دیر آید درست آید

الحمدللہ ۔ ثم الحمد للہ ۔ سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کی فاٹا تک توسیع کا بل قومی اسمبلی سے پاس ہوگیا۔ یوں قبائلی عوام کے باقی پاکستانیوں کی طرح پاکستانی بننے کی راہ ہموار ہوئی ۔مسلم لیگی حکومت کی بدبختی یہ ہے کہ وہ اگر کبھی دودھ بھی دیتی ہے تو اس میں اس قدر مینگنیاں ڈال دیتی ہےکہ دودھ حاصل کرنے والا مشکور ہوتا ہے اور نہ دودھ سے مزہ لینے کے قابل رہتا ہے ۔ محترم مولانا فضل الرحمان صاحب اور محمود خان اچکزئی صاحب کی خاطر وفاقی حکومت نے فاٹا اصلاحات کی پچیس میں سے ایک شق کی منظوری میں بھی اتنی تاخیر کردی کہ اس کا کریڈٹ الٹا ڈس کریڈٹ میں بدل گیا ۔

تاہم اس کے باوجود مورخ فاٹا اصلاحات کی تیاری کے عمل کو سرتاج عزیز کمیٹی کا اور اس ایک شق کی منظوری کو میاں نوازشریف کی حکومت کا بڑا کارنامہ قرار دے گا ۔شکر ہے کہ ایک طرف فاٹا کے نوجوانوں کا دبائو تھا اور دوسری طرف خورشید شاہ کی قیادت میں اپوزیشن کا ، کہ حکومت فاٹا بل کو بالآخر اسمبلی میں لانے پر مجبور ہوئی ۔ بالواسطہ کریڈٹ بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والوں کو بھی یوں جاتا ہے کہ وہاں جب مولانا فضل الرحمان صاحب نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا ساتھ نہ دیا تو اسے احساس ہوگیا کہ مولانا کی خاطر تمام قبائلی عوام کی خواہشات کا خون کرکے فاٹا بل کی منظوری میں تاخیر کی اس کی پالیسی درست نہیں۔ یوں 12 جنوری کو وہ بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا جسے اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی اکثریت نے فوراً پاس کردیا۔ یوں سینیٹ سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد اب فاٹا کے مظلوم عوام بھی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف یا پھر اپنے کسی آئینی اور جمہوری حق کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع کرسکیں گے ۔ تاہم یہ منزل نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی طرف پہلا مگر بنیادی قدم ہے ۔

انگریز کا رائج کردہ ایف سی آر پر مبنی یہ نظام اس قدر ظالمانہ تھا اور اس نے قبائلی عوام کو جہالت اور پسماندگی کے ایسے بھیانک اندھیروں میں رکھا کہ لمبے عرصے تک وہ اپنے بنیادی حقو ق کا شعور بھی حاصل نہ کرسکے ۔ اگر کوئی نظام کو بدلنے کی کوشش بھی کرتا تو بعض ریاستی ادارے، روایتی ملکانان ، فاٹا کے پارلیمنٹیرینز اور پولیٹکل انتظامیہ جو ا س نظام کی آڑ میں عوام کا استحصال کررہے تھے، اس نظام کو ختم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے تھے ۔ قبائلی عوام کی یہ غلامی اس وقت تک پاکستان کے سیاستدانوں یا میڈیا کی توجہ حاصل نہ کرسکی جب تک کہ دہشت گردی کا گڑھ بن کر فاٹا خود باقی ماندہ پاکستان کے لئے مسئلہ نہ بنا ۔ چنانچہ پہلی کوشش پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں کی گئی تاکہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لایا جائے لیکن ا سٹیٹس کو کے محافظ،، مذکورہ عناصر آڑے آئے اور پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کے دائرہ کار کی قبائلی علاقوں تک توسیع کے سوا پی پی پی حکومت بھی مزید کچھ نہ کرسکی ۔

پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے سینکڑوں بچوں کی شہادت نے پوری قوم کو جھنجھوڑ دیا اور قومی قیادت نیشنل ایکشن پلان کی تیاری پر مجبور ہوئی تو فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی شق کو بھی اس بیس نکاتی ایکشن پلان میں شامل کر دیا گیا لیکن حسب عادت پہلے تو نوازشریف حکومت نے اس مقصد کے لئے کمیٹی کی تشکیل میں کئی ماہ لگا دیئے ۔ پھر کمیٹی نے رپورٹ کی تیاری میں کئی ماہ لگا ئے ۔ پھر اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے میں کئی ماہ لگادیئے گئے اور پھر اس کو کابینہ اور قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں کئی ماہ تک لیت ولعل سے کام لیا گیا ۔ تاہم یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ سرتاج عزیز صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جو سفارشات مرتب کیں ، وہ قبائلی عوام ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کے جذبات کی آئینہ دار تھیں ۔ اس رپورٹ میں خیبر پختونخوا اور فاٹا کے ادغام کی تجویز کو قابل عمل اور ضروری قرار دیا گیا تھا اور اس مقصد کے لئے قانونی، آئینی اور انتظامی اقدامات تجویز کئے گئے تھے ۔

مولانا فضل الرحمان صاحب نوازشریف حکومت کا حصہ اور محمود خان اچکزئی صاحب اتحادی ہیں اور نہ صرف کمیٹی کی تشکیل میں ان دونوں کی رضامندی شامل تھی بلکہ قبائلی علاقوں کے دوروں کے موقع پر اس کمیٹی نے سب سے زیادہ مشاورت مولانا کی جماعت کے رہنمائوں سے کی لیکن نہ جانے کیوں جب قانون سازی کا وقت آیا تو یہ دونوں رہنما اور ان کی جماعتیں میدان میں نکل آئیں اور فاٹا کے انضمام کی مزاحمت کرنے لگیں اوران دو بندوں کی مزاحمت کو بہانہ بنا کر حکومت سفارشات پر عمل درآمد سے گریز کرتی رہی ، حالانکہ ان سفارشات کی منظوری ایسی وفاقی کابینہ نے دی جس میں مولانا کی جماعت کے اکرم درانی بھی تشریف فرما تھے۔ تنگ آکر اپوزیشن جماعتیں میدان میں نکل آئیں ۔

اے این پی اور جماعت اسلامی جیسی تنظیموں نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ فاٹا سیاسی اتحاد جو فاٹا میں موجود سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے میدان میں نکل آیا ۔ اولسی تحریک جیسی تنظیمیں سرگرم عمل رہیں ۔ حتیٰ کہ جیو ٹی وی نیٹ ورک نے کروڑوں روپے کی قربانی دے کر ذرا سوچئے کے نام سے مہم بھی شروع کردی لیکن ایک طرف سیاست اور صحافت دیگر ایشوز کے گرد گھومتی رہی تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمان صاحب اور اچکزئی صاحب فاٹااور خیبر پختونخوا کے انضمام کو روکنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے رہے ۔ تاہم اس دوران ایک خوشگوار تبدیلی یہ آئی کہ قبائلی علاقوں کے نوجوان حقیقی معنوں میں پاکستانی بننے کے لئے اور اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لئے میدان میں نکل آئے ۔

اس مقصد کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کا یہ عالم تھا کہ وہ کام جو بڑے بڑے سیاسی رہنما نہ کرسکے ان نوجوانوں نے کردکھایا۔تمام سیاسی ، نظریاتی اور علاقائی اختلافات کو پس پشت ڈال کروہ انضمام کے ایک نعرے کے ساتھ جمع ہوگئے۔قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ نوجوانوں نے مسلم لیگ (ن) کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور عوامی نیشنل پارٹی کے نوجوان ، جماعت اسلامی کے نوجوانوں کے ساتھ یک آواز ہوگئے ۔ یہ اعزاز اللہ تعالیٰ نے ہمارے پروگرام جرگہ کو بخش دیا کہ اس میں فاٹا سے تعلق رکھنے والی چھبیس سے زائد تنظیموں نے فاٹا یوتھ جرگہ کے نام سے ایک متحدہ فورم بنا کر مجھ ناچیز کو اپنا سرپرست اعلیٰ بنا دیا ۔ ان نوجوانوں نے تشدد اور جلسے جلوسوں کی بجائے پرامن راستہ اختیار کیا ۔ وہ وزیراعظم سے ملے ، سیاسی قائدین سے ملے ، چیئرمین سینیٹ اور ا سپیکر قومی اسمبلی سے ملے ۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے لے کر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور تک اور کورکمانڈر پشاور سے لے کر گورنر خیبر پختونخوا تک کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہر جگہ یہی ایک التجا کرتے رہے کہ انہیں آئینی اور جمہوری حقوق دئیے جائیں ۔

الحمد للہ اس فاٹا یوتھ جرگہ کی کوششوں سے سیاسی جماعتوں کے قائدین فاٹا کے مسئلے کو پاکستان کا مسئلہ سمجھ کر متحرک ہوئے اور مجھے یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جہاں بعض حکومتی شخصیات اور فاٹا کے بعض پارلیمنٹرین کا کردار نہایت شرمناک رہا ، وہاں قومی اسمبلی کےا سپیکر جناب ایاز صادق ، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور لیڈر آف دی اپوزیشن سید خورشید شاہ نے ایسا شاندار کردار ادا کیا کہ قبائلی عوام کی آئندہ نسلیں بھی ان کی مشکور رہیں گی۔ فاٹا یوتھ جرگہ کے نوجوانوں نے کسی محاذ کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ جب جے یو ائی اور قبائلی علاقوں کے اندر موجود اسمگلروں اور اغواکاروں کی مافیاز نے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ فاٹا کے لوگ انضمام کے حق میں نہیں تو ان نوجوانوں نے تمام قبائلی علاقوں اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں فاٹا کو پختونخوا کے ساتھ ضم کردو، کی پٹیشن پر دستخطوں کی مہم چلا کر گویا انضمام کے حق میں ریفرنڈم کروا دیا۔ جس روز قومی اسمبلی سے فاٹا بل منظور ہورہا تھا ، اس روز بھی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ قبائلی نوجوانوں کے قائد فاٹا یوتھ جرگہ کے تحت اسمبلی کے باہر ہاتھوں کی زنجیر بنانے کی کوشش کررہے تھے اور اس کوشش میں اسلام آباد پولیس نے انہیں گرفتار بھی کرلیا۔

ان کی گرفتاری جہاں ایک قابل مذمت واقعہ تھا وہاں یہ گرفتاری پاکستان کی خاطر فاٹا کے نوجوانوں کی یکجہتی کا ایک شاندار نمونہ بھی یوں تھی کہ انصاف ا سٹوڈنٹس فیڈریشن فاٹا کے صدر اخترگل اور مسلم لیگ یوتھ ونگ فاٹا کے صدرنظام الدین سالارزی کو ایک ساتھ پولیس گرفتار کررہی تھی اور گرفتاری کے وقت دونوں ایک ہی نعرہ لگارہے تھے کہ گوایف سی آر گو ۔دونوں ایک ہی نعرہ لگاتے ہوئے پولیس کی ایک ہی گاڑی میں تھانے منتقل کئے جارہے تھے ۔ اسی طرح زرداری کو لیڈر ماننے والے پیپلز ایس ایف کے صدر اکبر آفریدی ، اسفندیار ولی خان کو لیڈر ماننے والے نثار باز اور سراج الحق کو لیڈر ماننے والے شاہ جہان آفریدی بھی ایک ہی نعرہ لگاتے ہوئے ایک ساتھ گرفتار ہوکر پولیس کی ایک ہی گاڑی میں بٹھائے گئے تھے ۔

یہ نوجوان گرفتاری کے بعد بھی اپنے راستے سے نہیں ہٹے اور بعدازاں اسلام آباد پریس کلب کے سامنے جمع ہوکر ہاتھوں کی زنجیر بنانے لگے کہ اس دوران انہیں فاٹا بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کی خبر ملی ۔ یوں ان کا احتجاج جشن میں تبدیل ہوا۔ صرف یہاں نہیں بلکہ بل کی منظوری کی خبر ملتے ہی باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک لوگ گھروں سے نکل آئے ۔ مٹھائیاں تقسیم ہوئیں اور ایک دوسرے کو مبارکبا ددیتے رہے ۔ اسی روز شام کو اسلام آباد اور پنڈی میں مقیم فاٹا کے نوجوانوں نے آل فاٹا اسٹوڈنٹس فورم کے زیراہتمام راولپنڈی آرٹس کونسل میں جشن کا اہتمام کیا ۔

یقیناًفاٹا تک عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے دائرہ کار کی توسیع بہت بڑی پیش رفت ہے ۔ اس نے خیبر پختونخوا کے ساتھ فاٹا کے انضمام کی سمت متعین کردی ہے لیکن ظاہر ہے یہ نہ انضمام ہے اور نہ سرتاج عزیز کمیٹی کی مکمل سفارشات پر عمل درآمد ۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ فوری طور پر دیگر شقوں پر بھی عمل درآمد کو یقینی بنائے اور اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ حکومت پر دبائو برقرار رکھے ۔ حکومت مکمل انضمام کی راہ میںجن رکاوٹوں کا ذکر کررہی ، ان کا حل یہ ہے کہ ایک اور آئینی ترمیم کرکے فاٹا کو خیبر پختونخوا کے ساتھ مدغم کیا جائے لیکن اسے مکمل بندوبستی علاقہ بنانے کی بجائے ملاکنڈ ڈویژن کی طرح پاٹا (Provincially Administered Tribal Areas ) کا ا سٹیٹس دیا جائے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسے ملاکنڈ ڈویژن کی طرح بتدریج صوبے کا حصہ بنایا جاسکے گا اور جب تک اس کے سماجی ، سیاسی اور انتظامی انڈیکیٹر باقی صوبے کے برابر نہیں آتے ، تب تک ٹیکسوں سے بھی اسے استثنیٰ حاصل رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے