پاکستان میں دہشتگردی: 2017 میں 16 فیصد کمی کے ساتھ پاکستان میں کل 370 دہشتگردانہ حملے ہوئے جس میں 815 افراد ہلاک اور 1736 زخمی ہوئے

پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز نے اپنی سالانہ سیکورٹی رپورٹ 2017 جاری کر دی ۔

تحریک طالبان پاکستان اور قوم پرست عسکریت پسند ابھی بھی ایک مہلک خطرہ ہیں، پاکستان سیکورٹی رپورٹ 2017

• داعش کی موجودگی کے وا ضح شواہد ، 6 مہلک حملوں میں 153 ہلاک کئے

• دہشتگردی کے واقعات میں گذشتہ سال کی نسبت 16 فیصد کمی کے ساتھ پاکستان میں کل 370 دہشتگردانہ حملے ہوئے جس میں 815 افراد ہلاک ہوئے اور 1736 افراد زخمی ہوئے

• بلوچستان اور فاٹا خاص طور پر کرم ایجنسی سال 2017 میں بالترتیب 288 اور 253 ہلاکتوں کے سبب حساس ترین علاقے شمار ہوئے

• ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار اور ان جیسے مقاصد رکھنے والے گروہوں نے 58 فیصد حملوں کی ذمہ داری قبول کی جبکہ 37فیصدحملے قوم پرستوں اور 5 فیصد حملے فرقہ وارانہ دہشتگردوں نے کئے

• حکومتی سطح پر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ابہام باقی رہا، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی سالانہ رپورٹ

• 2018 میں نیشنل سیکورٹی پالیسی کا اعلان متوقع ، جس میں بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی پس منظر کو مدنظر رکھا جائے گا

• قومی سطح پر داخلی سیکورٹی پالیسی 2018 پر نظرثانی کی جائے گی

• عسکریت پسندوں کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوئی بھی حکمت عملی پارلیمنٹ کی مرضی سے طے کی جائے گی

اگرچہ سال 2017 میں دہشتگردی کے واقعات میں گذشتہ سال کی نسبت 16 فیصد کمی آئی تاہم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے وابستہ گروہ ، قوم پرست عسکریت پسندوں خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ ی اب بھی ایک مہلک خطرہ ہیں۔ خطرے کی بڑی علامت داعش کی بلوچستان اور شمالی سندھ میں موجودگی ہے جس نے بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ یہ حقائق اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک اجتماعی کوشش کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی حکومتی حکمت عملی نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کی جائے جس کے متعلق تاحال ابہام موجود ہے کہ اس پر عملدرآمد کس کی ذمہ داری ہے۔ یہ بہت بہتر ہوگا کہ اگر پارلیمنٹ نہ صرف نئی حقیقتوں کےسبب نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لے بلکہ عسکریت پسندوں کو مرکزی دھارے میں واپس لانے کا کوئی معیار بھی مقرر کرے جس پر بحث کا آغاز2017 میں شروع ہوا ۔

یہ پاکستان کی سیکورٹی رپورٹ 2017 کے چند اہم نکات ہیں جسے اسلام آباد میں واقع پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے جاری کیا ہے ۔ یہ ادارہ ایک تھنک ٹینک ہے اور اس کے دائرہ کار میں پاکستان اور خطے کی سیکورٹی اور تنازعات کی جہتوں کا جائزہ لینا شامل ہے۔
اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں شامل نکات اور اعداد و شمار کو مختلف ذرائع سے حاصل کیا ہے ۔ جن میں انٹرویوز اور اس موضوع پر ماہرین کے مضامین شامل ہیں۔

اس رپورٹ کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2017 میں پاکستان کے 64 اضلاع میں نسلی، فرقہ وارانہ اور مذہبی دہشتگردی کے 370 واقعات ہوئے ۔ جن میں 24 خودکش و فائرنگ خودکش حملے شامل تھے جن کے نتیجے میں 815 ہلاکتیں ہوئیں اور 1736 افراد زخمی ہوئے۔

اگرچہ سال 2017 میں گذشتہ سال کی نسبت دہشتگردی کے واقعات میں 16 فیصد کمی ہوئی ، یہاں تک کے دہشتگردی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد گذشتہ سال دہشتگردانہ حملوں کے نتیجے میں ہوئی ہلاکتوں سے 10 فیصد کم رہی ۔

دہشتگردی کے ان حملوں میں سے 213 حملے یا کل حملوں کا 58فیصد یا تو تحریک طالبان یا اس سے علیحدہ ہونے والے گروہوں جماعت الاحرار اور اس جیسے اور گروہوں مقامی طالبان وغیرہ نے انجام دیئے اور ان حملوں میں 186 افراد ہلاک ہوئے ۔ جبکہ قوم پرست دہشتگردوں کے حملوں میں 140 افراد ہلاک ہوئے ۔ ان حملوں کی تعداد 138 تھی اور یہ ملک بھر میں ہوئے حملوں کی کل تعداد کا 37 فیصد تھا ان میں سے بیشر بلوچستان میں جبکہ کچھ سندھ میں کئے گئے ۔ ملک میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کے کل 19 واقعات ہوئے اور ان میں 71 افراد ہلاک جبکہ 97 زخمی ہوئے۔

اس دوران کچھ نئے چیلنجز بھی ابھر کر سامنے آئے۔ان میں ذاتی انفرادی حیثیت میں افراد کا دہشتگردی میں ملوث ہونا ، چھوٹے چھوٹے سیلز بنا کر دہشتگرد کاروائی کرنااور تعلیمی اداروں میں انتہاء پسند عناصر کا زور پکڑنا شامل ہے۔ سب سے اہم خطرہ داعش ہے جس نے ملک میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے اور اس نے پاک افغان سرحد کے قریب افغان علاقوں میں عسکری کاروائیاں کی ہیں۔ پاکستان میں داعش اور اس کے حمایتیوں نے 6 مہلک حملے کئے ہیں جن کے نتیجے میں 153 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔ بلوچستان میں اس گروہ نے کوئٹہ سے چینی شہریوں کو اغواء اور بعد ازاں قتل کے علاوہ مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے کانوائے کو نشانہ بنایا ہے۔ سندھ میں ہلاکتوں کے لحاظ سے سب سے بڑا حملہ سیہون شریف میں ہوا اور اس کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی ۔

رپورٹ میں شامل قومی سلامتی کے مشیر لیفینینٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کے انٹرویو کے مطابق نیشنل سیکورٹی پالیسی مکمل ہوچکی ہے اور اور اسے حکومتی اراکین کے درمیان داخلی طور پر تقسیم کی جا چکا ہے۔ اس کے اہم خطوط جنہیں سال 2018میں عام کیا جائے گا، جس میں بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی پس منظر کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اس رپورٹ میں انہیں اشاراتاَ بیان کیا گیا ہے۔ ایک انٹرویو میں جو کہ نیکٹا کے کوآرڈینیٹر احسان غنی کے ساتھ ہوا، میں بیان کیا گیا ہے کہ نیشنل سیکورٹی کی داخلی پالیسی ابھی نظر ثانی کے مراحل میں ہے۔ اس کی نظر ثانی شدہ شکل اور کاؤنٹر ایکسٹریم ازم پالیسی کا اعلان سال 2018 میں کیا جائے گا۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رائے میں ان دونوں انٹرویوز میں سے اخذ کیا جا سکتا ہےکہ ابھی تک حکومتی سطح پر یہ ابہام موجود ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کس حکومتی شعبے کی ذمہ داری ہے ۔

رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر بدلتے ہوئے حقائق کو مدنظر رکھ کر نظر ثانی کرنا لازمی ہے اور اس پر عملدرآمد موثر بنانے کے لئے اسے دوطرفہ حکمت عملی میں تقسیم ہونا چاہیئے۔ انسداد دہشتگردی کا حصہ ، جو کہ درپیش فوری مسائل کا حل تلاش کرے اور دوسرا حصہ جو کہ متشدد انتہاء پسندی کے انسداد پر زور دے تاکہ دوررس نتائج ہوسکیں۔

اس دوران کالعدم جماعتوں اور افراد کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی بحث پر رپورٹ یہ بیان کرتی ہے کہ اس عمل میں ابہام کی گنجائش نہ رکھی جائے اور اس معاملے پر کوئی بھی حکمت عملی تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے بنائی جائے جس کی نگرانی پارلیمنٹ کرے اور اس طر ح کے افراد اور اداروں کو مرکزی دھارے میں لانے سے قبل کوئی پیشگی ضوابط لاگو کئے جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے