غیرت اور خودداری کے گھسے پٹے ڈائیلاگ اور ہم

قوم کے سراپا احتجاج ہونے کے جملے پر شاید کچھ لوگوں کو اعتراض ہو کیونکہ ہمار ے ایک قوم ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ بھی ابھی طے ہونا باقی ہے۔۔۔اور نہ سہی مگر ہمارے چند سیاستدانوں نے قوم کی عزت پر امریکہ کے اس تازہ ڈرون حملے کے خلاف زمین آسمان ایک کیا ہوا ہے۔۔۔۔ملک کا کوئی سیاستدان بھی شاید ایسا نہ ہو جس نے غیرت پر اس حملے کے خلاف نعرہ حق بلند کرنے کا سنہری موقع ہاتھ سے جانے دیا ہو۔۔اخبارات کی شہ سرخیاں ہوں یا ٹی وی چینلز پر غصے میں منہ سے جھاگ اڑاتے سیاستدان ۔۔۔ایک ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔۔۔۔جناب ٹرمپ سے ہزار اختلافات سہی ۔۔۔مگر انہیں یہ کریڈٹ تو دینا ہو گا کہ وہ ہماری قومی حمیت اور خودداری پر اس نوعیت کے حملے کر کے ہمیں اکثر وبیشتر دنیا پر یہ باور کرناکا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں کہ غیر ت اور خودداری کا احساس ہمارے اندر ابھی زندہ ہے۔۔۔۔

غیر ت کا یہ احساس اور تصور براہ راست ہماری انا اور خود داری سے جڑا ہو ا ہے۔۔۔منافقت سے لتھڑے ہوئے معاشرتی ڈھانچے سے لے کر جہاں غیر ت "مردانگی” کی تسکین کے سامان سے بڑھ کر کچھ نہیں ، ایک ناہموار معاشی نظام تک ہماری، بالخصو ص ہمارے سیاستدانوں کی غیرت مخصو ص موقع پر ہی جاگتی ہے۔۔۔۔

ستر سال سے اس ملک کی باگ دوڑ سنھبالنے والے حکمران آج ہمیں دھوکے باز قوم ہونے کا طعنہ دینے والوں کی امداد اور بھیک سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کتنی حققیت مندانہ پالیسیاں اپناتے رہے، وہ ہماری معیشت کی موجودہ صورتحال اور عوام کی کسمپرسی سے عیاں ہے۔۔۔۔

انسانی وسائل کی ترقی کا بتانے والے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا میں ایک سو پینتالیسویں نمبر پر ہے۔۔۔صرف یہی نہیں، ورلڈ اکنامک فورم گلوبل ہیومن کیپیٹل رپورٹ کے مطابق تعلیم ، سکل ڈویلپمنٹ ، اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کے شعبوں میں کارکردگی کے اعتبار سے ہم دنیا کے ایک سو تیس ملکوں میں سے ایک سو پچیسویں نمبر پر ہیں۔۔۔۔

آج بھی ہمارے ملک میں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں ۔دور افتادہ علاقوں اور دیہات کو چھوڑیں، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی بھی پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہے اور باامر مجبوری اسے پینے کے پانی کے لیے فرسودہ فلٹریشن پلانٹس یا پھر منرل واٹر کمپنیوں سے استفادہ کرنا پڑتا ہے۔۔

ہر نئے آنے والے حکمران کے دور میں وطن عزیز پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔۔۔قرض کہیں یا پھراتحادی تعاون فنڈ کے نام پر دی جانے والی امداد۔اس مد میں ایک ایک پائی کا حساب دیتے ہوئے کبھی بھی ہمارے حکمرانوں میں غیرت کا احساس بیدار نہیں ہوا۔۔۔بے اعتباری کی فضاءمیں دھوکہ دہی کے طعنے، پیسوں کے لیے اپنی ماں تک کو بیچ دینے کی گالی یا پھر دی جانے والی امداد کے تناسب سے ڈومور کے مطالبے ہمارے لیے کوئی نئی بات تو ہے نہیں ، تو پھر آج اتنی بے چینی کیوں۔۔؟

نسل در نسل قرضوں کے بوجھ تلے دبتی ہوئی عوام کے لیے غیر ت کا یہ نعرہ مستانہ کبھی کبھار زندہ قوم ہونے کے اس کھوکھلے نعرے کی مانند دکھائی دیتا ہے جو ہر سال صرف جشن آزادی کی تقریبات میں ملی نغمے کی صورت میں لہک لہک کر گایا جاتا ہے۔

اگر ہم واقعی ایک قوم اور غیرت کا احساس رکھنے والی ایک زندہ قوم ہیں تو ہمیں اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اصلاح احوال کے اقدام کرنا ہوں گے۔۔ہمیں جہاں انفرادی سطح پر ایک اچھا مسلمان ، انسان اور پاکستانی بن کر آگے بڑھنا ہو گا،وہاں ہمارے حکمرانوں کو منافقانہ طرز عمل سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ معاشی ترقی اور خود انحصاری کے لیے ٹھوس اور حقیقت پسندانہ فیصلے کیے بغیر ہم نہ آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ غیر ملکی امداد کے کشکول سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

اقتصادی طور پر زبوں حالی کا شکار اقوام کے لیے غیرت اور خودداری کے گھسے پٹے ڈائیلاگ شاید کسی سیاستدان کو چند اضافی ووٹ تو دلوا سکیں ، مگر اس سے وطن عزیز اور اس کے پریشان حال عوام کے حالات تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے