پالتو جانور، فالتو انسان

اصل موضوع کی طرف ذرا بعد میں، پہلے ایک تازہ ترین تجربہ آپ کے ساتھ شیئر کر لوں تاکہ آپ جان سکیں کہ منتخب نمائندے یعنی یہ جمہوریئے کس طرح ملک، معاشرے کو زخم لگاتے اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ نہر کے ساتھ ساتھ ملتان روڈ کی طرف چلیں تو ٹھوکر نیاز بیگ والے اوور ہیڈ برج سے پہلے بائیں مڑنے پر وہ خوبصورت مین بلیوارڈ ہے جو شوکت خانم ہسپتال وغیرہ کی طرف جاتی ہے۔ اس دو رویہ سڑک کے دونوں طرف سروس لینز ہیں۔ دائیں سروس لین پر چند ماہ پہلے ایک مارکیٹ ’’اگنا‘‘ شروع ہوئی۔ پہلے کچھ ریڑھیاں نمودار ہوئیں، پھر دکان نما کھوکھے۔ پھر باقاعدہ دکانیں۔ مرغی، گوشت، مچھلی، پھل، سبزی کی دکانیں جو اب باقاعدہ مارکیٹ کا روپ دھار رہی ہیں تو ظاہر ہے متعلقہ محکمہ اندھا ہے یا بے بس اور اصل کہانی یہ کہ علاقہ کے کسی ایم این اے، ایم پی اے نے علاقہ کے حسن اور ٹریفک کی روانی میں اپنا ’’جمہوری حصہ‘‘ ڈالا ہے۔ مارکیٹ پھیلتی جائے گی، تعمیرات پختہ تر ہوتی جائیں گی۔ ’’دعویٰ جھوٹا قبضہ سچا‘‘ کی بنیاد پر ان تجاوزات کے مالکان خود کو ان کا مالک سمجھنے لگیں گے۔

پھر جب کبھی انہیں بلڈوز اور مسمار کرنے کا مرحلہ آئے گا تو ایک تماشا لگے گا، وقت، انرجی اور پیسے کا زیاں ہو گا لیکن تب تک سیاسیہ اور انتظامیہ کان لپیٹے، آنکھیں بند کئے خراٹے لیتے رہیں گے۔ یہ ہے کراچی سے پشاور تک اس پورے ملک کی کہانی جہاں قانون کی حکمرانی کہانی تھی، کہانی ہے اور خاکم بدہن….کہانی ہی رہے گی کیونکہ ماشاء اللہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور ’’شاہینوں‘‘ کی دنیا میں تجاوزات کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ ’’شاہین‘‘ اور ’’شیر‘‘ جہاں چاہیں قبضہ کر لیں کہ جائز، ناجائز اور تجاوزات جیسے تکلفات تو انسانوں کے لئے ہوتے ہیں۔ شکاری پرندے اور درندے ان پابندیوں سے آزاد ہی نہیں، مادر پدر آزاد ہوتے ہیں اور یہی وہ آزادی ہے جس کا جشن ہر سال چودہ اگست کو منایا جاتا ہے۔اور اب اصل موضوع۔ میں گزشتہ تقریباً ایک سال کے عرصہ میں تین مختلف انگریزی رسائل میں تین ملتے جلتے آرٹیکلز پڑھ چکا ہوں جن کا موضوع یہ ہے کہ آپ کو اپنے بوڑھے ہوتے ہوئے پالتو جانوروں کی دیکھ بھال کے سلسلے میں کون کونسی احتیاطی تدابیر کا خیال کرنا چاہئے یعنی "How to care for your ageing pet”۔ یہ ہے انسانی معاشروں کی باتیں جہاں حیوانی حیات بھی حیات سمجھی جاتی ہے۔ نہ آرسینک ملا پانی نہ کیمیکلز سے تیار شدہ دودھ مکھن نہ مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے تیار کیا گیا خوردنی تیل نہ بھس بھری چائے کی پتی نہ رنگ کئے پھوک ملی مرچیں۔ کیسے بے راہرو معاشرے ہیں۔

ذرا چند ٹپس پر غور فرمایئے۔جیسے جیسے آپ کا پالتو جانور، پرندہ ’’بزرگ‘‘ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی اس کی خوراک میں تبدیلی بہت ضروری ہوتی چلی جاتی ہے۔ وٹامنز کی اقسام اور مقدار میں بھی خاطر خواہ تبدیلی لازمی ہو جاتی ہے۔ اومیگا3، 6اور 9کی زیادہ مقدار درکار ہوتی ہے تاکہ ہڈیاں اور جوڑ مضبوط رہیں اور بڑھتی عمر کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں۔پالتو جانور کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی ایکسر سائز کو یقینی بنائیں۔ اس کی آئوٹ ڈور سرگرمیوں پر توجہ دیں۔ اگر وہ ’’بڑھاپے‘‘ کے سبب ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں تو انہیں ’’ان ڈور‘‘ ایکٹی وٹیز کی طرف راغب کریں۔اپنے پالتوئوں کو FITرکھیں لیکن FATنہ ہونے دیں کیونکہ عمر رسیدگی میں موٹاپا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ انہیں مناسب وقفوں کے ساتھ ’’چیک اپ‘‘ کے لئے لے جاتے رہیں اور ڈاکٹر کی ہدایات پر ذمہ داری سے عمل کریں۔ ٖPLAQUEاور TARTARنقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے آپ کا پیارا دیگر بہت سی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کے دانتوں کو چیک کراتے رہیں۔ ان کے دانتوں کو برش کریں اور DENTAL CHEWSاستعمال کریں۔ اس کے علاوہ اپنے PETکیلئے ’’سالانہ پروفیشنل کلین‘‘ کو بھی یقینی بنائیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔قارئین!پالتو جانوروں کے دانتوں کی صفائی پر یاد آیا کہ ہمارے ہاں مردہ جانوروں کے جبڑوں کی خرید و فروخت بھی عروج پر ہے۔

جانوروں کے دانتوں کی گھسائی رگڑائی کے بعد انہیں انسانوں کے مسوڑھوں میں فٹ کرنے کی ’’صنعت‘‘ خاصی منافع بخش ہے۔میں نے ایک سے زائد بار لکھا ہے کہ حکمران اگر عوام کے ساتھ پالتو جانوروں والا سلوک ہی شروع کر دیں تو انسانی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے حالانکہ اس وقت تک میں نے یہ آرٹیکلز نہیں پڑھے تھے۔ہائے انسانی معاشروں کے حیوان اور حیوانی معاشروں کے انسان۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے