اپنے بچوں پر تھانیدار نہ بنیں ان کے دوست بنیں

رابعہ خرم درانی

اسلام آباد

——-

child abuse

دل دکھتا ہے
آنکھ خوں بہاتی ہے ..

یہ بچے کسی کے نہیں .. ہمارے بچے ہیں . ..
پاکستانی بچے
مسلمان بچے
انسان کے بچے ..
ہمارا تمہارا مستقبل ..
ماں نے اس لئے تو پیدا نہیں کیا اپنے بیٹے کو ، باپ اس لئے تو اپنی بیٹی کو کاندھے پر بٹھا کر سکول داخل کروانے نہیں لے گیا تھا .. کہ سکول سے وہ 9 سالہ بچی اغوا کی جائے گی اذیت سہے گی ..اور ذہنی صدمہ برداشت کرےگی ..

.. الامان ..الحفیظ….

وہ ماں باپ جیتےجاگتے لگتے ہیں .. وہ زندہ نہیں .. مردہ بدست زندہ کی عملی تفسیر ہیں جن کے تینوں بچے ان درندوں کی بھینٹ چڑھے ..

یہ کیا ہے .. یہ سب کیسے ہو سکتا ہے .. وہ DPO اور MINISTER چپ کیسے رہ سکتے تھے .. کیا وہ بے اولاد ہیں ..

وہ پردہ پوش کیسے رہ سکتے تھے .. یا یہ کاروبار کرنے والے 25 جوان اور ان کے دو 40 سالہ لیڈرز ان کے کارندے ہیں ..

یہ تو وہ کہانی ہے جو طشت از بام ہو گئی ..
ہمارے ارد گرد ہر گلی کوچے میں یہی کہانی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ..

خصوصاً مشترکہ خاندانی نظام میں یا ایسے تنگ محلوں میں جہاں آزادانہ طور پر مختلف خاندانوں کے بچے اکٹھے پرورش پا رہے ہوتے ہیں ..

یاد رکھیں…” نئے نئے جوان ہوئے کزنز بڑے بہن بھائی نہیں ہوتے ..”

آپ کا بچہ( قطع نظر اس کے کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی) آپ کی نظر سے اوجھل بھائی جان کے کمرے میں یا ساتھ والے انکل یا باجی کے گھر یا ٹیوشن پر استاد و قاری صاحب کے ساتھ غیر معمولی وقت نہ گزارنے لگے .. اسے نوٹ کریں…

بچے اپنے موبائل یا ٹیبلٹ پر کس کام میں مصروف رہتا ہے والدین کو اس کا علم ہونا ازبس ضروری ہے

مائیں اپنے بچوں کو مرغی کے پروں میں چھپائے چوزوں کی طرح بچا کر پالیں ورنہ کوئی نہ کوئی چیل کوا یا رال ٹپکا تا گدھ اس کے چوزے کو لے اڑے گا ..

اپنے بچوں پر تھانیدار نہ بنیں ان کے دوست بنیں .. اپنے بچے کی تمام دن کی روداد سنیں ..

اس کی گیمز میں حصہ لیں ..
اس کے دوستوں سے واقف رہیں ..
اپنے بچے میں در آنے والی تبدیلیوں کا نوٹس لیں..
اس کی وجہ جاننے کی جستجو کریں ..

معاشرتی دباؤ یا رشتے بچانے کے لئے ایسے کسی معاملے میں خاموش رہنا جرم ہے ..

اپنی اولاد کو اعتماد میں لیں ان کا خود پر اعتماد بحال کریں اور انہیں ابتدائی حفاظتی تدابیر سے آگاہ کریں …مثلاً
..اجنبی پر بھروسہ نہ کرنا ..
…اجنبی سے کچھ لے کر مت کھانا
…انکل کی گود میں نہیں بیٹھنا
..انکل/ بھائی جان/سر/قاری صاحب کہاں ٹچ کر سکتے ہیں
اور کہاں ٹچ کریں تو بچے نے چیخنا ہے .. وغیرہ ..

یہ بچے جن کو کل ڈاکٹر ..انجینئر .. استاد .. سائنسدان بننا تھا وہ آج کیا بنائے چا چکے ہیں .. زبردستی ہی سہی لیکن وہ 50 ,50 روپے کے عوض بکنے والی ایکس ریٹڈ فلموں کے جیتے جاگتے کردار بن چکے ہیں .. واٹس ایپ اور سکائپ پران کی ویڈیوز بکتی ہیں …

واہ یہ اس زندہ قوم کی فطرت کے قریب ترین بننے والی فلموں کے ہیرو اور ہیروئین بنا دئے گئے ہیں …. یہ بچے ہمارے معاشرے اور ہمارے نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ ہیں ….

نہیں طمانچہ نہیں .. جب جب ان معصوموں کی فلم کوئی بیمار ذہن دیکھ کر تسکین پاتا ہے تب تب ہماری پوری قوم آبروباختہ ہو جاتی ہے .. ….

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے