہدیدار بشمول قومی سلامتی کے امریکی مشیر ایچ آر مک ماسٹر اور اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی بھی پاکستان پر امریکہ کے ساتھ "دہرا کھیل” کھیلنے اور ’’دہشت گردوں کی پشت پناہی‘‘ کے الزامات عائد کر چکے ہیں۔

عالمی ادارے میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی پشت پناہی بند نہ کرنے پر امریکہ پاکستان کو دی جانے والی 25 کروڑ ڈالر کی امداد روک رہا ہے۔

منگل کو ’وائس آف امریکہ‘ کو دیے جانے والے ایک خصوصی انٹرویو میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر مک ماسٹر نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک جزو سمجھتا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف اس کی کارروائی امتیازی ہے۔

پاکستان کی سول اور عسکری قیادت امریکی حکام کے ان بیانات کو سختی سے مسترد کر چکی ہے جب کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو طلب کرکے صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ کی وضاحت بھی طلب کی تھی۔

امریکی کانگریس کے کئی ارکان، خصوصاً ری پبلکنز جنہیں کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے، پاکستان کی حکومت اور فوج پر افغانستان میں مداخلت اور افغان طالبان کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے ہوئے ماضی میں بھی اس کی امداد روکنے کے مطالبات کرتے رہے ہیں۔

[pullquote]امریکی امداد کی بندش سے پاکستان کو 2 ارب ڈالرز کا نقصان[/pullquote]

واشنگٹن: سینئر انتظامی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امداد روکنے کے فیصلے سے پاکستان کو تقریباً 2 ارب ڈالرز کی امداد کا نقصان ہوگا جو پہلے لگائے گئے اندازے سے بھی زیادہ ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان کو طالبان اور دیگر اسلامی تنظیموں کی پشت پناہی کرنے سے روکنے کے اعلان کے بعد امریکی فوجی امداد اور افغان تعاون فنڈ دونوں روک دیے جائیں گے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 2 ارب ڈالرز کی فوجی امداد اور تعاون فنڈ کے روکے جانے کا امکان ہے۔

طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے اسلام آباد سے تعلقات پر ایک دہائی سے چلنے والے غصے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب ریت میں لکیر کھینچنے لگے ہیں۔

ایک طرف 1 ارب ڈالر کے امریکی فوجی سامان کے ذریعے پاکستان کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز تک رسائی دی گئی ہے تو دوسری جانب پاکستان کو دی جانے والی اس امداد سے امریکا اور نیٹو سامان کو افغانستان پہنچانے کے لیے پاکستان کی جانب سے راستہ دیے جانے پر کیا جاتا تھا۔

ذرائع کے مطابق تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکا تقریباً 2 ارب ڈالرز کی اس فنڈنگ کو پورا نہیں روک سکتا ہے۔

امریکی حکام نے پہلے ہی اس بات کا عندیہ دے دیا ہے کے اس فوجی امداد کے روکے جانے میں شرائط شامل ہوں گی جس میں پاکستان کو اس کے جوہری ہتھیاروں کو محفوظ بنائے جانے پر نقد کی فراہمی کی جاسکتی ہے۔

تاہم تقریباً 2 ارب ڈالر کی یہ مجموعی رقم واشنگٹن کے معاملے پر سنگینی ظاہر کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ ہے۔

سینیئر انتظامیہ حکام کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس پاکستان کو روکنے کے تمام راستے موجود ہیں۔

[pullquote]’پاکستان کے لیے مالی امداد کی بندش محض آغاز ہے’ٹرمپ [/pullquote]

سنہ 2018 کا سورج طلوع ہوتے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی ٹویٹ میں کہا کہ گزشتہ 15 برسوں میں امریکی صدور نے احمقانہ طور پر پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی خطیر امداد دی لیکن اس کے جواب میں پاکستان نے امریکہ کو جھوٹ اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اس ٹویٹ کے بعد اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے اعلان کیا کہ امریکہ پاکستان کیلئے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں مختص 255 ملین ڈالر کی رقم روک رہا ہے اور پاکستان کو فراہم نہیں کی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار پاکستان کے خلاف تادیبی کارروائیوں پر غور کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کو ملک کے اندر بعض دہشت گرد گروپوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانے ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

پاک امریکہ تعلقات کے ایک معروف ماہر ڈاکٹر وائن بام کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں یہ معاملہ ضرورت سے زیادہ آگے چلا گیا ہے جو اب دونوں ملکوں کیلئے نقصان دہ ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ صورت حال جس نہج پر پہنچ چکی ہے اُس سے توقع یہی کی جانی چاہئیے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کیلئے تمام تر فوجی امداد بند کر دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ اُردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی امداد پاکستان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اُنہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 سال کے دوران پاکستان کو 33 بلین ڈالر امداد کا ذکر کیا گیا ہے۔ پاکستان کا سالانہ بجٹ 80 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے اور پاکستان کے جی ڈی پی کو مد نظر رکھا جائے تو یہ امریکی امداد اُس کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ یوں 15 سال کے عرصے میں جو مالی رقوم موصول ہوئی ہیں وہ پاکستان کے صرف پانچ ماہ کے خرچے کے برابر ہے جو زیادہ نہیں ہے۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ امریکی امداد کی بندش کے اثرات زیادہ تر علامتی ہی ہیں کیونکہ پاکستان اور امریکہ گزشتہ 70 سال سے ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں اور ان کے رشتوں میں پڑنے والی دراڑ مالی تعاون سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اب مزید آپشنز بھی موجود ہیں اور دنیا کے حالات بھی بدل رہے ہیں۔ لہذا پاکستان پر کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب ہونے کا امکان کم ہے۔

پاک۔ امریکہ تعلقات کے ماہر شجاع نواز نے وائس آف امریکہ اُردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کولیشن فنڈ کو تسلیم کرنا سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی غلطی تھی کیونکہ پاکستان کو افغانستان کی صورت حال اور خود پاکستان میں مسلسل جاری رہنے والی دہشت گردی سے ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے اور امریکہ سے کولیشن فنڈ کے تحت ملنے والی امریکی رقوم سے اُس کی تلافی نہیں ہو سکتی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ اب 2017 اور2018 کیلئے امریکہ نے صرف 300 ملین ڈالر کے لگ بھگ مالی تعاون کا وعدہ کیا ہے جو پاکستان کیلئے بہت ہی قلیل رقم ہے۔ اس کے مقابلے میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہو جانے سے پاکستان پہلے ہی ساڑھے سات بلین ڈالر کی رقم بچا رہا ہے۔ لہذا پاکستان کو خود ہی امریکہ سے امدادی رقوم لینے سے انکار کر دینا چاہئیے تھا۔

شجاع نواز نے یہ بھی کہا کہ آنے والے دنوں میں امریکی انتظامیہ پاکستان کے فوجی عہدے داروں پر سفری پابندیاں بھی عائد کر سکتی ہے۔

امریکی کانگریس کیلئے کام کرنے والی تنظیم کانگریشنل ریسرچ سروس یعنی CRS کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15 سال کے دوران پاکستان کو فراہم کی گئی 33 بلین ڈالر کی اس رقم میں 14.5 بلین ڈالر کوالیشن اسپورٹ فنڈ کیلئے تھے جو تیکنکی اعتبار سے مالی امداد کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ یہ امریکی افواج کی سربراہی میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کیلئے پاکستان کی طرف سے لاجسٹکل اور آپریشنل تعاون فراہم کرنے کے اخراجات کی ادائیگی کیلئے تھے۔ تاہم اس کا بڑا حصہ پاکستان کی طرف سے حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف امریکہ کی منشا کے مطابق کارروائیوں سے مشروط تھا جس کے کانگریس کی طرف سے ریلیز کیلئے امریکی انتظامیہ کی تصدیق لازمی تھی۔

پاکستان کو 2015 میں ایک بلین ڈالر کی امداد میں سے 300 ملین ڈالر اور پھر 2016 میں 900 ملین ڈالر کی امداد میں سے 350 ملین ڈالر روک لئے گئے تھے کیونکہ امریکی انتظامیہ نے اس سلسلے میں تصدیق نامہ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

امریکہ نے 1947 میں قیام پاکستان کے فوراً بعد سے پاکستان کو اقتصادی امداد دینا شروع کر دی تھی جس کے کچھ عرصے بعد فوجی امداد کا بھی آغاز ہو گیا۔ 1947 سے اب تک گزشتہ 70 برس کے عرصے میں امریکہ نے پاکستان کو جو مالی اور مادی مدد فراہم کی ہے اُس کا مجموعی تخمینہ 67 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

تاہم یہ امداد مسلسل جاری نہیں رہی بلکہ اس خطے میں امریکہ کے جیو پولیٹکل مفادات کے مطابق امداد کی فراہمی جاری اور معطل ہوتی رہی۔ مثال کے طور پر 1990 کی دہائی کے دوران پاکستان کی طرف سے جوہری تجربات کے نتیجے میں امریکہ نے تمام تر امداد مکمل طور پر بند کر دی حتیٰ کہ پاکستان میں USAID کے دفاتر بھی بند کر دئے۔

امداد کی فراہمی کی متعدد بار بندش کے باعث امریکہ بڑی حد پاکستان کیلئے قابل اعتماد ساتھی کی حیثیت برقرار نہیں رکھ پایا۔ امریکی امداد باضابطہ طور پر 1951 میں 2.89 ملین ڈالر سے شروع ہوئی اور 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملے کے بعد 2002 سے امریکہ کی افغانستان میں جنگ کے حوالے سے اس امداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 2.6 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔

یہ ایسا وقت تھا جب امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں کارروائیوں کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی۔ تاہم اس میں بتدریج کمی واقع ہوتی گئی اور گزشتہ سال یہ کم ہو کر صرف 526 ملین ڈالر رہ گئی جس میں سے 223 ملین ڈالر اقتصادی شعبے کیلئے تھی جبکہ 303 ملین ڈالر سیکورٹی سے متعلقہ اُمور کیلئے مختص تھی۔ سیکورٹی کے حوالے سے اس امداد کا بڑا حصہ یعنی 255 ملین ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کیلئے تھا۔ یہ فنڈ اُن اخراجات کی واپسی کیلئے مخصوص تھا جو پاکستان کی مسلح افواج امریکہ کی درخواست پر اُس کیلئے مختلف کارروائیوں پر خرچ کرتی تھی۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی یہ پوری کی پوری رقم روک لی ہے۔ یوں حقیقی طور پر 2017 میں امریکہ سے پاکستان کو کل 271 ملین ڈالر کی امداد موصول ہوئی۔

موجودہ سال 2018 میں پاکستان کیلئے جس مالی تعاون کی منظوری دی گئی ہے، وہ مزید کم ہو کر صرف 345 ملین ڈالر رہ گئی ہے جس میں سے 211 ملین اقتصادی شعبے کیلئے اور 134 ملین سیکورٹی کے شعبے کیلئے مخصوص ہے۔ تاہم اگر ٹرمپ انتظامیہ نے 2017 کیلئے 255 ملین ڈالر کا کولیشن سپورٹ فنڈ روک لیا تھا، موجودہ سال کیلئے مختص 100 ملین ڈالر کی رقم بھی جاری ہونے کا امکان کم ہے۔ یوں 2018 کیلئے کل امریکی امداد 245 ملین رہ جائے گی۔

ماضی میں مختلف مرحلوں پر امریکی مالی تعاون کی تفصیل یہ ہے:

1965 : بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان کی امداد مکمل طور پر بند کر دی۔
اگلے برس تک پاکستان کیلئے امریکی امداد برائے نام ہی رہی۔
1979 میں سی آئی اے کی طرف اس انکشاف کے بعد اُس وقت کے صدر جمی کارٹر نے خوراک کی معمولی امداد کے علاوہ تمام تر امداد بند کر دی کہ پاکستان جوہری افزودگی کا پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔
1980 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد پاکستان کی طرف سے تعاون کیلئے امداد میں خطیر اضافہ کر دیا گیا۔
1990 کی دہائی کے آغاز میں اُس وقت کے صدر جارج بش نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ پاکستان جوہری بم نہیں بنا رہا۔ اس کے نتیجے میں پریسلر ترامیم کے ذریعے پاکستان کی امداد بہت کم کر دی گئی۔
1993 میں یو ایس ایڈ کا پاکستان میں دفتر بھی بند کر دیا گیا جو 8 سال تک بند رہا۔
1998 میں پاکستان کی طرف سے جوہری تجربات کرنے کے جواب میں امریکی امداد تقریباً بند ہی کر دی گئی۔
11 ستمبر، 2011 کے دہشت گرد حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کی امداد میں خطیر اضافہ کیا گیا۔
2004 میں امریکہ نے پاکستان کے ذمہ امریکی قرضے کی ادائیگی میں مدد کیلئے پاکستان کو ایک بلین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
2009 میں امریکی کانگریس نے کیری لوگر بل پاس کیا جسے پاکستان کے ساتھ شراکت کا ایکٹ 2009 بھی کہا جاتا ہے۔ اس بل کے تحت امریکی کانگریس نے 2010 سے 2014 کیلئے امریکی امداد بڑھا کر ساڑھے سات بلین ڈالر کر دی۔
2002 سے 2009 کے درمیان پاکستان کو موصول ہونے والی امریکی رقوم کا صرف 30 فیصد اقتصادی شعبے کیلئے تھا جبکہ باقی 70 فیصد رقم سیکورٹی میں تعاون کی مد میں فراہم کی گئی۔
2011 میں پاکستان سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا چوتھا ملک بن گیا۔ اس سال امریکہ کی بیرونی امداد کا 3.4 فیصد پاکستان کے لئے مخصوص کیا گیا۔ سب سے زیادہ امریکی امداد 26.1 فیصد افغانستان کو دی گئی۔
اس سال امریکہ کے علاوہ متعدد عالمی مالیاتی اداروں نے بھی پاکستانی امداد میں اضافہ کر دیا۔
2016 میں پاکستان کیلئے امریکی مالی معاونت کم ہو کر 537 ملین ڈالر کر دی گئی۔

[pullquote]پاکستان کی امداد رکوانے کا بِل متعارف کیا جائے گا: سینیٹر رینڈ پال[/pullquote]

ریاستِ کنٹکی سے تعلق رکھنے والے ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر، رینڈ پال نے کہا ہے کہ وہ بہت جلد سینیٹ میں ایک بِل متعارف کرا رہے ہیں جس میں پاکستان کی امداد بند کرنے کے لیے کہا جائے گا، تاکہ یہ رقوم داخلی زیریں ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے مختص کی جا سکیں۔

آن لائن پوسٹ کی گئی ایک وڈیو میں، پال نے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، جو، بقول اُن کے، ’’اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کر رہا ہے، جب کہ امریکہ سے امداد میں اربوں ڈالر وصول کر رہا ہے‘‘۔

پال نے کہا ہے کہ ’’امریکہ اُن ملکوں کو ایک پائی بھی نہ دے جو ہمارا پرچم نذر آتش کرتے اور ’امریکہ مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہیں‘‘۔

بقول اُن کے، ’’پاکستانی جیسے ملک جو دہشت گردی کے خلاف لڑائی سے متعلق اہم معلومات تک رسائی پر پہرے لگاتے ہیں، اُنھیں رقم لینے کا حق حاصل نہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’میں کہتا ہوں کہ ہمیں یہ سلسلہ بند کرنا چاہیئے۔ لوگوں کے خون پسینے سے کمائے گئے ڈالر جو عوام ٹیکس میں ادا کرتے ہے، اُنھیں پاکستان کو دینا بند کیا جائے‘‘۔

پال نے سنہ 2015میں فلسطینی اتھارٹی کو امداد بند کرنے کا بل متعارف کرایا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں ٹرمپ کے حالیہ بیان سے تقویت ملی ہے جس میں اُنھوں نے پاکستان کی اعانت پر امریکہ پر تنقید کی۔ اُنھوں نے اس معاملے پر صدر کے مؤقف کو ’’پیش رفت‘‘ کے مترادف قرار دیا۔

پال نے کہا کہ ’’میں برسہا برس سے پاکستان کی امداد رکوانے کی جنگ لڑ رہا ہوں۔ لیکن، اب ہمیں ایک پیش رفت نظر آرہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کھل کر یہ مطالبہ کیا کہ اُن کی امداد بند کی جائے، اب وہ 20 کروڑ ڈالر سے زائد رقم روک رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کی ساری رقوم روکی جائیں‘‘۔

پال کا یہ بیان امریکی محکمہٴ خارجہ کی جانب اس اعلان سے قبل آیا جس میں ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے میں ناکامی پر مایوسی کے بعد، امریکہ پاکستان کی سکیورٹی معاونت معطل کر رہا ہے۔

[pullquote]امریکی فیصلے سے مشترکہ مقاصد پر اثر پڑے گا: پاکستان[/pullquote]

دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی فیصلے سے دونوں ممالک کے مشترکہ مقاصد پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی عسکری امداد روکنے کے اعلان کے بعد پاکستان نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ یک طرفہ ڈیڈلائنز اور اعلانات مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لیے موافق نہیں اور پائیدار امن کے لیے باہمی عزت اور اعتماد ضروری ہے۔

اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کی جانب سے جمعے کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے وسائل سے 120 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سکیورٹی تعاون کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور اسے امداد معطل کیے جانے کے بارے میں امریکہ کے جواب کا انتظار ہے۔

دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی فیصلے سے دونوں ممالک کے مشترکہ مقاصد پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے بڑھ کر لڑی ہے اور پاکستان مستقبل میں بھی خطے میں قیامِ امن اور لوگوں کو محفوط بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے پاک امریکہ تعاون کا فائدہ سب سے زیادہ امریکہ اور عالمی برادری کو ہوا ہے۔ پاکستان کے اقدامات سے القاعدہ سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ ممکن ہوا جو بیان کے مطابق دونوں ملکوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں۔

بیان میں ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر سرگرم ان دہشت گرد گروہوں سے عالمی امن کو خطرہ تھا۔ پاکستان نے تسلسل کے ساتھ آپریشنز کے ذریعے اپنے علاقے دہشت گردوں سے خالی کرائے اور اس سے عالمی برادری کو بھی فائدہ ہوا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے اقدامات کے بعد سرحد پار افغانستان سے بھی ایسے ہی اقدمات کا انتظار ہے۔ افغان سرزمین کے وسیع علاقے پر حکومتی عمل داری نہیں۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے گزشتہ روز پاکستان کو دی جانے والی سکیورٹی امداد روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف بلا امیتاز کارروائی نہ کرنے پر یہ امداد روکی گئی ہے۔

[pullquote]امداد کی بندش انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر اثرانداز نہیں ہوگی: آئی ایس پی آر[/pullquote]

پاکستان کی فوج نے جمعے کے روز کہا ہے کہ امریکی امداد بند ہونے سے سکیورٹی کے باہمی تعاون اور علاقائی امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ تاہم، اس سے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے عزم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

میجر جنرل آصف غفور نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’پاکستان پیسوں کی خاطر نہیں، بلکہ امن کے لیے لڑ رہا ہے‘‘۔

ٹرمپ انتظامیہ نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ جب تک پاکستان افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ’’فیصلہ کُن کارروائی‘‘ نہیں کرتا، پاکستان کو دی جانے والی کروڑوں ڈالر پر مشتمل فوجی امداد معطل رہے گی۔

شدت پسند گروپ مبینہ طور پر پاکستانی علاقے سے کارروائیاں اور افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کرتے ہیں۔

میجر جنرل غفور نے کہا کہ’’سکیورٹی اعانت کی بندش سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پاکستان کا عزم ہرگز متاثر نہیں ہوگا۔ تاہم، یہ پاکستان امریکی سکیورٹی تعاون اور علاقائی امن کی کوششوں پر ضرور اثرانداز ہوگا‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ فوج کی قیادت والی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی مدد سے دہشت گردوں کو ’’بلا امتیاز‘‘ نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں حقانی گروپ بھی شامل ہے، جنھیں ’’شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا‘‘۔ جنرل غفور نے کہا ہے کہ پاکستان کی حدود میں دہشت گردوں کے مزید ’’منظم‘‘محفوظ ٹھکانے نہیں رہے۔

فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’’ہماری نیت پر شک کرنا دیرپہ امن اور استحکام کی جانب یکساں مقاصد کے حصول کے لیے اچھا نہیں ہے۔ پاکستان اپنے اور امن کے بہترین مفاد میں اپنی مخلصانہ کوششیں جاری رکھے گا‘‘۔

[pullquote]امریکی امداد کی معطلی:’فیصلے سے دونوں ممالک میں فاصلے بڑھیں گے‘ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری[/pullquote]

اسلام آباد: امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی امداد روکنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں بات کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے کہا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے جو قربانیاں دیں اور جو کامیابیاں حاصل کیں ان کی اگر قیمت لگانا شروع کردیا جائے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’امریکا کے حالیہ بیانات اور اقدامات پر ہمیں حیرت اس لیے ہوئی کہ حال میں امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس نے پاکستان کے دورے کیے جن میں مشترکہ گراؤنڈ ڈھونڈنے کی بات ہوئی، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نہ کہ منفی بیانات دے کر باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی حکام کی جانب سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کے خلاف منفی بیانات آرہے تھے، لیکن ساتھ ہی سرکاری سطح پر ہماری ان سے بات چیت بھی چل رہی ہے تاہم یہ امریکا کے فیصلے ہیں، پاکستان اور امریکا نے 70 سالوں میں کئی بار ایک ساتھ کام کیا ہے اس لیے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب ہم اکٹھے کام نہ کریں۔‘

اعزاز چوہدری نے کہا کہ ’ہر ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنا مفاد عزیز ہے لیکن اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ تصادم کی صوتحال ہی پیدا ہو۔‘

بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’خطے میں بڑا کردار حاصل کرنے کے لیے بھارت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس کا حقدار ہے، ہمیں افغانستان میں بھارت کے تعمیری کردار پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں امریکا کی ناکامیوں کا پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، افغانستان کی موجودہ صورتحال کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جاسکتا، امریکا کو 680 ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود وہاں کامیابی نہیں ملی کیونکہ افغانستان کا حل عسکری نہیں سیاسی ہوسکتا ہے جس کے لیے پاکستان مدد کرنے کو تیار ہے۔‘

امریکی امداد سے متعلق پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’امریکا کے 33 ارب ڈالر میں سے آدھی سے زائد رقم وہ تھی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم پہلے ہی خرچ کرچکے تھے، اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو پاکستان نے امریکا کو زمینی اور فضائی راستہ دینے کے لیے خرچ کی جبکہ امداد روکنے سے دونوں ممالک ایک دوسرے سے دور ہوں گے۔‘

پاکستان کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو امریکا کے ساتھ معاملے پر اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے، ہمارا موقف ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہمارا مشترکہ مقصد ہے جس کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا اور پاکستان کے ساتھ باقی ممالک کو بھی اس کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے