مرزا کا قبرستان

مرزا جٹ پنجاب کی لوک رومانوی داستانوں کا آخری ہیرو تھا۔’’مرزا صاحباں‘‘ کے بعدسے کسی نئی رومانوی داستان نے جنم نہیں لیا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ مرزا اور صاحباں کی محبت میں جسمانی خواہشات غالب آگئی تھیں جبکہ اس سے پہلے کی ساری رومانوی داستانوں میں محبت ایک پاکیزہ اور روحانی جذبے کے طور پر موجود تھی۔ رومانوی داستانیں مقامی دانش(Folk wisdom) سے بھری ہوئی ہیں، مرزا جو زمانہ زوال کا ہیرو ہے اور ہماری ہی طرح کا ہے، اسی لئے وہ مرزا یار ہے۔ اسی مرزا یارفیم ’’صاحباں‘‘ کی یہ خواہش بڑی عجیب تھی کہ ’’گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘‘ (یعنی گلیاں سنسان ہوجائیں اور ان میں صرف مرزا یار اکیلا ہی پھرے)۔ عہد حاضر کے مرزا یار کی یہ آمرانہ اور جلالی خواہش ہمارے معاشرے میں بدرجہ اتم نظر آتی ہے۔ آخر ہمارے مرزا یار کو قبرستان پر حکومت کی خواہش کیوں ہے؟ اس خواہش کو پورا کردیں تو کیا مرزا’’یار‘‘خوش ہوجائے گا؟

فرض کرلیں کہ ’’مرزا دیس‘‘ میں سب مخالفتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ کیا سیاستدان، کیا صحافی، کیا محافظ ا ور کیا ناقد، سب ہی ایک صفحے پر آجاتے ہیں، اخبارات صرف قصیدے لکھتے ہیں یا مرزا کے دشمنوں کے لَتّے لیتے ہیں، ٹی وی چینلز پر مرزا کی تعریفیں کرنے کا مقابلہ ہوتا ہے، آئے روز تعریف کے نئے نئے انداز اپنائے جاتے ہیں اور مخالفوں پر تبرّے بازی کے نت نئے ہنر آزمائے جاتے ہیں، خارجہ پالیسی ہو یا دفاعی پالیسی، جو مرزا یار کہتا ہے سارا ’’مرزا دیس‘‘ اس پر صاد کہتا ہے۔ اس دیس کا ہر باسی ہر حکم کو حرز جاں بناتا ہے۔ غرضیکہ مرزا یار کی خواہش کے عین مطابق شہر خموشاں کا سا منظر ہے۔ ہر طرف خاموشی ہے، دیس سائیں سائیں کررہا ہے اور مرزا یار اکیلا ہی سنسان گلیوں میں گھوم رہا ہے۔ کیا ایسا کرنے سے’’مرزا دیس‘‘ کے مسائل حل ہوجائیں گے ،کیا اس دیس کے مسائل کی وجہ سیاسی رہنمائوں کی بھانت بھانت کی بولیاں ہیں؟ کیا اس دیس کو مخالفانہ تحریروں، سخت کالموں اور کاٹ دار اداریوں سے نقصان پہنچتا ہے؟ مرزا یار کا یہی خیال ہے کہ نہ امریکہ سے خطرہ ہے، نہ بھارت سے، نہ دہشت گردوں سے اور نہ ہی معاشی بحران سے، اصل خطرہ بس مخالفانہ آوازوں سے ہے اس لئے انہیں بند ہونا چاہئے۔

مرزا’’یار‘‘ چونکہ دورِ زوال کا ہیرو ہے اس لئے تنقید سے گھبراتا ہے حالانکہ پنجاب کے اصلی ہیرو رائے احمد خان کھرل ہوں یا رومانوی کردار ہیر رانجھا یا سوہنی مہینوال سارے اپنی روایات کے باغی تھے اور فکری و عملی آزادی کے لئے جدوجہد کرتے رہے، معاشرہ مرزا کی طرح پابندیاں لگاتا تھا اور یہ ہیرو ان کو توڑتے تھے۔ پنجاب کی اکثریت تاریخی طور پر امن پسند ر ہی ہے مگر اس کی پسند ہمیشہ سے باغی رہے ہیں، پنجاب کے ہیرو حملہ آور فاتح نہیں مفتوح رہے ہیں، ظالم نہیں بلکہ مظلوم رہے ہیں۔ یہ دھرتی آمروں کو برداشت کرتی رہی ہے مگر باغیوں سے محبت کرتی رہی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ میرا’’مرزا یار‘‘ ایک بار پھر سے سکوت مرگ چاہتا ہے۔ معاشرے کا سرنڈر چاہتا ہے کیونکہ مرزا یار کی خواہشات کی تکمیل کے راستے میں مری ہوئی کمزور آوازیں بھی بھاری پڑجاتی ہیں۔ مرزا یار کو ’’اقتدار صاحباں‘‘ سے محبت ہے اور یہ محبت صرف روحانی نہیں اس میں جسمانی خواہش بھی شامل ہے۔ اس لئے باغی معاشرہ، یہ ہیریں، یہ رانجھے، یہ سوہنیاں، یہ مہینوال، مرزا کو سمجھاتے ہیں کہ سکوتِ مرگ سے معاشروں کو قبرستان بنانے سے اور مخالفانہ آوازوں کو خاموش کرانے سے ترقی نہیں زوال آتا ہے، سوائے مرزا یار کے کون قبرستان پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے؟ جس معاشرے میں تنقید نہ ہو وہ قبرستان ہوتا ہے، اس پر حکومت مُردوں پر حکومت کے مترادف ہوتی ہے۔

اے مرزا، تم’’اقتدار صاحباں‘‘ کے عشق میں تاریخ کا سبق ہی بھول جاتے ہو۔ دنیا کا ہر ملک جہاں ترقی ہوئی ہے وہاں آزادی اظہار کی اجازت رہی ہے، تخلیق وہاں جنم ہی نہیں لیتی جہاں آزادی نہ ہو۔ مرزا کے پسندیدہ قبرستانی معاشرے میں نقل تو ہوسکتی ہے عقل سے کام لے کر ایجادات نہیں ہوسکتیں۔ مرزا یار تو سمجھتا ہوگا کہ چرچل پاگل تھا جو اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران لندن پر بمباری کے وقت رپورٹرزسے پوچھا کیا برطانیہ میں عدالتیں آزادانہ فیصلے کررہی ہیں؟ رپورٹرز نے پوچھا جنگ، بمباری اور عدالتوں کی آزادی کا آپس میں کیا تعلق؟ تو چرچل نے جواب دیا جس ملک کی عدالتیں آزاد ہوں وہ جنگیں ہارا نہیں کرتا۔ مرزا کو یہ اصول کون سمجھائے کہ آزاد سوچ، آزاد فکر، آزاد تحریر و تقریر اور آزاد سیاست ملکوں کو محفوظ بناتی ہے اور مرزا کا قبرستانی معاشرہ صرف ایک مخالفانہ ٹھوکر ہی سے گر جاتا ہے۔
’’اقتدار صاحباں‘‘ کے عشق میں مبتلا کئی سیاسی مرزا میدان میں آگئے ہیں، ڈر یہ ہے کہ دیس کو قبرستان بنا کر ان مرزائوں کو بھی کچھ نہ ملے اور میرا’’دی مرزا یار‘‘ سب کچھ لے جائے کہ ’’اقتدار صاحباں‘‘ کو ورغلانے کے طریقے سب سے بہتر اسے ہی آتے ہیں پھر ایسے نہ ہو کہ یہ سارے سیاسی مرزا کہتے پھریں کہ ان سے دھوکہ ہوا اور اصلی مرزا صاحباں قصے کی طرح کہےکہ اگر اس دھوکے کا پتہ ہوتا تو یوں اعتبار نہ کرتا بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی ساتھ لاتا اور سیاسی مرزا ا کیلا ہی نہ لڑتا رہ جاتا اور بالآخر کٹ مرتا۔

میرا’’مرزا یار‘‘ کئی بار پہلے بھی قبرستانی معاشرہ بنانے کا تجربہ کر چکا ہے، اصل میں دنیا بھر میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے دوسرے پر الزام لگایا جاتا ہے، مخالفانہ آوازیں خاموش کرانے سے ناکامیاں چھپ تو جاتی ہیں مگر یہ تباہی لے آتی ہیں لیکن اگر ناکامیوں کا علم ہوجائے تو انہیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے جو تنقید برداشت نہیں کرتے وہ بالآخر، پہلے تنقید سے بالاتر ہوتے ہیں اور پھر تاریخ میں ہمیشہ کے لئے تنقید کی زد میں آکر ردی کی ٹوکری میں پناہ پاتے ہیں۔ مرزا یار کی خواہش سکوتِ مرگ کی ہے جب ایک بار ایسا سکوت طاری ہوجائے تو پھر معاشرے دوبارہ سے زندہ نہیں ہوتے۔ معاشرے میں مخالفتیں ختم کرانے سے مصنوعی قبرستان پیدا تو ہوجاتا ہے مگر یہ قبرستان زندہ انسانوں کو مردہ بنادیتا ہے،پھر نہ تخلیق ہوتی ہے نہ ملک سے وفاداری ہوتی ہے اور نہ ہی بہادری کا ہنر رہتا ہے۔ قبرستان کے مُردوں سے توقع ہی کیا؟ مرزا’’یار‘‘ اور کچھ نہیں تو مرزا صاحباں ہی پڑھ لو……ہیر رانجھا ہی دیکھ لو، سماج کو سمجھنا ہے تو اس خطے کی رومانوی کہانیاں پڑھ لو، معاشرے کی نفسیات سمجھ لو، بہادری اور بغاوت کی اہمیت بھی دیکھ لو…….

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے