کس نے دھوکہ دیا

پچھلے دنوں کچھ عجیب سی کیفیت ہوئی۔ احمد مشتاق کے بھولے بھٹکے شعر، آدھے پورے مصرعے، حتی کہ پوری پوری غزلیں حافظے میں امڈتی رہیں۔ احمد مشتاق کا شعر یاد آنا ایسے ہی ہے جیسے دور دیس جا کر آباد ہونے والا مضافاتی قصبے میں اپنا آبائی مکان دیکھنے جائے، وہاں کھڑکیاں کواڑ کھلے ملیں، آشنا چہرے نظر نہ آئیں، اور جو زندہ ہوں، ان کی پہچان مشکل ہو۔ نسیم تیر سی سینے کے پار گزرے ہے… احمد مشتاق کی شاعری وقت کی نیرنگی کا افسانہ ہے۔ زیاں کا ایک احساس جو مسلسل ہم قدم رہے۔ احمد مشتاق کی یاد کا یوں عود کر آنا خالص انفرادی کیفیت بھی ہو سکتی ہے لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر کچھ ایسے دنوں سے گزر رہے ہیں جن میں احمد مشتاق کے شعر جیسی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یہ جاننا آسان نہیں کہ مشکل وقت آ چکا ہے یا آتے آتے کہیں ٹھہر گیا ہے۔ آزمائش کی گھڑی گزرنے کا جشن منانا ہے یا خود کو ایک اور امتحان کے لئے تیار کرنا ہے۔ بہت رک رک کے چلتی ہے ہوا خالی مکانوں میں…

ہم کاغذ پر چھپے اخبار اور کتاب کی نسل تھے۔ اب خبر ٹی وی کی اسکرین پر جھلک دیتی ہے۔ ہر خبر ایک دھماکے کے ساتھ آنکھوں پر اترتی ہے، کہیں پروفیسر حسن ظفر عارف کا چہرہ دکھائی دیتا ہے، کبھی تربت کے شہید جوانوں کی گاڑی نظر آتی ہے… وہ دیکھا ہے کہ اب دیکھا نہ جائے۔ خبر کی اذیت جھیلنے کے باوجود صبح آنکھ کھلتی ہے تو اخبار اٹھا کر پڑھنے کا تجربہ اپنی ایک کیفیت رکھتا ہے۔ اخبار کے صفحے پر خبروں کی ترتیب میں اپنی ایک خبر ہوتی ہے۔ اگلے روز چار لفظوں پر مشتمل شہ سرخی پہ آنکھ جم گئی۔ ’امریکہ نے دھوکا دیا‘۔ چشم تصور نے دیکھا کہ گزشتہ شب اس خبر کا مسودہ ایڈیٹر کے سامنے آیا تو اس نے دل ہی دل میں کہا ہو گا، بہت اہم خبر ہے۔ میں ایسی بولتی ہوئی سرخی جماؤں گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دانت کھٹے کر دوں گا۔ وطن سے محبت کے جذبے میں شرابور مدیر کے دماغ نے ایک جھٹکا سا کھایا اور کھٹ سے سرخی تیار ہوگئی۔ ’امریکہ نے دھوکا دیا‘۔ کیسا مختصر اور سچا بیان ہے۔ اس بیان کے پیچھے لیکن ایک تاریخ ہے۔ کیوں کہ یہ دھوکا پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ دھوکا دہی کی یہ واردات تواتر سے ہمارے ساتھ ہوئی ہے۔ اور ہمیں دھوکا صرف امریکہ نے نہیں دیا، ہمیں دھوکا دینے والوں کی فہرست طویل اور نامکمل ہے نیز یہ کہ خود ہم نے اپنے آپ کو مسلسل دھوکا دینے کا اہتمام کیے رکھا۔ اس دھوکا دہی کی کچھ تفصیل نامناسب نہ ہو گی۔

جن دنوں ہم آزاد ہوئے، دنیا میں سرد جنگ کی صف بندی ہو رہی تھی۔ یہ بحث بڑی حد تک لاحاصل ہے کہ ہمیں ماسکو سے دعوت نامہ مل گیا تھا یا محض خیال آرائی ہوئی تھی؟ ہمیں روس سے بہتر مدد مل سکتی تھی یا امریکیوں کے پاس ہمیں دینے کو زیادہ ڈالر تھے؟ ہمیں ہاتھ برابر فاصلے پر موجود روس سے دوستی کرنا چاہئے تھی یا بحیرہ اوقیانوس کے پار امریکیوں سے پینگیں بڑھانے میں فائدہ تھا؟ نکتے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے جغرافیائی محل وقوع کو ایک اثاثے میں تبدیلی کرنا چاہتے تھے۔ کسی خطے کے بیچوں بیچ موجود ملک کا محل وقوع دو طرح سے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ راہداری بنا کر تجارتی فائدہ اٹھایا جائے یا گھات لگا کر کسی کا راستہ روکا جائے۔ ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اور گھات لگانے کا خرچہ پانی امریکہ سے وصول کرنے کی ٹھانی۔ اس انتخاب کی ایک وجہ تھی۔ امریکیوں نے روس کے اشتراکی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے مذہب کا نعرہ اختیار کیا تھا۔ یہ نعرہ ہمیں بھی طرح طرح سے خوش آتا تھا۔

تو طے یہ پایا کہ پاکستانی قوم نے صرف غیر ملکی انگریز حکمرانوں سے آزادی نہیں لی بلکہ ہندوئوں سے بھی آزادی حاصل کی ہے کیونکہ ہم ہندو کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے تھے۔ یہ سوال ہم نے سہولت کے ساتھ نظر انداز کر دئیے کہ پاکستان میں جو نمک برابر ہندو باقی رہ گئے ہیں ان کے ساتھ ایک ہی ملک میں مل کر رہنے کا چلن کیا ہو گا؟ خلافت عثمانیہ کی پکار پر جنگ بلقان میں چندہ دینے والے جن کروڑوں مسلمانوں کو ہم ہندوستان میں چھوڑ آئے ہیں ان کے ساتھ ہمارا رشتہ کیا ہو گا؟ روسی لامذہب ہیں تو امریکہ کی زلف تراشیدہ سے تعلق کا شرعی جواز کیا ہو گا؟ چین کے ساتھ دوستی کا ہمیں شوق تھا تو چین بھی تو اشتراکی ملک تھا اور ہے۔ پچاس کی دہائی میں ہم نے اپنے قومی بیانیے کی بساط کچھ اس طرح بچھائی کہ روس چین اور امریکہ کے مہرے جہاں جی چاہا، رکھ دئیے۔ مدعا یہ تھا کہ ہمیں اپنے ملک میں جمہوریت نہیں چاہئے، ہم بنگالی بولنے والے ہم وطنوں کو اقتدار میں شریک نہیں کریں گے۔ ہم اس ملک میں ایسا بندوبست نہیں چلنے دیں گے جس میں وفاق کی اکائیوں کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ اقتدار پر اجارے کا یہ کھیل اسی صورت میں کھیلا جا سکتا تھا کہ شہری کی آواز کو کچل دیا جائے۔ ظہیر کاشمیری اور شہید اللہ قیصر کی صحافت سے ہمیں غداری کی بو آتی تھی۔ ہم دیہات سدھار اور قومی تعمیر نو جیسے اداروں کی مدد سے قومی تشخص گھڑنا چاہتے تھے، ہم خود کو دھوکا دے رہے تھے۔

استاد مکرم سے پوچھا کہ ہم نے آزادی کا مطالبہ کیوں کیا؟ فرمایا کہ بیٹا کہ جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ کوئی ناانصافی کرتے تھے تو انگریز ہمیں انصاف دیتا تھا لیکن جب ہم انگریز کی کسی ناانصافی پر انگلی اٹھاتے تھے تو انگریز ہماری انگلی کاٹ دیتا تھا۔ گویا معاشرے اور ریاست میں دوئی پائی جاتی تھی۔ انصاف ریاست کی مرضی سے طے پاتا تھا۔ ہم چھوٹی چھوٹی ناانصافیوں پر احتجاج کر سکتے تھے لیکن اس بنیادی ناانصافی پر آواز اٹھانے کی ہمیں اجازت نہیں تھی کہ ہمارے ٹیکس سے چلنے والی حکومت میں ہماری رائے مقدم کیوں نہیں۔ قانون سازی کے محرکات کا فیصلہ ہم کیوں نہیں کرتے؟ انگریز جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو ہمیں کیوں نہیں پوچھتا۔ کسی معاشرے کا بہترین مفاد وہاں بسنے والوں کے مفاد سے الگ نہیں ہو سکتا چنانچہ ہم نے آزادی مانگی تاکہ ریاست اور معاشرے کو ایک کیا جا سکے۔ لگان محصول، جنگ اور امن، دوستی اور دشمنی کے فیصلے ہم کر سکیں۔

میں نے پوچھا کہ استاد، آپ نے ان سات دہائیوں میں سماج اور ریاست کو ایک ہوتے دیکھ لیا؟ فرمایا، نہیں۔ پوچھا، کیوں؟ فرمایا، ریاست اور شہری کے مفاد کو ایک کرنے والا بندوبست جمہوریت مانگتا ہے۔ جمہوریت میں شہریوں کا منتخب نمائندہ بناتا ہے اور قانون پر عمل درآمد ریاست کرواتی ہے۔ آخری فیصلہ شہریوں کا ہوتا ہے۔ ہم نے ’خاص ترکیب‘ والی قوم بنانے کے شوق میں شہری کی آواز ختم کر دی تاکہ ریاست کی بالادستی قائم رہ سکے۔ انگریز کے ساتھ جھگڑا اس لئے تو نہیں تھا کہ وہ چرچ جاتا اور انگریزی بولتا تھا۔ عطااللہ شاہ بخاری، ابوالکلام آزاد، لالہ لاجپت رائے اور چتر رنجن داس نے جیلیں کاٹیں تاکہ ہم اپنی قوم کے بہترین تجارتی مفاد کا فیصلہ خود کر سکیں۔

ہمارے بچوں کو ایسی جنگوں میں جھونکا نہ جائے جن کا ہم سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہم اپنے لوگوں کو تعلیم دے سکیں۔ ہم بغیر کسی رکاوٹ کے علم، ترقی اور خوش حالی میں شریک ہو سکیں۔ یہ خواب یاد دلانے پر باچا خان کو جیل میں ڈالا جاتا تھا۔ فضل الحق کی حکومت توڑی جاتی تھی۔ مجیب الرحمن کی حکومت بننے نہیں دی جاتی تھی، ریپبلکن پارٹی گھڑی جاتی تھی۔ شوکت اسلام کے جلوس کو فنڈ دیا جاتا تھا۔ اپنی مرضی کے اخبار کو اشتہار دیا جاتا تھا، اس کھیل میں امریکی ہمارے ساتھ شریک تھے۔ کیوں کہ انگریز نے ہم پر جو بالادستی قائم کر رکھی تھی، وہ ہم نے اپنے ملک کے لوگوں پر کاٹھی ڈالنے کے شوق میں امریکہ کو سونپ دی۔ امریکہ نے ہمیں دھوکا دیا کیوں کہ ہم اپنی قوم کو دھوکا دینا چاہتے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے