معروف صحافی اعزاز سید کے ساتھ انٹرویو میں پاکستان کے طاقتور ترین گورنر عشرت العباد نے کیاکیا انکشافات کیے ؟؟؟

اعزاز سید کے ساتھ انٹرویو میں پاکستان کے طاقتور ترین گورنر عشرت العباد نے کیاکیا انکشافات کیے ؟؟؟

اعزاز سید
سینئر صحافی

جیو نیوز کے سینئر کارسپانڈنٹ اعزاز سید نے دبئی میں مقیم سابق گورنر سندھ عشرت العباد سے طویل ملاقاتیں کیں . وہ تقریبا ایک ہفتہ روزانہ عشرت العباد سے ملتے رہے اور ان کی روزانہ تقریبا چار گھنٹے سے زائد ملاقات ہوتی رہی . عشرت العباد پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ اقتدار میں رہنے والی شخصیت ہیں .اس نسبت سے یہ ان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد ان کا پہلا اور مفصل ترین انٹرویو ہے . اعزاز سید ایک کہنہ مشق صحافی ہیں جنہیں خبر کے پیچھے دوڑنے کا فن آتا ہے . آئی بی سی اردو سے گفت گو کرتے ہوئے اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عشرت العباد کے ساتھ کی گئی مکمل گفتگو شائع نہیں کی گئی کیونکہ ان سے انٹرویو کرنے سے پہلے یہ طے کیا گیا تھا کہ گفتگو کا وہ حصہ شائع نہیں کیا جائے گا جس کی وہ اجازت نہیں دیں گے . اس انٹرویو کو ہم اعزاز سید اور جنگ گروپ کے شکریے کے ساتھ شائع کر رہے ہیں .
ایڈیٹر آئی بی سی اردو

[pullquote]افتخار چوہدری کی نظربندی ختم کرنے کے مشرف کے حکم پر عمل نہیں ہوا، عشرت العباد[/pullquote]

بدھ کا سرد دن، 18دسمبر 2002، متحدہ قومی موومنٹ انٹرنیشنل سیکرٹریٹ لندن میں فون کی گھنٹی بجتی ہے، خودساختہ جلاوطن اور پارٹی کے بانی کے قابل اعتماد ساتھی محمد انور فون کے اسپیکر کا بٹن دباتے ہیں۔ ’’میں میجر جنرل احتشام ضمیر، آئی ایس آئی کا ڈپٹی ہوں، ‘‘یہ آواز کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتی ہے۔ خیرسگالی پر مبنی جملوں کے تبادلے کے بعد آئی ایس آئی کے ڈپٹی، انور کو بتاتے ہیں کہ انہیں گورنر سندھ کے لئے تین نام درکار ہیں۔ انور جواب دیتے ہیں کہ وہ بانی متحدہ سے نام معلوم کر کے انہیں بتاتے ہیں۔ انور کو ابھی پارٹی سربراہ کو کال کرنی تھی جو لندن سیکرٹریٹ کے نزدیک رہتے ہیں۔ اچانک فون کی گھنٹی دوبارہ بجتی ہے۔ طریقہ کار کے مطابق انور کال ریسیو کرنے کے لئے اسپیکر کا بٹن دباتے ہیں۔ اس مرتبہ بانی متحدہ خود ہیںاور معلوم کرتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ محمد انور انہیں احتشام ضمیر کی کال کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ گورنر سندھ کے لئے نام مانگ رہے ہیں۔ بانی متحدہ ان سے کہتے ہیںکہ تین نام لکھو اور پھر تین نام لکھواتے ہیں، خود اپنا نام، اپنی ایک سال کی بیٹی افضا الطاف کا نام اور ڈاکٹر عشرت العباد۔ جو اس وقت اسی میز پر محمد انور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے میں بیٹھا ہوا ہر شخص جانتا تھا کہ بانی متحدہ اصل میں گورنر کے عہدے کے لئے عشرت العباد کا نام لے رہے ہیں۔ لیکن وہ شخص جس کانام مسند کے لئے منظور کیا گیا تھا وہ اس معاملے پر کسی فیصلے سے قبل اپنی بیوی اور بچوں سے تبادلہ خیال کرنا چاہتا تھا۔

عشرت العباد اپنے گھر جاتے ہیں، اپنی بیوی شاہینہ جبین اور اپنے چاروں بچوں سے اپنے گورنر بننے کے بارے میں ان کی رائے معلوم کرتے ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ جب وہ سرکاری عہدہ لینے جارہے تھے، 90 کی دہائی کے اوائل میں وہ صوبائی ہاؤسنگ اینڈ انوائرمنٹ کے وزیر رہ چکے تھے۔ عباد کی اہلیہ شاہینہ جبین جو میڈیکل کی سابق طالبہ تھیں، اپنے شوہر کو مشورہ دیتی ہیں کہ یہ عہدہ قبول نہ کیا جائے، کیونکہ 1993 میں ملک چھوڑنے کے بعد سے ان کی زندگی پہلے ہی پریشانی کا شکار ہے۔ اہلیہ اور بچے مسلسل بے یقینی کی صور تحا ل میں رہنے اور کام کرنے سے اکتا چکے ہیں۔ شاہینہ چاہتی ہیں کہ عباد پارٹی چھوڑ دیں اور اپنے خاندان اور لندن میں میڈیکل کے پیشے پر توجہ دیں۔ پورا خاندان متفقہ طور پر اس خیال کو مسترد کردیتا ہے۔ اس دوران جبکہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں ان کی لینڈ لائن کے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ عباد فون اٹھاتے ہیں، بانی متحدہ دوسری جانب ہیں۔ عباد انہیں اپنے خاندان کے فیصلے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ بانی متحدہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور اسپیکر پر پورے خاندان سے بات کرتے ہیں اور انہیں عہدہ قبول کرنے پر راضی کرتے ہیں۔ خاندان ہچکچاتے ہوئے قبول کر لیتا ہے اور اسی دن عباد کا پورٹ فولیو سیکورٹی کلیئرنس کے لئے آئی ایس آئی کو بھیج دیا جاتا ہے اور عشرت العباد اگلے چند روز میں اسلام آباد روانہ ہونے کے لئے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔

یہاں سے عشرت العباد کااس مسند کے لئے سفر شروع ہوتا ہے جسے انہوں نے کامیابی سے 13 برس 11 ماہ اور 13 روز تک سنبھالے رکھا۔ ہم دبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے ہیں جہاں عباد اس صحافی کو اپنے ماضی کے کچھ واقعات میں شریک کر رہے ہیں۔ سیاستدان اکثر کہتے ہیں کہ اقتدار حاصل کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر اقتدار میں رہنا ایک سیاستدان کی کامیابی کا تسلیم شدہ پیمانہ ہے تو عشرت العباد بلاشبہ اس ملک کی تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں جنہوں نے طویل عرصے تک مسند سنبھالے رکھی حتی کہ فوجی ڈکٹیٹر سے بھی زیادہ عرصے تک۔ انہوں نے چار صدور کے ساتھ جن میں سے ایک فوجی آمر تھے، 7 وزرائے اعظم، 6 وزرائے اعلی اور تین فوجی سربراہان کے ساتھ کام کیا۔ کسی اور سیاستدان یا یہاں تک کہ فوجی آمر کو بھی یہ اعزاز حاصل نہیں۔ کہانی جاری ہے۔ 21 دسمبر 2002 ہفتے کو سرکاری چھٹی ہونے کے باوجود پاکستانی ہائی کمیشن عباد کو پاسپورٹ جاری کرتا ہے کیونکہ ان کا پاسپورٹ پہلے ہی زائدالمعیاد ہوچکا تھا اور وہ سیاسی پناہ میں رہ رہے تھے۔ ٹکٹ کا انتظام کیا گیا اور اسی روز عباد نے اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کیا جہاں ان کا استقبال آئی ایس آئی کے ڈپٹی نے کیا اور بعد میں انہیں ان کی سرکاری رہائش گاہ سندھ ہاؤس لے جایا گیا۔ دو روز کے بعد آئی ایس آئی کے ڈپٹی میجر جنرل احتشام ضمیر انہیں آرمی ہاؤس روالپنڈی لے جاتے ہیں جہاں جنرل پرویز مشرف ان کے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق ، ان کے چیف آف اسٹاف جنرل حامد جاوید، ایم آئی چیف میجر جنرل ندیم تاج اور ان کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے ساتھ بیٹھے تھے۔دونوں اس میٹنگ میں شامل تھے جہاں مشرف نے عشرت العباد کو خوش آمدید کہا اور اس ملاقات کا آغاز ان کے ماضی اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھ گچھ سے ہوا۔

اس میٹنگ میں جنرل مشرف نے دیگر سوالات کے علاوہ مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ سندھ میں میجر کلیم کے کیس میں میرا کردار کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے اس بارے میں بتایا گیا تھا ۔میں نے انہیں کہا کہ آپ چیک کرسکتے ہیں کہ اس کیس میں کچھ دیگر افراد نامزد ہیں۔ میں اسے بھی نہیں جانتا۔ یہ بات عشرت العباد نے اس انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتائی۔ اسی میٹنگ میں عشرت العباد سے مشرف نے پوچھا تھا کہ ان کی جماعت بہت مقبول اور متوسط طبقے کی نمائندگی کرتی ہے تو آپ کی جماعت کے لوگ تشدد کی وارداتوں میں کیوں ملوث ہیں؟ عشرت العباد نے کہا کہ جب کوئی جماعت مقبول ہوجاتی ہے تو ایسا ہوتا ہے۔میں نے مشرف سے کہا کہ’’خدا جب حسن دیتا ہے، نزاکت آہی جاتی ہے۔‘‘اس پر مشرف سمیت جتنے بھی لوگ میٹنگ میں موجود تھے ہنسنے لگے۔انہوں نے بتایا کہ فوجی افسران کے ساتھ یہ ان کی پہلی میٹنگ تھی ، جنہوں نے آئندہ دو برسوں میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔وہ ان کا دل جیت چکے تھے۔ 26دسمبر کی اسی سرد شام میں میجر جنرل احتشام ضمیر ، عشرت العباد کو اپنی گاڑی میں اسلام آباد لے گئے اور انہوں نے ایک ریسٹورینٹ میں رات کا کھانا کھایا۔

اچانک میجر جنرل احتشام نے عشرت العباد سے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس کل حلف اٹھانے کی تقریب کے لیے شیروانی ہے یا نہیں؟ عشرت العباد نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ ضروری ہوتی ہے۔ جس کے بعد آئی ایس آئی کے ڈپٹی چیف عشرت العباد کو اسلام آباد میں ہی اپنے درزی کے پاس لے گئے۔ رات کی تاخیر کی وجہ سے دکان بند ہونے والی تھی۔ میجر جنرل احتشام نے دکاندار سے کہا کہ یا تو انہیں کوئی شیروانی دو یا پھر آج رات ہی سی کر دو کیوں کہ انہیں کل حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ دکاندار نے بتایا کہ درزی گھر جاچکا ہے اس لیے ممکن نہیں ہے کہ آج رات شیروانی سی کر دی جاسکے ، تاہم اس نے اپنے ایک صارف کی شیروانی انہیں دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ انہیں پوری آتی ہے تو ٹھیک ہے بصورت دیگر اس کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ عشرت العباد نے وہ شیروانی پہن کر دیکھی ، ان کی قسمت اچھی تھی اور شیروانی انہیں پوری آئی، جیسے کہ وہ شیروانی ان کے لیے ہی بنی تھی۔ اگلے روز عشرت العباد نے 30 ویں نوجوان ترین گورنر کا حلف اٹھایا، جب کہ وہ ایک ایسے شخص کی شیروانی پہنے ہوئے تھے، جسے وہ جانتے تک نہیں تھے۔ ان کے اختیا را ت کے حصول کا سفر اسی روز شروع ہوا۔ آنے والے دنوں میں انہیں سخت راستے پر چلنا تھا جو، ان کی پارٹی پالیسی اور فوجی قیادت کی لائن جو کہ اصل میں ملک چلا رہے تھے، کے درمیان کا راستہ تھا۔ وہ پہلے ہی دونوں کا دل جیت چکے تھے۔ عشرت العباد کے گورنر ہاؤس پہنچتے ہی ان کے راولپنڈی آرمی ہاؤس کے بھی متعدد دورے شروع ہوگئے۔ جہاں انہوں نے جنرل مشرف اور ان کے ساتھی فوجی افسران سے قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کردیئے۔ وہ بہت جلد ہی راولپنڈی کے بھروسے مند سویلین فرد بن گئے کیوں کہ فوج باضابطہ طور پر انہیں اجلاس میں شرکت کی دعوت دیتی رہی، یہاں تک کے ان اجلاسوں میں بھی ان کی شرکت ہونے لگی جہاں صرف فوجی افسران ہی شریک ہوتے تھے۔

فروری 2003 میں اسی طرح کے ایک اجلاس میں جو کہ جنرل پرویز مشرف کے سربراہی میں ہورہا تھا، وہ شریک ہوئے۔ اجلاس میں ملک میں اصلاحاتی عمل کے حوالے سے ایک بہترین سیشن ہوا، جہاں وزیر اعظم جمالی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سردار علی محمد مہر کی کارکردگی سے متعلق انٹیلی جنس رپورٹس زیر بحث آئیں۔ اجلاس کے شرکا اس کارکردگی رپورٹ پر سخت نالاں ہوئے، صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہر کسی نے اپنی رائے دی، کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ سیاسی نظام ختم کیا جانا چاہیئے۔ اس کے بعد مشرف نے نوجوان اور واحد سویلین شخص عشرت العباد کو اپنی رائے دینے کےلئے کہا۔ عشرت العباد نے افسران سے کہا کہ، آپ لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ نظام کو چلنے نہیں دینا چاہتے، آپ نظام سے بہت جلد بے زار ہوجاتے ہیں، یہاں تک کے اس نظام سے بھی جو آپ نے خود بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی استحکام کا دارومدار عوام کی حقیقی سیاسی نمائندگی سے ہوتا ہے، مصنوعی نمائندگی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جس کا آج ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل مشرف اور تمام افسران خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے اور یہ خاموشی اس وقت تک قائم رہی جب تک عشرت العباد اپنے اگلی بات کرنے کے لیے رکے۔

یہاں عشرت العباد نے تجویز دی کہ اگر عوامی عہدیدار اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے تو پورے نظام کو سزا نہیں دینی چاہئے، جو شخص مسئلے کی وجہ ہے صرف اسے نکال دینا چاہئے۔ اس پر مشرف نے جلدی سے کہا کہ ہاں ہم ایسا ہی کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احسان، ڈی جی ایم آئی میجر جنرل ندیم تاج اور مشرف کے چیف آف اسٹاف سب نے مثبت اظہار کیا۔ عشرت العباد نے تجویز دی کہ یہ رپورٹس براہ راست متعلقہ افراد سے شیئر کی جائیں اور انہیں جواب دینے کا موقع دیا جائے۔ اگلے برس کے وسط تک دونوں چلے گئے اور نئے اصول بنائے گئے یعنی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے بجائے مسئلے کی وجہ بننے والے شخص کو ہٹایا جائے۔ آج کی تاریخ تک بہت سے چہرے تبدیل ہوئے ہیں اور یہ اصول اب تک کام کررہا ہے۔ مشرف کے دور میں نظام کی اندرونی ساخت ویسی ہی رہی۔ صدر اور آرمی چیف مشرف ہمیشہ مشاورتی اجلاس اپنے آئی ایس آئی چیف اور ایم آئی چیف کے ساتھ رکھتے تھے۔ ان کے پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز، چیف آف اسٹاف اور گورنر سندھ عشرت العباد بھی بہت سے اہم اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے، زیادہ تر اجلاس آرمی ہائوس میں ہی ہوتے رہے۔ 9 مارچ ،2007 کو گورنر سندھ عشرت العباد نے نیوی کی ایک تقریب میں صدر مشرف کو خوش آمدید کہا۔جنرل مشرف سیدھے راولپنڈی سے آئے تھے اور تھکے تھکے سے لگ رہے تھے، ہاتھ ملانے کے بعد دونوں دیگر افسران کے ہمراہ ایک ساتھ بیٹھ گئے۔ جس کے بعد مشرف نے بتایا کہ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برخاست کردیا ہے اور ان کے خلاف ریفرنس بھجوادیا ہے۔ڈاکٹر عشرت العباد ان کی جانب دیکھتے ہیں لیکن وہ زیادہ بات نہیں کرتے کیونکہ دوسرے لوگ بھی قریب ہی موجود ہیں۔

تقریب کے بعد دونوں گورنر ہاؤس کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس کو ہٹانے سے متعلق خبر کوئی خبر نہیں تھی کیونکہ پرویز مشرف نے پہلے ہی یہ بات ڈاکٹر عباد کو 2006 کے دسمبر کے آغاز میں بتا دی تھی۔ عباد نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت مشرف صاحب نے ان سے کہا تھا کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں سب چیف جسٹس کے خلاف شکایت کر رہے ہیں۔‘‘ گورنر ہاؤس میں ڈاکٹر عشرت العباد اور جنرل پرویز مشرف نے دوبارہ برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کے مسئلے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ عباد نے انہیں بتایا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پرویز مشرف نے کہا کہ اب سب کچھ ہوچکا ہے اور پھر وہ اسلام آباد کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس وقت تک افتخار چوہدری کو ہٹانے کی خبر نجی ٹی وی چینلز کی ہیڈلائنز بن چکی تھی۔ اسی شام گورنر ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے گھر پر نظربند کر دیا گیا ہے۔ وہ فون پر مشرف سے بات کرتے ہیں کہ وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ کچھ گھنٹوں کے بعد وہ اپنے وقت کے طاقتور ترین شخص جنرل پرویز مشرف کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ مشرف سے کہتے ہیں کہ ’’سر، آپ نے برطرف چیف جسٹس کے خلاف جو بھی ریفرنس فائل کیا ہو لیکن انہیں ان کے گھر پر ان کے اہل خانہ کے ساتھ نظربند کرنا اچھا نہیں ہے۔‘‘ ’’کیا، میں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا، مشرف کے جواب سے انکشاف ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی کو حکم نہیں دیا کہ برطرف چیف جسٹس کو نظربند رکھیں۔ نوجوان گورنر دیکھتے ہیں کہ مشرف کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ پرویز مشرف فوری طور پر فون اٹھاتے ہیں اور ہدایت دیتے ہیں کہ افتخار چوہدری پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے، گورنر سندھ اطمینان کے ساتھ واپس آتے ہیں کہ اب معاملات مثبت طور پر آگے بڑھیں گے ، اس حقیقت کے باوجود کہ پہلے ہی نقصان تو ہو چکا ہے۔ عشرت العباد یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں پر اعتماد تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے حکم پر عمل کیا جائے گا لیکن مجھے مایوسی ہوئی کہ صدر کے حکم پر عمل نہیں ہوسکا کیونکہ وقت اور صورتحال پہلے ہی بد سے بدترین ہوچکی تھی۔

[pullquote]سانحہ 12 مئی کو روکنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کوفون کئے لیکن کسی نے بات نہیں مانی، عشرت العباد[/pullquote]

عشرت العباد پرویز مشرف کی معزول چیف جسٹس کےساتھ لڑائی اور لندن سے راولپنڈی کی طرف تبدیلی کی اندرونی کہانی یوں بیان کرتے ہیں۔ جنرل مشرف دورانِ صدارت اپوزیشن سے لڑرہے تھے جو مشترکہ طور پر معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کوسپورٹ کررہی تھی۔ معزول جج نےاسلام آباد سے 24گھنٹے کے سفرکےبعد لاہور کا تاریخی دورہ کیا۔ ان کے ساتھیوں نے سندھ میں حکمران پی ایم ایل اور ایم کیوایم کومشترکہ طور پر شکست دینے کا فیصلہ کیاتھا۔ 12مئی 2007کوکراچی میں وکلاءسے خطاب کیلئے معزول جج کو صوبائی بار کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب ایم کیوایم نے بھی اسی دن جنرل مشرف کے حق میں ایک ریلی نکالنے کا اعلان کردیا اور پی پی پی، اے این پی اور ایم ایم اےنے بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دلدل میں کودنے کا اعلان کیا۔ یہ واضح ہوگیاتھاکہ 12 مئی کو ایک خونی کھیل کھیلاجائےگا کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں جو ایک دوسرے کے خلاف تھیں، انھوں نے سڑکوں پرایک دوسرے کے خلاف مظاہروں کا اعلان کردیاتھا۔ رینجرز اور پولیس دنوں اکٹھے اُن سے نہیں نمٹ سکتے تھے۔ یہاں ڈاکٹرعشرت العباد نےتمام کھلاڑیوں کےساتھ بیک ڈور بات چیت کا آغاز کیا اور کراچی کے تمام سٹیک ہولڈرز کو فون کرنا شروع کردیئے تاہم کسی نے بھی بات نہیں مانی جس کے باعث اس دن 56 افراد مارے گئے۔

ڈاکٹرعشرت العبادنےاُس دن اپنی بے بسی کے بارے میں بتاتے ہوئےکہا کہ، ’’ میں نےتمام لوگوں کو احتجاج سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن کسی نے بات نہیں سنی۔‘‘ تاہم انھوں نےسندھ کے سابق چیف جسٹس صبیح الدین کے کردار کو سراہا جنھوں نے لوگوں کی حفاظت کی خاطر حالات بدلنے کی بہت کوشش کی، لیکن گورنر کی طرح وہ بھی ناکام رہے۔ میں نے ایک سادہ سوال کیاکہ 12مئی کے لیے آپ کے خیال میں کون ذمہ دار ہے۔ ڈاکٹرعشرت العباد نے مختصرجواب دیاکہ ’’تمام سٹیک ہولڈرز۔‘’ عوامی نیشنل پارٹی کےصوبائی سربراہ شاہی سید کامردان ہائوس جو رہائش گاہ کے ساتھ آفس بھی تھا، وہ جگہ اُن لوگوں کیلئے مرکز بن چکی تھی جو اس دن کے شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کرنا چاہتےتھے۔ 19مئی کوعشرت العباد کو ایک انٹلیجنس رپورٹ موصول ہوئی کہ اے این پی 12مئی کومرنےوالوں کیلئے 3روزہ سوگ کا اعلان کرناچاہتی ہے۔ یہ واضح تھاکہ سوگ کیلئے مجوزہ تاریخوں یعنی مئی کی 26، 27 اور 28 کو مزید لاشیں گرنی تھیں۔ انھوں نے ایک بار پھر پہل کرتے ہوئے این پی کے سربراہ اسفند یارولی کو فون کیا جو اس وقت کراچی میں مردان ہائوس میں موجود تھے۔ عشرت العباد نےاسفندیارولی سےکہاکہ،’’ میں تعزیت کیلئے آپ کے پاس آنا چاہتاہوں۔‘‘ غیرمتوقع طور پر پٹھان رہنما نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ، ’’ آپ نہ آئیں کیونکہ یہاں لوگ بہت جذباتی ہیں اور کوئی بھی آپ کو گالی دے سکتاہے اور یہ ہماری ثقافت کے خلاف ہے۔ عباد نے جواب دیاکہ میں اب راستے میں ہوں ثقافت کی حفاظت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگلے ہی گھنٹے عباد مردان ہائوس میں تھے، یہ کسی بھی مہاجر رہنما کا اے این پی کے ہیڈکوارٹرزکاپہلادورہ تھا۔

انھوں نے فاتحہ پڑھی اور اسفندیار ولی کو سائیڈ پر لے جاکر بتایا کہ شہرمیں پہلے ہی بہت خون خرابا ہورہاہے اگر آپ مزید احتجاج کا اعلان کریں گے تو مزید لاشیں گریں گی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایاکہ،’’ میں نے اسفند یار صاحب کو بتایا کہ چونکہ آپ کے گھر یہ میرا پہلا دورہ ہے لہذا میری درخواست مان لیں، اُن کی مہربانی تھی کہ انھوں نے میری بات مان لی اور کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میں ٹھیک تھا۔‘‘ دوسری سیاسی جماعتوں کو منانے کیلئے عباد نے پی پی پی، ایم کیوایم، جےآئی اور جےیوآئی(ف) کے رہنمائوں سے بھی ملاقات کی۔ سب نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔ لہذا ایک اور ممکنہ بحران ٹل گیا۔ جنرل مشرف کی جانب سے 3نومبر 2007 کی کارروائی: چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد دونوں ہی جنرل مشرف کی زیرقیادت حکومت اورعدلیہ ایک ساتھ نہیں تھے۔ 3نومبر کو جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کردی۔ میں یہ جاننے کیلئے بےتاب تھا کہ اس اقدام سے قبل حکومت کو اعتماد میں لیاگیاتھا یا نہیں اور اس وقت حکومتی اداروں کا کیا ردعمل تھا؟ ڈاکٹرعشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایاکہ،’’ ہاں غالباً اکتوبرکےآخری ہفتے میں حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھااور3نومبرکوایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ،’’ ہمیں بتایا گیا تھاکہ مختصر مدت کیلئےمیڈیا کے ایک حصے پربھی پابندی عائد کی جائےگی۔‘‘ جنرل مشرف کمزورسے کمزور تر ہوتےگئے:

انتخابات سے قبل جنرل مشرف نے وردی اتاردی تھی اور نومبر 2007 کوملٹری کمانڈ جنرل کیانی کے سپرد کردی۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو نے 18اکتوبر کو واپسی کااعلان کردیاتھا۔ ان کی آمد سے قبل اُن پرحملے کا خطرہ تھا۔ عشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایاکہ،’’حالات بالکل اسی طرح ہوگئے تھے جس طرح رپورٹس میں پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس روز صدر مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز گورنر اور وزیرِاعلیٰ سے مستقل رابطے میں تھے۔ آدھی رات کو جب حملہ ہوا تو پہلے 30 منٹ تک تو حکومت کو حملے کی نوعیت کے بارے میں پتہ ہی نہیں لگا۔ جیسے ہی بے نظیر بھٹو اپنے گھر پہنچی اور میں نے اُن سے خیریت دریافت کی تومشرف صاحب نے مجھے فون کیا اور میں نے انھیں بتایا کہ میں نے بے نظیر بھٹوسے بات کرلی ہے۔‘‘ انھوں نے تسلیم کیاکہ بے نظیر بھٹو کی آمد پر ہوئے حملے سے متعلق تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ بدقسمتی سےدسمبر میں بےنظیر بھٹو راولپنڈی میں قتل کردی گئیں اور پہلے ہی کشیدہ ماحول مزید کشیدہ ہوگیا۔ معزول ججز تاحال بحالی کے منتظر تھےاور معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑرہاتھا۔

جون، جولائی 2008 میں خفیہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد عشرت العباد نے پہل کرنے کا آغاز کیااور راولپنڈی چلے گئے۔ صدرمشرف سے اجازت لینے کے بعد وہ خاموشی سے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کے گھر چلے گئے۔ معزول چیف جسٹس نے اُن کااستقبال کیا اور گورنرکےساتھ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے ایک تصویر کی جانب اشارہ کیا جس میں وہ جنرل مشرف سے حلف لے رہے تھے، انھوں نے کہاکہ، ’’ میں نے ابھی تک اس تصویر کو گُم نہیں ہونےدیا۔‘‘ معزول چیف جسٹس نےواضح اشارہ دیاکہ وہ تاحال مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ ان کےگھر میں ڈاکٹرعشرت العباد کی شاندار دعوت کی گئی۔ پھر افتخار چوہدری نے ان سے لان میں آنے کو کہا، بظاہر انھیں یقین تھاکہ ان کے گھر کی نگرانی کی جارہی ہے اور وہ جاسوسی کے آلات سے بچ رہے تھے۔ لان میں مذاکرات شروع ہوئے۔ معزول چیف جسٹس نےاپنے پتےظاہرکرتے ہوئےعشرت العباد کو کہا کہ ’’ میں عزت کے ساتھ بحالی چاہتاہوں۔‘‘ عباد نے انھیں یقین دلایا کہ،’’ بحالی آپ کی مرضی کے مطابق ہوگی اور اسی طرح ہوگی جس طرح آپ چاہتے ہیں۔‘‘ دونوں کے درمیان یہ ملاقات پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔

یہاں عباد نے ملاقات کے چند اہم نکات بتانے سے انکارکردیا، تاکہ وہ سابق چیف جسٹس کے اعتماد کو برقراررکھ سکیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یاد کیاکہ، ’’اس ملاقات میں افتخار چوہدری واضح اورسنجیدہ تھے۔ اتنی کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ آرمی ہائوس پہنچے اور اہم پیش رفت سے متعلق جنرل مشرف کو آگاہ کیا کیونکہ انھوں نے صورتحال بدل دی تھی۔ مشرف گورنر سندھ کی کامیابی کے بارے میں سن کر پُرجوش ہوگئے۔ نوجوان گورنر نے جنرل مشرف کو مشورہ دیاکہ بحالی کا نوٹی فیکیشن جاری کیاجائے اور اپنی بیوی کے ہمراہ معزول چیف جسٹس کے گھر جاکر خود ان کے حوالے کیاجائے۔ مشورہ بالکل سیدھا سادھا تھا لیکن جنرل مشرف کے گرد بیٹھے مشیروں نےیہ کہتے ہوئے اِسے پیچیدہ بنادیاکہ اب ججوں کو بحال کرنے کا اختیار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے پاس ہے اور صرف وہ ہی نوٹی فیکیشن جاری کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹرعشرت العباد نے کہاکہ، ’’میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایاکہ اگر ججوں کی بحالی کا نوٹی فیکیشن جاری ہوجائے تو اِسے چیلنج کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ یہ قانونی ہے یا غیرقانونی۔‘‘ مشاورتی عمل کے دوران جنرل مشرف نےڈاکٹرعشرت العبادکو بتایا کہ معزول چیف جسٹس کا مطالبہ پورا نہیں ہوگا۔

اس لمحے اپنی عزت بچانے کی خاطر ڈاکٹرعشرت العباد نے ایک بار پھر معزول چیف جسٹس کے گھر گئے اور انھیں کہا کہ وہ خود نوٹی فیکیشن کاڈرافٹ تیار کریں اوران کے حوالے کردیں ۔ ابتدائی طور پر افتخار چوہدری نے بات مان لی کہ وہ یہ کریں گے لیکن بعد میں کہاکہ صرف وزیراعظم ہی یہ کرسکتے ہیں۔ یہاں عشرت العباد نے حقائق سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی اور بتایاکہ یوسف رضاگیلانی کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ڈاکٹرعشرت العباد واپس کراچی روانہ ہوگئے۔ عباد نے یاد کیاکہ،’’ دونوں ہی جنرل مشرف اور معزول چیف جسٹس تمام معاملات طے کرناچاہتے تھے لیکن دونوں قانون کی کسی شِق کی خلاف ورزی نہیں کرناچاہتےتھے۔ حالات جوں کے توں ہی رہے اور پھر اگست 2008آگیا جب پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پی ایم ایل (ن) کے نواز شریف نے اتحاد کیا اور جنرل مشرف کے مواخذے کااعلان کیا۔ 17اگست 2008کورات 8بجے ڈاکٹرعشرت العبادآرمی ہائوس راولپنڈی میں جنرل مشرف سے ملے، جہاں مشرف نے بتایاکہ ان کے خلاف مواخذہ واضح ہے۔ عباد نے مشرف سے کہاکہ، ’’ مجھے کچھ وقت دیں ، میں آپ کے پاس واپس آتا ہوں۔‘‘ غالباً اس وقت ساڑھےبارہ بجے کاوقت تھا جب عباد نے مشرف کو کچھ اطلاعات دینےکیلئے فون کیا۔ مشرف نے عباد کو بتایاکہ اب بہت دیر ہوچکی ہے، اب سوجائو اور صبح اس پر بات کریں گے۔

درحقیقت عباد کوپتہ لگاتھاکہ اپوزیشن جنرل مشرف کا مواخذہ نہیں چاہتی، لیکن تاحال انھیں یہ معلومات مشرف کو دیناتھیں۔ اگلی صبح انھوں نے جنرل مشرف کی پریس کانفرنس کی خبر سنی اور اسی دن قوم سے خطاب کے ذریعے جنرل مشرف نے باقاعدہ اقتدارچھوڑنےاور استعفےکااعلان کردیا۔ وہ صدر مشرف سے ملاقات کرنےکیلئے ایوان صدرپہنچے۔ 18اگست2008 کےدن ایوان صدر میں موجود اعلیٰ حکام میں داکٹرعشرت العباد ایک تھےاور انھوں نے مشرف کیلئے نیک تمنائوں کااظہارکیااور انھیں الوداع کہا۔ اِ س صحافی نے پوچھا کہ کیا واقعی مشرف فوج پر بوجھ بن چکے تھے؟ ڈاکٹرعشرت العباد نے بتایاکہ، ’’مجھے نہیں پتہ لیکن ایسا لگتاہے، کیونکہ انھیں درست انٹلیجنس رپورٹ نہیں دی جارہی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ فُل کورٹ کافیصلہ جب انھیں یقین تھاکہ ججز ان کے حق میں فیصلہ دیں گےلیکن اس کے برعکس ہوگیا۔ میں نے سوال کیاکہ، ’’لہذا اس کا مطلب ہے کہ انھیں اراداتاً غلط انٹلیجنس رپورٹ دی گئی تھی۔‘‘ انھوں نے جواب دیاکہ، ’’ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جنرل مشرف کو غلط انٹلیجنس رپورٹ دی گئی تھی یا غلط انٹلیجنس رپورٹ حاصل کی گئی تھی۔‘‘ حتیٰ کہ اقتدار سے باہر رہ کر بھی عباد اپنے سابقہ باس کو نہیں بھول سکتے جس کے ساتھ انھوں نے چھ سال گزارے۔

ایک بار انھوں نے جنرل مشرف کو بھی گورنرہائوس ڈنر کیلئےدعوت دی لیکن دعوت دینے کے بعد انھوں نےآصف زرداری کو بھی فون کردیا اور بتایاکہ انھوں نے مشرف کو ڈنر پر بلایاہے۔ انھیں دونوں کے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں علم تھا، پھر بھی زرداری نے کھلے دل سے عباد کو اجازت دےدی۔ حتیٰ کہ جنرل مشرف کے جانے کے بعد گورنر سندھ کی اقتدار میں مرکزی حیثیت قائم رہی۔ لندن سے راولپنڈی: 27جون 2011کو ڈاکٹرعشرت العباد کوایم کیوایم لندن سےایک کال موصول ہوئی، ’صدرکوفوراً اپنا استعفیٰ پیش کردو۔ یہ کال اس وقت موصول ہوئی جب انھو ں نے صومالیہ کے بحری قذاقوں کی جانب سے اغوا کیے گئےپاکستانیوں کو آزاد کرانے میں کامیاب کرداراداکیاتھا۔ واقعے کو میڈیا کی توجہ اس لیے حاصل ہوئی کیونکہ اغواہونےوالے بحری جہاز میں بھارتی شہری بھی تھے لیکن بھارتی حکومت اور اُن کے کاروباری افراد اپنے شہریوں کے مدد کے لیے آگے نہیں بڑھے۔ یہ صرف ڈاکٹرعشرت العباد کاکام تھا۔ گورنرنےکاروباری افراد کے ساتھ مل کرپیسے اکٹھے کیے، عسکری مدد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا اور یقیناً پاکستان نیوی سے لی۔ 6پاکستانیوں سمیت 22افراد کو بحفاظت بچالیاگیاتھا۔ ان کے خاندان جنھوں نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اس معاملے کی جانب دلائی تھی وہ بے حد خوش ہوئے۔ ایک دن قبل ان کےاستقبال کے لیے تقریب کا اہتمام کیاگیا، ان میں خاص طور پر ملک اور افواج پاکستان بالخصوص پاکستان نیوی اور انٹلیجنس سروسز کی کارکردگی پر روشنی ڈالی گئی تھی لیکن چند دن بعد انھیں لندن سے ایک کال موصول ہوئی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے بتایا کہ میں مایوس تھا اور میرے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔

انھوں نے بروزِ جمعہ ہی استعفیٰ دے دیا اور دبئی روانہ ہوگئے۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ انھوں نے استعفیٰ دیاہو بلکہ یہ پانچویں بار تھا جو وہ مستعفیٰ ہورہے تھے۔ اسی دوران انھیں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کی کال موصول ہوئی جو سٹریٹجک ڈائیلاگ کیلئے امریکا روانہ ہورہے تھے لیکن وہ امریکا روانگی سے قبل ان سے ملاقات کرناچاہتےتھے۔ وہ طیارے میں سوار ہوئے اور دبئی ائیرپورٹ پر اترگئے۔ پیغام کے مطابق ڈاکٹرعشرت العباد دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ان کا انتظار کررہے تھے۔ ہم آّپ کو اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ آپ کا استعفیٰ قبول نہیں کیاگیا آپ واپس جائیں اور بطور گورنراپنا کام شروع کریں۔ جنرل پاشا نے اس کے علاوہ کچھ حیران کن تفصیلات بھی بتائیں، لیکن ڈاکٹر عشرت العباد وہ سب بتانے پر تیار نہیں ہوئے۔ عباد نے واضح طور پر انھیں بتایا کہ، ’’یہ حیران کن ہے لیکن جب تک مجھے پارٹی کی جانب سے حکم نہ ملے میں بطور گورنر دوبارہ کام کرنا نہیں چاہتا۔ جنرل پاشا یہ کہتے ہوئے اپنی منزل کی جانب چلے گئے،‘‘ ٹھیک ہے لیکن کچھ دیر کیلئے یہاں ہی رُک جائیں۔‘‘ اسی دوران پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر سر ایڈم تھامسن اور کراچی میں تعینات قونصلیٹ مسٹر فرانسس نے بھی ڈاکٹر عشرت العباد سےدوبارہ کام شروع کرنےکیلئے رابطہ کیا کیونکہ وہ بھی کراچی کے حالات کے بارے میں پریشان تھے۔ بطور گورنر اُن کی کارکردگی کے باعث مسٹر فرانسس کے عشرت العباد کےساتھ قریبی تعلقات تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد 22 دن تک ایک ہوٹل میں کمرے تک محدود رہے۔ باہری دنیا کے ساتھ ان کا تعلق صرف ان کے موبائل کے ذریعے ہی تھا۔ اسی دوران ایک برطانوی سفارتکار نے اُن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور بتایاکہ برطانوی حکومت نے الطاف بھائی کو ایک خط لکھاہےکہ آپ کو بطور گورنر کام کرنے دیں اور جلد الطاف بھائی انھیں کال کریں گے۔ عشرت العباد کیلئے یہ ناقابلِ یقین تھا۔

جولائی کے تیسرے ہفتے میں انھیں الطاف بھائی کی کال موصول ہوئی۔ ’’میں نے فیصلہ کیاہے کہ آپ دوبارہ بطورِ گورنرکام شروع کریں، الطاف بھائی نے عشرت العباد کو کہاجوپہلےہی اُن کے حکم کےمطابق استعفیٰ دےچکےتھے۔ ’’بھائی، میں پہلی ہی استعفیٰ دے چکاہوں، میں خود بھی اب کام نہیں کرناچاہتا، ‘‘ عباد نے جواب دیا۔ الطاف بھائی نے اپنا غصہ دکھایا، ’’ تمھیں میری بات ماننی ہوگی میں تمھیں حکم دے رہاہوں۔‘‘ پھر انھوں نے عباد کو قلم اور کاغذ اٹھانےکاحکم دیا اور انھیں چھ مختلف مطالبات لکھوائے، عباد کو ہدایت کی کہ وہ صدر زرداری کو فون کریں اور انھیں ایم کیوایم کے مطالبات سے آگاہ کریں اور انھیں بتائیں کہ وہ حکومت کے ساتھ اسی صورت میں کام کریں گے اگر مطالبات مان لیے جائیں۔ عباد نے صدر زرداری کو کال کی۔ آصف زرداری نے عبادسےکہا،‘’ میں سب جانتاہوں تم بس واپس آجاو۔‘‘ عباد نے وہی جواب دیا جو وہ الطاف بھائی سے کہہ چکےتھے۔ تب زرداری نے دوبارہ الطاف حسین کو فون کیا اور سربراہ ایم کیوایم سے عباد کو دوبارہ کال کرنے کاکہا کہ وہ اُن پردوبارہ ڈیوٹی شروع کرنے کےلیےدبائوڈالیں۔ اس بار انھوں نے بات مان لی۔ صدر آصف زرداری ڈاکٹرعشرت العباد کولینے کے لیےاپنا خاص طیارہ بھیجا۔ 19جولائی 2011کو عباد نے بطور گورنردوبارہ کام شروع کردیا۔

چند دن بعد گورنر سندھ کو آرمی ہائوس راولپنڈی دعوت دی گئی جہاں وہ آرمی چیف جنرل کیانی اورآئی ایس آئی کےسربراہ جنرل پاشا سے ملے۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ یہ ہی وہ ملاقات تھی جب انھوں نے راولپنڈی کے ساتھ اتحاد کرنے اور لندن کا ساتھ چھوڑنے کافیصلہ کیا، یعنی جوان گورنر کی وفاداریاں لندن سے راولپنڈی کی جانب ہوگئیں۔ڈاکٹرعباد نےکہا، ’’مجھے مختلف باتیں بتائیں گئیں، لہذا میں نے اپنے عقل کے مطابق فیصلہ کیا۔‘‘ ڈاکٹر عباد نے اِس فیصلہ کن دن کو یادکرتے ہوئے کہا کہ، ’’میں بہت واضح تھا کہ آگے کا سفر مزید مشکل ہوگا لیکن جو بھی ہو میں قومی مفادات کو ترجیح دوں گا۔‘‘

[pullquote]مشرف کیخلاف مقدمہ بغاوت، ایجنسی نے مجھے سے مشاورت کی تھی، عشرت العباد[/pullquote]

7مارچ 2014 کو جمعہ کے روز گورنرسندھ عشرت العباد اپنی سرکاری رہائش گاہ پر موجود ہیں۔ آپریٹر ان سے رابطہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اسلام آباد سے کسی ایجنسی کا اعلیٰ افسر اُن سے بات کرنا چاہتا ہے ۔ ڈاکٹرعبادبغیر کسی کا نام بتائے معاملےپر بات کرتے ہوئےصحافی کوبتاتےہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ انٹلیجنس سربراہ ہی ہوسکتے تھے۔ عام سلام دعا کے بعد افسر کہتاہے،’’ آپ سے ایک اہم اور حساس معاملے پر بات کرنی ہے۔‘‘ گورنر کہتےہیں، ’’ جی کیجئے۔‘‘ ’’نہیں یہ فون پر نہیں ہوسکتی۔ سر، میں اپنا ایک سینئراہلکار آپ کے پاس بھیج رہاہوں وہ آپ کو میرا پیغام دے دےگا،‘‘ افسر نےفون پر بات ختم کرتے ہوئے گورنرکوبتایا۔ گورنر اس سینئر اہلکار کا انتظار کرتےہیں جسے غالباً اسلام آباد سے ایجنسی کے جہاز پر روانہ ہوناتھا۔ عبادنےیاد کرتے ہوئے صحافی کوبتایا،’’اس وقت مجھے پتہ لگا کہ یہ ایک انتہائی ضروری فون تھا اور کچھ اہم ہورہاہےیا ہونے جارہاہے۔ ‘‘تقریباً رات دوبجے ایک سینئراہلکار گورنر کے سامنے بیٹھتا ہے۔ معاملہ جنرل مشرف کی رخصتی سے متعلق ہے۔ ’’سر، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سابق چیف جنرل پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے کاسامناہے، اُن کے مقدمے کی سماعت 11مارچ کوہے ہم چاہتے ہیں کہ سماعت کی تاریخ 18مارچ کے بعد ہو، کیونکہ مضبوط قانونی بنیاد بنانے کیلئے وقت بہت کم ہے۔‘‘ قانون کے تحت وفاقی حکومت نے ایک اسپیشل کورٹ تشکیل دی تھی جس کی سربراہی سندھ کے ایک جج کررہے تھے۔

ایجنسی ڈاکٹر عباد سے مدد چاہتی تھی اور ان سےآئینی مشورہ لینا چاہتی تھی کیونکہ وہ معاملےکی حساسیت سے آگاہ تھے۔ ’’میں نے چند ریٹائرڈ ججز اور اعلیٰ وکلاء بشمول ایک چیف جسٹس سے بات کی اور انھیں اپنے مسئلے سے آگاہ کیا اور اُنھیں مشورہ دینے کی درخواست کی۔‘‘ ڈاکٹر عباد تاحال سابق چیف جسٹس کے مشکور ہیں کیونکہ انھوں نے ایک دانشمندانہ مشورہ دیاتھا۔ ’’میراخیال ہے کہ مشاورتی عمل میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی شامل تھے۔‘‘ کیا یہ سب اس وقت کےوزیراعظم نواز شریف کو بتائے بغیر ہورہاتھا جنھوں نے خود جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی منظوری دی تھی، یہ میرا سیدھاسا سوال تھا۔ سابق گورنر نے جواب دیا،’’نہیں، ایسا نہیں تھا مجھے ایجنسی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بتایاتھاکہ انھوں نے وزیراعظم نواز شریف سے بات کرلی ہے اور وزیراعظم نےانھیں اجازت دے دی ہے۔‘‘ ڈاکٹر عباد نے اہلکارکوبتایاکہ ’’میرے لیے ضروری ہے کہ میں وفاقی حکومت کو بھی اعتماد میں لوں۔‘‘ اہلکار نے جواب دیا،’’ضرور۔‘‘ 11مارچ کو ٹربیونل کورٹ نے 19مارچ کی نئی تاریخ دے دی اور پھر 24مارچ تک اور بالآخر30مارچ تک ملتوی کردیا۔

27مارچ کوگورنرسندھ کو ایجنسی کے ایک اعلیٰ افسر کی جانب سے ایک اور ضروری کال موصول ہوئی کہ، ’’ میں ایمرجنسی میں آرہاہوں،‘‘ یہ اس مختصر کال کا نچوڑ تھا۔ اسی روز کراچی میں ملاقات کے دوران انھوں نے گورنرکوبتایاکہ وزیراعظم نواز شریف نےٹربیونل سےایک واضح فیصلے کامطالبہ کیاہے، انھیں کوئی اعتراض نہیں اور فیصلے میں کچھ مخصوص الفاظ شامل ہونے چاہئیں ۔ ہم ججز کو ڈکٹیٹ نہیں کراسکتے کہ فیصلے میں کیا لکھناہے کیونکہ یہ اصول کےخلاف ہے؛ تاہم ہم ایک طرح سے دلیل دے سکتے ہیں کہ حمایت میں فیصلہ دینے کے لیے ججز خود غورکرتے ہیں اور اسی کی ضرورت ہے،‘‘ ۔ عباد نے انکشاف کیا، ’’میں نے انھیں بتایا کہ میں تمھیں ایک قابل وکیل تجویز کرتاہوں، میں نے جنرل مشرف کے لیے بیرسٹرفروغ نسیم کوتجویز کیا۔ ‘‘30 مارچ کو جب مشرف کو عدالت میں پیش ہوناتھا اور اپنے وکلاءسے ملناتھا، اسی وقت فروغ نسیم بطور سابق صدر کے نئے وکیل اپنے کاغذات عدالت میں پیش کررہے تھے۔

سماعت کے بعدفیصلہ جنرل مشرف کےحق میں آیا۔ اب سب نواز شریف کے اشارے کاانتظار کررہے تھے کہ وہ مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے دیں کیونکہ انھوں نے وعدہ کیاتھا۔ عباد نےیاد کیا،’’جب وہ سب انتظار کررہے تھے اور جنرل مشرف بھی جانے کے لیے تیار تھے، تب وزیرِ داخلہ نے ایجنسی کو ٹیلیفون کال کی کہ مزید دو دن درکار ہیں کیونکہ وزیراعظم نواز شریف معاملے پر اپنی پارٹی کو اعتماد میں لینا چاہتےہیں۔‘‘ ڈاکٹرعباد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی ردِ عمل کے بعد، ’’چند لوگوں کاخیال تھا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد پرجنرل مشرف کو ایک چارٹرڈ طیارے کےذریعے بیرون ملک بھیجا جائے لیکن میں نے اس پر اعتراض کیا، میں نے انھیں بتایا کہ اگر آپ یہ کرتے ہیں تو یہ آرمی کی ساکھ اور حتٰی کہ جنرل مشرف کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا، کیونکہ باقی زندگی کے لیے انھیں ایک بھگوڑا قراردے دیاجائےگا اور جب بھی اُن کا ذکرآئےگا توہر بار ادارے کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا،‘‘ تمام لوگوں نے اسے تسلیم کیا۔

معاملہ ایک بارپھر لٹک گیا اور سول ملٹری تعلقات میں عدم اعتماد کی فضاءپیداہوگئی۔ عباد یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے قانونی عدالت کے ذریعےآگے بڑھنے پر زوردیاتھا۔ بعد میں حکومت نےسپریم کورٹ میں اپیل کی اور بعد میں اس نے جنرل مشرف کوملک چھوڑنےکی اجازت دے دی اور جنرل مشرف چلے گئے۔ ڈاکٹرفروغ نسیم کی زیر قیادت قانونی جنگ پورے زور سے لڑی گئی۔ عباد سوچتے ہیں کہ اس مرحلے پر وزیرِ داخلہ کافی سمجھ دار اور حقیقت پسندانہ کردار اداکررہے تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ’’چوہدری نثار نے ایک بار کہاتھا، میری پارٹی میں میری پوزیشن اسی طرح ہے جیسی آپ کی پارٹی میں آپ کی ہے۔‘‘ مائنس الطاف حسین28:جنوری 2015 کو ایم کیوایم کے ایک لاپتہ کارکن سہیل احمد کی لاش برآمد ہوئی جس کے نتیجے میں الطاف بھائی نےرینجرزاور دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے خلاف ایک اشتعال انگیز تقریر کرڈالی۔ الطاف بھائی کی تقریر کے بعد ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کراچی شہر میں ایک مکمل شٹرڈائون ہڑتال ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اسٹاک مارکیٹ میں کافی نقصان ہوا اور اسلام آباد میں بیٹھے ملک کے نمایاں لوگ 30 جنوری کو کراچی کی جانب بھاگےہوئے آئے۔ اس دن اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھےاس میں عباد، وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی شامل تھے۔ فوج کی نمائندگی اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر ، جو اس سے پہلےبطور ڈائریکٹرجنرل رینجرز سندھ خدمات سرانجام دےچکےتھے، کورکمانڈر کراچی نوید مختار، ڈی جی رینجرزسندھ بلال اکبراور چنددیگر لوگ کررہے تھے۔ اس وقت کے انسپکٹرجنرل پولیس غلام حیدرجمالی نے ایم کیوایم کے کارکن سہیل احمد کے قتل پر بریفنگ دی۔

اس اجلاس کے تمام شرکاء نےفیصلہ کیاکہ واقعے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اجلاس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل رضوان نےکہا، ’’اس کےباوجود کہ ایم کیوایم کے کارکن کو آئی ایس آئی یا کسی قانون نافذ کرنےوالے ادارے نے نہیں اٹھایاتھا، تاحال الطاف حسین ہمیں (ملٹری افسران) نشانہ بنا رہے ہیں، یہ قابل قبول نہیں۔ عشرت العبادیاد کرتے ہیں، ‘‘مجھےحقیقت کااندازہ تھا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کا افسوسناک سانحہ حال ہی میں ہوا تھا اور پوری قوم کے جذبات بھڑک رہےتھے۔ گفتگو میں کسی نے بھی مائنس الطاف کالفظ استعمال نہیں کیاتھا لیکن اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی واضح تھے کہ الطاف بھائی کایہ رویہ قابلِ قبول نہیں ہے۔‘‘ حالات واضح تھے کہ الطاف بھائی اس طرح کی سیاست جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ حتٰی کہ اس وقت میں نےایم کیوایم اور فوج کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی تھی۔ میں نے ایک دوصفحات پرمشتمل ورکنگ پلان تیار کیا اور الطاف بھائی سے بات کی، فوج کو بھی باخبرکیاگیا۔ اس وقت کے فوجی افسران کافی مددکرنےوالےتھے،‘‘ عباد نے تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا۔ آپ نے دوصفحات کا ایک پلان بنایا پھر الطاف بھائی اور فوج کے درمیان حالات کیوں سازگار نہیں ہوئے؟‘‘ یہ میرا سوال تھا۔ جب ہم اس کاغذ پر کام کررہےتھے تو ایم کیوایم کےلندن سیکریٹریٹ سے ایک اور بیان آگیا جس میں مختلف شخصیات کی بے عزتی کی گئی تھی۔ اس کی وجہ سےاُس ورکنگ پیپر کا عمل رُک گیاتھا،‘‘ عباد نے یاد کیا۔

انھوں نے مزید بتایا، ’’ 4مارچ سےپہلے بھی ایک میٹنگ ہوچکی تھی جس میں رینجرز نے واضح طور پر نشاندہی کرلی تھی کہ نائن زیرو میں جرائم پیشہ عناصر موجو دتھے۔ یہ سب اسی میٹنگ میں ایم کیوایم کے رہنمائوں کی موجودگی میں ہواتھا۔‘‘ اس ماحول میں رینجرز نے 11مارچ کونائن زیرو پر ایک ریڈ کی اور 150 افراد کو گرفتارکرلیا اور بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد کرلیا۔ الطاف بھائی کی جانب سے ایک اور بیان آیا جس میں آرمی پر تنقید کی گئی تھی۔ عباد نے دوبارہ حالات سنبھالے اور الطاف بھائی نے 18مارچ کو کارکنوں سے ایک خطاب کیا جس میں انھوں نے آرمی کی تعریف کی اور اعلان کیا کہ 18مارچ کووہ مسلح افواج کی حمایت میں ایک ریلی نکالیں گے۔ جب الطاف حسین تقریر کررہے تھے، تب عباد کو گورنر ہائوس مین تقریر کے نکات موصول ہوئے۔ عبادنےبتایا، ’’میں نے وہ نکات تمام متعلقہ اعلیٰ حکام تک پہنچادیئے۔ ‘‘عباد کہتےہیں،’’میں نےسکھ کاسانس لیا اور تقریباً آدھی رات کواپنی رہائش گاہ پر واپس آگیا اوراچانک ٹی وی لگایا اورسزائےموت کےمجرم اورسابقہ ایم کیوایم کےکارکن صولت مرزاکودیکھا۔

اس کےباعث الطاف حسین نے ایک اوراشتعال انگیز تقریر کی اورہروہ چیزجو ہم تعمیر کررہے تھے وہ ایک شیشے کےگلاس کی طرح بری طرح سے ٹوٹ گئی۔ اس دن الطاف بھائی اور فوج کےدرمیان موجود اعتماد ختم ہوگیاتھا۔‘‘ لہذا ایک طرح سے یہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر ہی تھے جنھوں نے وہ کوشش ناکام بنائی تھی؟ ‘‘ مجھے یقین نہیں ہے،‘‘ عباد نے بظاہر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ پرتنقید سے گریز کرتے ہوئےانکارکیا۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاک سرزمین پارٹی راحیل شریف، نوید مختاراور بلال اکبرکے ذہن کی پیداوار ہے، انھوں نے انکار کیا لیکن جب میں یہ پوچھنے کیلئے ایک اورسوال کیاکہ کیا یہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کے ذہن کی پیداوار ہے؟ اس پر عباد نے جواب دیا،’’یہ ایک افسوسناک رجحان ہے کہ کسی کے خلاف کچھ بھی ہویا کوئی بھی ناکامی ہو، اس کاالزام اسٹیبلشمنٹ پرہی لگایاجاتاہے جبکہ ہربار ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ تو پھر پی ایس پی کیاہے؟ ‘‘ یہ سیاسی میدان میں چائنا کٹنگ ہے،‘‘ عباد نے ہنستے ہوئےجواب دیا۔ کیا اب الطاف بھائی اور فوج کے درمیان صلح کاکوئی امکان ہے؟ ’’ میری سمجھ بوجھ کے مطابق اس کا امکان نہیں ہے،‘‘عباد نےکہا۔ ان تمام کارکنان کے برعکس جو مختلف وجوہات کی بناپر انھیں چھوڑ گئے، ڈاکٹرعباد ایم کیوایم کے بانی الطاف بھائی کے خلاف ایک بھی لفظ بولنے پرتیار نہیں۔

ڈاکٹر عباد نے مراکشی چائے کی چسکیاں بھرتے ہوئے کہا، ’’میں ایک بھی لفظ نہیں بول سکتا کیونکہ تاحال میرا خیال ہے کہ یہ الطاف بھائی ہی تھے جنھوں نے جو مجھے اقتدار میں لائے۔ اگر رہنما جلاد بھی بن جائےتو بھی وہ رہنما ہی رہتاہے،انہوں نے اس موقع پر ایک شعر پڑھ کر اپنی صورتحال کو واضح کیا .

نہیں ہوگی تو کہہ دیں گے وفاداری نہیں ہوگی
مگر ہم سے تعلق میں اداکاری نہیں ہوگی

[pullquote] اقتدار سے رخصتی: [/pullquote]

میرے خیال میں 2011میں ڈاکٹرعباد عملی طور پر پنڈی بوائے بن چکے تھے۔ راولپنڈی کا پاورہائوس انھیں سپورٹ کرتاتھا کیونکہ وہ ملکی معیشت کے مرکز کی دیکھ بھال کررہے تھے۔ لیکن ہر شروعات کااختتام بھی ہوتاہے، اور کوئی بھی کسی بھی پاورہائوس کا مستقل رہائشی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹرعباد جنرل راحیل شریف کے قریب آگئےتھے اور ایک طرح سے اُن کامستقبل راحیل شریف کے مستقبل کے ساتھ جڑاتھا۔ 2016کے دوران کہیں ڈاکٹرعشرت العباد آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملے اور پوچھا کہ کیا وہ کام جاری رکھیں گے اور ایکسٹینشن لیں گےیا نہیں۔ جنرل راحیل شریف نے عباد کو اُس ملاقات میں بتایا،’’ میں پہلے ہی اعلان کرچکاہوں کہ میں ایکسٹینشن نہیں لوں گااور اس پر کاربند ہوں؛ تاہم کچھ نامکمل کام ہیں جو میں جانے سے پہلا کرنے کی کوشش کروں گا لہذا ریٹائرمنٹ کے قریب آتے ہی میں آپ کو بتائوں گا۔‘‘

میں اپنی رخصتی کی حکمت عملی اس طرح بنانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے جانے سے پہلے رخصت ہوجائوں،‘‘ عباد نے جنرل راحیل شریف کاجواب بتایا۔ اکتوبر2016 کے اختتام پر سب سے طویل عرصے تک کام کرنےوالے گورنرنے ٹیلی فون پر جنرل راحیل شریف سے بات کی۔ ’’میں نے اپنی الوداعی ملاقاتیں شروع کردی ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے عباد کو بتایا اور بالواسطہ طور پر کہا کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لے رہے۔ اسی دن عشرت العباد نے بھی جانے کی تیاری شروع کردی تھی۔ اقتدار کے ایوانوں میں گورنر اپنے استعفے سے متعلق ایک ماہ پہلے اطلاع دیتے ہیں۔ ڈاکٹرعباد نے اس صحافی کوبتایا،’’9نومبر کو ایوانِ وزیراعظم کی جانب سے مجھ سے رابطہ کیاگیا اور مجھے مستعفیٰ ہونےکاکہاگیا جس کی میں پہلے ہی تیاری کررہاتھا، لہذا میں نے استعفیٰ دے دیا اور اور الودائی ملاقاتیں کیں اور تب سے میں یہاں دبئی میں ہوں۔‘‘ مزارِ قائد سےدبئی کیلئے روانگی کے موقع پر انھیں جنرل راحیل کی جانب سے الودائی ٹیلی فونک کال موصول ہوئی۔ آپ پاکستان کے لیے ایک اثاثہ ہیں اور ملک کے لیے آپ کی خدمات کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔ ‘‘ راحیل نے کہا۔

[pullquote]عباد یاد کرتے ہیں،[/pullquote]

’’ میں نےیہ قیمتی الفاظ زندگی بھرکیلئے محفوظ کرلیے۔‘‘ اقتدار میں رہنے کےطریقے: میں یہ جاننے کیلئے بے چین تھا کہ وہ کیا طریقے تھے جو انھوں نے اتنے عرصے تک اقتدار میں رہنے کیلئےاپنائے۔ ڈاکٹرعباد نے سنجیدگی سےمندرجہ ذیل باتیں بتائیں۔ 1) جب بھی آپ اقتدار میں ہوں تو طاقت استعمال نہ کریں صرف دماغ استعمال کریں۔ 2)عاجزی اختیار کریں۔ 3)جب بھی آپ کسی کو ہٹانا چاہئے تو اسےبلائیں اور اُسے عزت دیں۔لوگوں کی بے عزتی نہ کریں۔ 4)قومی مفادات اپنے ذہن میں رکھیں، اور اس حوالےسے راولپنڈی کے ساتھ عزت سے تعلقات بنائیں۔قومی مفادات کی حفاظت کی خاطر اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ کون خوش ہے اور کون ناراض۔ 5) ہمیشہ ہرکسی کو مخلص مشورہ دیں چاہے وہ آپ کا باس ہو ، جونئیرہو اور حتٰی کہ دشمن ہی ہو۔ 6) آپ کو دوراندیشی اور ابتداءسےمعاملات کی سمجھ ہونی چاہئے۔ 7) ایڈمنسٹریشن اور سیاست میں ایک حسین امتزاج ہے۔ یہ ایک فن ہےجس میں آپ کو ماہر ہوناچاہئے کہ کہاں ایڈمنسٹریشن استعمال کرنی ہے اور کہاں سیاست استعمال کرنی ہے، اور کہاں کس تناسب سےدونوں کو استعمال کرناہے۔ اقتدار کے ایوان میں آخری لیکن سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ،9) آخر میں انھوں نے خدائی اصول بتایا، لوگوں پر اعتبار کرنا اچھا ہےلیکن اقتدار میں رہتے ہوئے یہ بہتر ہے کہ کسی پر بھی اعتبار نہ کیاجائے۔ عباد کے ساتھ گفتگو سے انکشاف ہواکہ وہ اور بھی بہت کچھ جانتے ہیں اور وہ بہت سے رازوں کے امین ہیں کیونکہ وہ گورنرسندھ کے طور پر انھوں نے ملک کی حالیہ تاریخ کے اہم اور حساس معاملات سے نمٹنتے ہوئے ایک خاموش آپریٹرکے طورپرکام کیا۔ اس رپورٹر کویہ بھی پتہ لگا کہ اسٹیبلشمنٹ کے چند اہم عناصر اُن سے تاحال رابطے میں ہیں۔ بظاہر وہ باہر ہیں لیکن داخلی طورپر اندر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے