پاکستان میں جینیاتی امراض کا پہلا ڈیٹا بیس متعارف

اسلام آباد: پاکستان میں جینیاتی تبدیلیوں اور ان سے لاحق ہونے والے امراض کا پہلا ڈیٹا بیس تیار کرلیا گیا۔

پاکستان کے طول و عرض میں آبادی میں کئی طرح کے جینیاتی امراض پائے جاتے ہیں جن کی وجہ خاص جین میں تبدیلی (میوٹیشن) ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی مردو زن میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں بھی رپورٹ ہوئی ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں دیکھی گئیں مثلاً گزشتہ برس کراچی کے ماہی گیروں میں ہزاروں ناک آؤٹ جین دریافت ہوئے جس کی خبریں پوری دنیا میں مقبول ہوئی تھیں۔

اس کی اہم وجوہ میں برادری کی شادیاں سرِ فہرست ہیں جن سے ایک خاندان کی جینیاتی تبدیلیاں بڑھتی رہتی ہیں اور کئی امراض و مسائل کی وجہ بھی بن رہی ہیں۔

کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے پاکستانی آبادیوں میں جینیاتی تبدیلیوں کا ایک ڈیٹا بیس تیار کیا ہے۔ اب نئے ڈیٹا بیس سے موروثی امراض کو سمجھنے اور ان کی اسکریننگ و علاج میں مدد ملے گی۔ اس طرح جینیاتی تبدیلیوں کے شکار افراد کے لیے ان کے جینوم کے لحاظ سے معالجے کی بھی راہ ہموار ہوگی۔ اب تک اس پاکستان جینیٹک میوٹیشن ڈیٹا بیس ( پی جی ایم ڈی) میں 1000 سے زائد جینیاتی تبدیلیاں (میوٹیشن) ردیف وار ( ایلفابیٹکل آرڈر) میں شامل کی گئی ہیں جو کم سے کم 120 امراض اور پیچیدگیوں کی وجہ بن رہی ہیں۔

پی جی ایم ڈی کے چیف کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر سعد اللہ خان کہتے ہیں کہ یہ ڈیٹا بیس پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت مفید ہے جہاں قریبی کزن کے درمیان شادی کا عام رواج ہے۔ سعد اللہ خان کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ کے معاون پروفیسر بھی ہیں انہوں نے اسی پروجیکٹ پر ایک رپورٹ بھی لکھی ہے جو دسمبر 2017ء میں یورپی جنرل آف میڈیکل جنیٹکس میں شائع ہوئی ہے۔

پی جی ایم ڈی کی ویب سائٹ کے مطابق ملک میں قریبی کزن کے درمیان شادیوں کی شرح 62 فیصد کے قریب ہے جو قریبی شادیوں والے خطے میں بھی بلند تر ہے جن میں مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک بھی شامل ہیں لیکن وہاں باہمی شادیوں کی شرح 40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

سعد اللہ خان نے بتایا کہ پاکستانی آبادی میں رونما ہونے والی جینیاتی تبدیلیاں کئی مسائل اور امراض کی وجہ بن رہی ہیں۔ کیونکہ قریبی رشتے داروں میں شادیوں کی لحاظ سے فرسٹ ڈگری کیفیت ہے جو پاکستانیوں کو جینیاتی امراض کی شکار بنارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی جی ایم ڈی کی بدولت ماہرین، ڈاکٹروں، سائنس دانوں کو قیمتی معلومات ملیں گی تاہم اس پورے نظام کو خفیہ رکھا گیا ہے ڈیٹا میں لوگوں کی شناخت، مقامات، قومیت اور جنس کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

ماہرین کے محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی 20 کروڑ میں سے 2 کروڑ 90 لاکھ آبادی کسی نہ کسی جینیاتی مرض کی شکار ہے جس کی وجہ قریبی خاندانوں کے درمیان باہمی شادیاں ہیں۔

پاکستانی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے سینئر ماہر اطفال حیدر شیرازی نے کہا ہے کہ فرسٹ کزن کے درمیان شادیوں سے کئی جینیاتی امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ان میں بچوں کی وفات، پیدائشی نقائص، سیکھنے میں رکاوٹ، نابینا پن، سماعت وگویائی سے محرومی، مرگی، تھیلیسیمیا، اسقاطِ حمل، بانجھ پن اور دیگر میٹابولک امراض شامل ہیں‘ ۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے مرکزی سائنس دان ڈاکٹر شاہد منصور نے کہا کہ پی جی ایم ڈی سے ملک میں جینیاتی امراض کی شناخت و علاج میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب انہوں نے قریبی کزن کے درمیان شادی کی حوصلہ شکنی اور شادی سے قبل کئی بیماریوں کے لیے جینیاتی ٹیسٹ کی حوصلہ افزائی کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ملک کے مستقبل کو صحت مند اور توانا رکھا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے