ننھی زینب اور بے خوف درندے

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ پختہ ایمان ہے کہ لامحدودکائنات اللہ پاک کے حکم ’’کُن‘‘سے وجود میں آئی ہے۔آج تک اس کائنات کا نظام اسی یک لفظی حکم کا محتاج ہے۔برعکس کائنات کے رب کائنات نے جہاںآدم یا انسان کوپیدا کرکے عقل اور شعور عطا کیا وہیں بٹکنے والا نفس اور بے لگام خواہشات بھی ساتھ دیں۔ نظام زندگی کی رہنمائی کیلئے پیغمبر اور کتابیں نازل کیں۔اپنی اطاعت اور بندگی کی بجاآوری کے حکم کے ساتھ ساتھ انسان کو معاشرتی معاملات واضح بتادیئے لیکن پھر بھی جس عمل کو کرنے کی تاکید کی اس پر جزا اور انعام کا بھی اعلان کیااور جس فعل سے منع کیا اس کے انجام سے بھی ڈرایا حتیٰ کہ سخت ترین سزا کی دھمکی بھی دی ہے۔ قرآن پاک میں صرف نماز قائم کرنے کے لیے اللہ پاک نے سات سو بار تاکیدکی جبکہ ساتھ ہی انعام و اکرام کی بشارت دی ۔ اسی طرح سعودسے منع کرتے ہوئے خود کیخلاف اعلان جنگ قرار دیا۔زنا کے بارے میں تو انتہائی غیر معمولی اور دلچسپ حکم ہے ۔فرمایا اس عمل کے قریب بھی نہ جاؤ یعنی اس مکروہ فعل کے بارے میں سوچو بھی مت۔ حتیٰ کہ یہ بتایا اپنی نگاہوں کو نیچے رکھو۔سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا کہ زنا وہ فعل جس کا نقطہ آغازسوچ سے ہوتا ہے ۔ بڑی دلچسپ بات ہے۔ تب ہی فرمایا گیا ۔ اس کے قریب بھی مت جاؤ۔

قارئین! جس ہستی کے ایک حکم پر کائنات وجود میں آئی وہی ہستی انسان کو بار بار جزا،جنت اور انعام کی بشارت دیتی ہے جبکہ جہنم، قبر کے عذاب اوردیگرسخت ترین سزاؤ ں سے بھی ڈراتی ہے۔ مطلب صاف ہوگیا کہ سزا اور جزاکا تصور انسان کا نہیں بلکہ یہ فطری ہے اورانسان فطرت کے مخالف ہرگز نہیں چل سکتا۔یہ بھی واضح ہوگیا کہ سزا اور جزا معاشروں کیلئے عین ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر تو نظام ٹھیک طریقے سے چل ہی نہیں سکتا۔ جن معاشروں یا جن قوموں نے فطرت میں خلل ڈالنے کی کوششیں کی وہ صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئیں۔ہاں عبرت کیلئے صرف ان کی نشانات باقی ہیں۔جبکہ جن معاشروں یا قوموں نے سزا و جزا کے تصور پر عمل کیا وہ دنیا کی حکمران ٹھہریں اور آج بھی انہی قوموں کا ڈنکا بج رہا ہے۔

انسانی معاشروں میں سزاو جزا یعنی قانون اور قانون پر عملدرآمد نہ ہو تولاقانونیت اور حیوانیت عام ہوجاتی ہے اس کا مظاہرہ ہمیں ہر گزرنے والے دن میں ملتا ہے۔قانون پر عملدرآمد ہوتا تو آج ہمیں سات سالہ زینب کاخون میں لت پر لاشہ نہیں ملتا۔ سزا کا خوف ہوتا تو ڈیرہ اسماعیل خان میں غریب لڑکی کو برہنہ کرکے علاقے میں گھمانے کا دلخراش واقعہ پیش نہ آتا۔ سنگ ساری کا ڈر ہوتا تو آزادکشمیر کے علاقہ چکار کی حاملہ خاتون کو جنسی درندے ہرگز نہیں نوچتے ۔غلط کو غلط اور برائی کو برائی کہنے کا تصور باقی ہوتا تو شاہ زیب خان کے قاتلوں کی طرح مجرم باعزت بری نہیں ہوپاتے۔

قارئین!کہنے کو تو پاکستان میں قاتون موجود ہے ۔ بلکہ آپ حیران ہوجائیں گے کہ پاکستان وہ ملک ہے جس کا قانون دنیابھر کے ممالک سے سب سے طویل اور سخت ہے لیکن قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث انسانی گدھ کم سن لڑکیوں کا گوشت نوچنے کی طاق میں رہتے ہیں۔ جنسی درندے اتنے بے خوف ہوچکے ہیں کہ وہ قانون اورقانون کے رکھوالوں کو روندتے ہوئے ہوس کی آگ بجھانے سے نہیں کتراتے ہیں۔فالج زدہ قانون اور عملدرآمد کے مفلوج نظام کے باعث والدین اپنے بچوں کو اپنی گلی محلے میں قائم سکول بھیجنے سے بھی ڈرتے ہیں۔مجھے پورا یقین ہے کہ جس روز ننھی کلی زینب کی لاش کی برآمدگی کی خبر ٹی وی پر چلی تھی اس دن ہر ماں اور ہر باپ کاکلیجہ پھٹا ضرور پھٹاہوگا لیکن یہ خوف بھی ان کے ذہنوں پر شدت سے طاری ہوا ہوگا کہ اب ہم کس کو انسان مانیں اور کس کو درندے۔ اب ان کے بچوں کا محافظ کون ہوگا؟

اللہ پاک نے جہاں انسان کو عقل و شعور دیا وہیں بھٹکنے والا نفس اور بے لگام خواہشات بھی دیں۔ شاید اسی لئے جہاں اچھے کاموں پر انعامات کا لالچ دیا گیا وہیں برے اعمال پر سزا کی نوید بھی سنا ئی گئی۔ سادہ الفاظ میں اس امر کو یوں سمجھیں پرائمری سکول کے اساتد کے ایک ہاتھ میں ٹافی اور دوسرے میں لاٹھی۔دونوں ضروری ہے ۔

قصور کی ننھی زینب انصاری بٹکنے والے نفس اور بے لگام خواہشات کا شکار بننے والی پہلی کم سنہ نہیں بلکہ صرف قصور میں پچھلے تین سال سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے مسلسل سکینڈل سامنے آرہے ہیں لیکن نہ کسی مجرم کو چوراہے پر لٹکایا گیا اور نہ ہی کوئی کال کوٹھری کا مستقل مہمان بنا۔سننے میں آیا ہے کوئی بڑا گینگ ہے ۔ زیادتی کے دوران ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور زیادتی کے شکار بچی یا بچے کے والدین کا منہ بندرکھنے اور ان سے بڑی رقم لینے کیلئے عزت کے ساتھ کھلواڑ کے ساتھ ساتھ گھناونا تماشہ بھی کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی زبان زد عام ہے کہ بااثر سیاسی لوگوں کی پشت پناہی کی بدولت سے ہی پولیس رام ہے اور درندے عام ہوتے جارہے ہیں۔

بابابلے شاہ کے علاقے قصور کے معصوموں کا قصور اتنا ہے کہ یہاں غیر فطری کام اتنا عام اور دھندے کی جڑ اتنی مظبوط ہوچکی ہے کہ کوئی اگر ہاتھ ڈالنے چاہے تو اس کا ہاتھ کاٹ کر اس کے دوسرے ہاتھ میں واپس تھما دیا جاتا ہے۔ داتا کی نگر لاہور میں گزشتہ سال سینکڑوں بچے اغوا ہوئے ۔ ہر روز زیادتی کا واقعہ رونما ہوتا ہے ۔لیکن مجرم ہیں کہ ہاتھ نہیں آتے ۔کیوں؟ کیونکہ شاید بڑی طاقتیں مجرموں کے پیچھے ہیں۔ عام مجرموں دوسرے تیسرے روز ضرور پکڑا جاتا ہے لیکن بااثر مجرم ۔۔۔۔۔

اس بات میں اب شاید ہی شک ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں سزا و جزا کا تصوردھندلا پڑرہا ہے۔جس کی وجہ سے درندے بے خوف اور بے لگام ہوتے جارہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے ۔ زینب واپس تو نہیں آسکتی ہے لیکن زینب کے قاتلوں کو چوراہے پر لٹکانے سے ضرور ہزاروں زینب بچ جائیں گی۔ نفس اور خواہشات کو کوئی مار نہیں سکتا البتہ قانون پر عملدرآمد سے ان پر لگام لگائی جاسکتی ہے۔ ڈنڈے کے ڈر سے درندوں کو جنگل تک ہی محدود رکھا جاسکتا ہے ۔

بلے شاہ اور داتا کی نگری کے رکھوالو !دیر نہ کریں۔ آپ حکمران ہیں ۔ آپ کے پاس طاقت ہے مگر جواب دہ بھی ہیں یہاں نہیں تو اگلی جہاں میں ۔ادھر کیا منہ لیکر جائیں گے۔ کائنات کے حکمران کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے آج وہ کام کریں جو عین فطرت ہے۔ دیر مت کیجئے۔ورنہ درندے پورے نظام کو نوچ لیں گے ۔شاید اس وقت آپ کی سیاست ، آپ کی تدبیریں ، آپ کی نشستیں کام نہیں آئیں گی۔ زینب کی روح کی پکار بھی یہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے