خود کو برا بھلا کہئے

آئیے، آج ہم سوچتے ہیں کہ کیاچیز یا چیزیں ہمیں نقصان پہچاتی ہیں۔ ہمیں بے چین کر دیتی ہیں۔ ہمیں چین سے جینے نہیںدیتیں۔ سر دست ان چیزوںکا تعلق طب سے نہیں ہے۔ آپ ایلوپیتھک ڈاکٹروں سے علاج کروائیں۔ آپ ہومیوپیتھک ڈاکٹروں سے علاج کروائیں۔ آپ حکیموں اور طبیبوں سے رجوع کریں۔ یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ہمارے آج کے موضوع کا تعلق آپ کی تن درستی سے نہیں ہے۔ آپ خالص گھی میں کھانا پکائیں۔ آپ نقلی گھی یعنی بناسپتی گھی میں کھانا پکائیں۔ آپ تیل میں کھانا پکائیں۔ آپ پانی میں کھانا پکائیں۔ آپ کے موضوع کا ان باتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آپ ہاتھ چھوڑ کر موٹر سائیکل چلائیں۔ آپ لیٹ کر موٹر سائیکل چلائیں۔آپ ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلائیں۔ آپ موت کے گولے میں میں موٹر سائیکل چلائیں۔ ہمارے موضوع کا آپ کے ان کارناموں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج کے موضوع کا تعلق ہے ہمارے اپنے باطن سے جو کسی کو نظر نہیں آتا۔ ہم خود اپنے باطن کو فراموش کر دیتے ہیں، باطن ہمیں فراموش کر دیتا ہے۔

ہم بے چین رہتے ہیں لیکن ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ ہم بے چین کیوں رہتے ہیں۔ ہمیں نیند نہیں آتی۔ کروٹیں بدلتے رہتےہیں۔ مگر ہم جان نہیں سکتے کہ ہم سکون کی نیند کیوں سو نہیں سکتے۔ ہم کیوں رات رات بھر جاگتے رہتے ہیں۔ خواب آور گولیاں کھانے کے باوجود ہم سو نہیںسکتے۔ ہم اکثر فکر مند رہتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، کام کاج کرتے ہوئے ہم فکر مند رہتے ہیں۔ سفر کرتے ہوئے ہم فکر مند رہتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ ہم فکر مند کیوں رہتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے مگر دیکھنے والوں کو ہم کھوئے کھوئے لگتے ہیں۔ کوئی بات ہم توجہ سے سن نہیں سکتے۔ کوئی کتاب ہم توجہ سے پڑھ نہیں سکتے۔ کوئی عبارت توجہ سے لکھ نہیں سکتے۔ مگر ہم بے توجہ رہنے کی وجہ جان نہیں پاتے۔

ہم کڑھتے رہتے ہیں۔ مگر ہم یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہم کیوں کڑھتے رہتے ہیں۔ حکومتوں کی ناقص کارکردگی پر ہم کڑھتے رہتے ہیں۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ہم کوستے رہتے ہیں جو حکومت بناتے ہیں اور حکومت کا حصہ ہوتے ہیں ایم این ایز اور ایم پی ایزارکان اسمبلی ہوتے ہیں۔ قانون سازی ان کا کام ہے۔ حکومت بنانا اور حکومت چلانا ان کا فرض ہے۔ برے ارکان اسمبلی بری حکومت بناتے ہیں ۔ اچھے ارکان اسمبلی اچھی حکومت بناتے ہیں۔ یہ سوچنا فضول ہے کہ کچھ ارکان اسمبلی برے کیوں ہوتے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ اچھے برے لوگ ہماری اسمبلیوں میں بیٹھنے کےلئے کہاں سے آتے ہیں؟ کیا یہ لوگ امریکہ سے امپورٹ ہو کر آتے ہیں؟

کیا یہ لوگ افریقہ سے امپورٹ ہو کر آتے ہیں؟ کیا یہ لوگ یورپ سے امپورٹ ہو کر آتے ہیں؟ اس سلسلے میں، میں نے بڑی چھان بین کی ہے۔ کسٹم، ایکسائیز اور ٹیکسیشن، انکم ٹیکس اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران سے میں نے پوچھا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اس نسل کے لوگ کہاں پائے جاتے ہیں اور ان کی افزائش کہاں ہوتی ہے۔ یہ لوگ بجلی، پانی اور گیس کے بل نہیں دیتے۔ یہ لوگ انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس نہیں دیتے۔ مزدوروں ، کسانوں اور دہقانوں کو اجرت نہیں دیتے۔ قتل کرتے ہیں توان کے خلاف رپورٹ نہیں لکھی جاتی۔ لوگوں کی یہ انوکھی نسل ہمارے ہاںپائی جاتی ہے اور ہمارے اپنےملک میں پرورش پاتی ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا یہ بات مجھے ستر سالہ سنیاسی باوا نے بتائی ہے۔ ستر سالہ سنیاسی باوا اصل میں ایک سو ستر برس کا تھا۔ دھماکہ خیز بات بتانے کے بعد ستر سالہ سنیاسی باوا الوپ ہو گیا، یہ سچے سنیاسی باوائوں کی نشانی ہے۔ راز کی بات بتانے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔

سترسالہ سنیاسی باوا کے غائب ہو جانے کے بعد میں نے اپنے طور پر یہ جاننے کا بیٹرا اٹھایا کہ لوگوں کی انوکھی نسل قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کیسے اورکس کی اجازت سے جا کر بیٹھتی ہے اور ایوان کو چار چاند لگاتی ہے، میںنے بڑی تحقیق کی، بھاگ دوڑ کی، محنت مزدوری کی، خوب پسینہ بہایا جان تک لڑا دی مگر میںیہ معلوم کرنے میں ناکام رہا کہ ہمارے ملک کے لوگوںکی ایک نایاب نسل ہماری اسمبلیوں میں کیسے براجمان ہوتی ہے!!

ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر میں نےخود کشی کرنے کی ٹھان لی ۔ خود کشی کرنے کے طریقوں کے بارے میں، میں نے ہر زاویئے سے سوچا۔ ڈوب مرنے کو میں نے خارج از امکان جانا۔ ڈوب مرنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ صرف شرم سے ڈوب مرنا اچھا لگتاہے۔ اور پھر چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات مجھے مضحکہ خیز لگتی ہے۔بہت سوچ بچار کے بعد میں نے تیز رفتار ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کرنے کی ٹھان لی۔خود کشی کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ ہم آپس میں ایک دو باتیں کر لیں اورکڑھنا چھوڑ دیں۔ ہم سے مراد ہے آپ اور میں باولا۔ کیا ہم یعنی آپ اور میں نہیں جانتے کہ انوکھے اور نایاب لوگوں کی نسل، بلکہ نسل در نسل کیونکر اسمبلیوں تک پہنچتی ہے۔ قانون سازی کرتی ہے۔ حکومت بناتی ہے۔ حکومت گراتی ہے اور ہم بوڑم باولوںکو کڑھتا ہوا چھوڑ دیتی ہے۔

آئیے سب سےپہلے ہم عقل پر پڑا ہوا پتھر ہٹاتے ہیں۔ بلکہ عقل پر پڑے ہوئے بہت سے پتھر ہٹاتےہیں اور پھر عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔

یہ لیجئے۔ ہم نے عقل پر پڑے ہوئے پتھر ایک ایک کر کے ہٹادئیے ہیں۔ اب عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ کیا ہم واقعی نہیں جانتے کہ ہم پاکستانیوں کی ایک انوکھی اور نایاب نسل ستر برس سے قانون ساز اسمبلیوں میں کیسے پہنچتی ہے؟ کیا آپ واقعی، سچ مچ نہیں جانتے کہ منفرد لوگ کیونکر ایم این ایز اور ایم پی ایز بنتے ہیں اور ہم پرحکومت کرتے ہیں؟ اپنے باطن میں جھانک کر دیکھئے۔ کڑھنا چھوڑ دیجئے۔ آپ ان کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بٹھاتے ہیں۔ ان کو کوسنے اور برا بھلا کہنے کے بجائےخود کو کوسیے اور خود کو برا بھلا کہئے۔ یا پھر عقل پر پڑا ہوا پتھر رہنے دیجئے۔ اور کڑھتے رہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے