کشمیراورفلسطین،دومظلوم جڑواں بہنیں

امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دئے جانے کے بعد سے فلسطینی عوام اس فیصلے کے خلاف احتجاج پر ہیں۔ احتجاجی مظاہرے اور غزہ پر بمباری معمول بن گیا ہے ۔ اگرچہ دنیا بھر میں اس مسئلے پر فلسطینی موقف کی حمایت اور امریکہ کی مخالفت کی گئی ہے لیکن فلسطین کے اندرونی حالات اس سے بھی برے ہیں جو گذشتہ برس کشمیر کے اندر رہے ہیں ۔یہ ہمارے لئے اسی طرح بے چینی کا باعث ہیں جیسے اپنے کشمیر کے بار بار جل اٹھنے پر ہم بے چینی محسوس کرتے ہیں کیونکہ تعلیمی اداروں میں علمی مباحث کو چھوڑ کر کشمیر کے گھروں میں بھی مسئلہ کشمیر کے علاوہ سب سے زیادہ زیربحث لایا جانے والا مسئلہ مسئلہ فلسطین ہی ہے ۔
مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر بھی جڑواں مسائل کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی عمر تقریبا ایک سی ہے اور اگر ان کی کنفلیکٹ ٹائم لائن کو دیکھا جائے تو حیران کن مماثلت دیکھنے کو ملتی ہے ۔دونوں طویل ترین مسائل کے نہ صرف پیدا کرنے والی طاقتیں ایک ہی ہیں بلکہ سالوں میں ہونے والے تمام بڑے واقعات کا زمانہ اور نوعیت بھی ایک سی ہے ۔ چند ایک قابل ذکر واقعات کچھ اس طرح ہیں
1846 کا معاہدہ امرتسر اور1917کا بیل ڈیکلئیریشن
معاہدہ امرتسر وہ بدنام ترین معاہدہ ہے جس کے ذریعے انگریزوں نے کشمیر کی ریاست کو عوام سمیت 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا اور آنے والے ایک سو ایک برس تک مہاراجہ اور اس کی اولاد کشمیری عوام کا خون چوستے رہے ۔ اسی دوران 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ بیل فورر نے فلسطین کی زمین یہودیوں کو اپنی ریاست قائم کردینے کا اعلان کیا۔

1947 میں تقسیم برصغیر اور 1948 میں فلسطین پر اسرائیلی قبضہ
1947 میں برصغیر تقسیم ہوا اور دو نئی مملکتیں ’’ پاکستان اور انڈیا‘‘ وجود میں آئیں ۔ اس کے چند دن بعد دونوں نے کشمیر پر اپنے اپنے انداز سے حملہ کیا اقوام متحدہ کی مداخلت سے 1948 میں جنگ بندی ہوئی اور کشمیر تقسیم ہو کر دو انتظامی خطوں میں بٹ گیا۔ ان انتظامی خطوں کے درمیان آپسی رابطہ اس صدی کے اوائل تک تقریبا ناممکن تھا ۔

اسی طرح مئی 1948 میں ہی باہر سے آ کر فلسطین میں آباد ہوئے یہودیوں نے فلسطین پر حملہ کیا اور اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی اور فلسطین پر قبضہ کئے گئے علاقے کو ایک الگ ملک اسرائیل کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور فلسطین دو حصوں ’’غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے‘‘ میں تقسیم ہو کر رہ گیا ۔ اس دوران کشمیر اور فلسطین دونوں سے ہجرت کرنے والے لوگوں کی تعداد تقریبا سات سات لاکھ ہے ۔ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام اور فلسطین کے دیر یاسین نامی دیہات پر حملہ تقریبا ایک نوعیت کے ہیں۔

1965 کا آپریشن جبرالٹر اور 1967 کا سکس(six) ڈے وار
1965 میں آپریشن جبرالٹر کے بعد پاکستان اور انڈیا میں دوسری جنگ مسئلہ کشمیر پر چھڑ گئی اور آزاد کشمیر کے کچھ علاقے انڈیا نے ہتھیا لئے ۔

1967 میں عر ب ممالک اسرائیل پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا ہی رہے تھے کہ اسرائیل نے پیشگی حملہ کر دیا اور فلسطین کے مزید علاقے قبضے میں کر لئے اور اس جنگ میں عرب بری طرح پسپا ہوئے ۔

اسی طرح 1972کا شملہ معاہدہ اور 1974 میں گولن ہائٹس پر اسرائیلی قبضہ اور شرم الشیخ ایکارڈ میں مماثلت بھی تاریخ کے طالب علموں کے لئے دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے ۔

فلسطین کی پہلی انتفادہ اور کشمیر کی عسکری تحریک کا پہلا دور
80 کی دہائی مسئلہ کشمیر اور فلسطین دونوں کے لئے بہت اہم ہے ۔ یہ وہ وقت تھا کہ لاوا پک کر تیار ہو چکا تھا اور کسی بھی وقت پھٹنے کو تھا ۔1987 میں فلسطین میں حماس کی تشکیل ہوئی اور انتفادہ کا پہلا دور چھ سال تک جاری رہا ۔ عسکری مزاحمت کے یہ چھ سال فلسطین کی تاریخ میں لینڈ مارک کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

کشمیر میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا قیام اگرچہ پہلے ہی عمل میں آچکا تھا لیکن 1987کے انتخابات میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کی شکست نے مسلح تحریک کے رستے آسان کر دئے اور 1989 کے اوائل میں لبریشن فرنٹ نے عسکری کارووائیں شروع کر دیں ۔

اوسلو پیس ایگریمنٹ فلسطین اور لبریشن فرنٹ کا سرنڈر
1993 میں پی ایل او نے اسرائیل کو ملک تقسیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ مذاکرات کئے اور ایک امن معاہدہ کیا جو فلسطینی عوام میں کوئی مقبول معاہدہ نہیں ہے۔

1994 میں ہی لبریشن فرنٹ کے یاسین ملک گروپ نے سرینڈر کیا ۔ اگرچہ عسکری تحریک دونوں خطوں میں بالکل ختم نہیں ہوئی کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے ۔

اس کے بعد سنہ 2000 میں فلسطین میں دوسری انتفادہ ہوئی،2008 میں فلسطین میں عسکری تحریک نے ایک بار پھر قوت سے سر اٹھایا اور اس کو اسرائیل کے بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

کشمیر کی بھی 2008کی تحریک نے بڑی توجہ حاصل کی اور 2010 میں کشمیر ایک بار پھر بھڑک اٹھا جبکہ 2012 میں فلسطین ۔ اسی طرح 2014 میں فلسطین اور 2016میں کشمیر ۔ یہ تو تھی کنفلیکٹ ٹائم لائن کی مماثلت ۔

اس کے علاوہ دونوں میں کئی طرح کی مشابہت ہے ۔مثلا مہاجرین کی تعداد ایک سی ہے ، قابض طاقتوں کے طاقت کے استعمال کے ہتھکنڈے ایک سے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں دونوں کے لئے ایک سی بے معنی ہیں۔ لیکن جو سب سے بڑی اور سب سے اہم مشابہت ہے وہ یہ کہ دونوں کے عوام کے لئے وہاں کا مسئلہ ان کی اپنی زمین پر اپنا اختیار اور قابض قوتوں سے آزادی حاصل کرنا ہے جبکہ دنیا میں ان مسئلوں کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے اور کوئی پین اسلام ازم کی تحریک تصور کیا جاتا ہے ۔ بے تحاشا باتوں میں یہ دونوں مسائل ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔جہاں ہمیں فلسطین سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔ ان میں سے چند کا احاطہ ان شا اللہ اگلے مضمون میں کیا جائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے