حکومت قادری کی بات مان کیوں نہیں لیتی

مجھے سمجھ نہیں آتی مسلم لیگ (ن) کی قیادت ضد پر کیوں اتری ہوئی ہے۔ تین شریف آدمی انہیں کہہ رہے ہیں کہ تم حکومت چھوڑ دو اور یہ کہتی ہے کہ الیکشن میں چند مہینے رہ گئے ہیں، ذرا بیس کروڑ عوام کی رائے بھی لے لیں۔ یہ تو نہ ماننے والی بات ہوئی نا، کہاں یہ تین معزز لوگ اور کہاں اَن پڑھ ماجھے ساجھے عوام! اور ان تین معززین میں سے ایک معزز تو خاص طور پر کینیڈا سے آیا ہے۔ وہ ہمارا مہمان ہے، انسان مہمان ہی کی بات مان لیتا ہے مگر دوسری طرف وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔ میں جانتا ہوں یہ تینوں معززین ایک دوسرے کو معزز نہیں مانتے اور ایک دوسرے کے بارے میں ایسی رائے رکھتے ہیں کہ کینیڈا سے آئے ہوئے مہمان کے پہلو میں باقی دو ایک ساتھ نہیں، الگ الگ سیشن میں بیٹھیں گے۔

خود یہ مہمان بھی ان دونوں کے بارے میں ایسی رائے رکھتا ہے کہ اب میں کیا بیان کروں۔ میں اس مہمان کا نام بھی لیتا ہوں، ذرا وضو کر لوں کہ یہ بہت مقدس ہستی ہے۔ جی تو ان کا نامِ نامی اسم گرامی علامہ طاہر القادری ہے۔ علامہ صاحب ایک روحانی شخصیت ہیں چنانچہ یہ خود آتے نہیں، کسی غیبی اشارے پر پاکستان تشریف لاتے ہیں اور پھر واپس بھی چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کینیڈین حکومت کو حلفیہ بیان دے رکھا ہے کہ کینیڈا کے شہری کے طور پر انہیں ہر حال میں کینیڈا کا مفاد عزیز ہو گا اور اگر انہیں کبھی اپنے سابقہ وطن پاکستان کے خلاف ہتھیار بھی اٹھانا پڑے تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

میں طاہر القادری صاحب کی بات ذرا تفصیل سے بیان کروں گا، باقی دو معزز لوگوں کا بھی ذکر کر لوں جو جنہوں نے کل لاہور کی مال روڈ پر بیس ہزار کرسیاں بچھائے کروڑوں عوام کے مجمعے سے خطاب کیا۔ ان میں سے ایک اپنے عمران خان ہیں جنہوں نے گالی گلوچ، مخالفین پر جھوٹے اور گھٹیا الزامات اور اداروں کو بلیک میلنگ کے حوالے سے ایک ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ اب کچھ دنوں سے یہ بھی ایک روحانی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں کہ عمر چیمہ کے مطابق انہوں نے حال ہی میں ایک روحانی خاتون سے شادی رچائی ہے اور عمران خان کے بقول صرف شادی کا پیغام بھیجا ہے۔ خاتون کو بشارت ہوئی کہ عمران خان سے شادی کر لو اور ان کے شوہر کو بھی کچھ اسی قسم کے اشارے ملے چنانچہ انہوں نے اپنے پانچ بچوں کی ماں کو طلاق دی اور اب

[pullquote]؎ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ [/pullquote]

باقی جہاں تک حضرتِ آصف زرداری کا تعلق ہے سچی بات یہ ہے کہ عوام نے ان کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ ان کا نام کرپشن کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے جبکہ وہ حال ہی میں ’’صادق اور امین‘‘ ڈکلیئر قرار دیئے گئے ہیں۔ ان تین کے ساتھ بہت سے وغیرہ وغیرہ بھی ہیں جیسے شیخ رشید احمد وغیرہ۔ قادری صاحب مسلم لیگ (ن) کی وفاق اور پنجاب کی حکومت کے خاتمے کا خواب دیکھنے کے لئے پاکستان میں ہیں، جو پورا نہیں ہو گاا اور انہیں ایک بار پھر بے نیل و مرام واپس اپنے محبوب وطن کینیڈا جانا پڑے گا جبکہ صرف پنجاب کی حکومت کے خاتمے کا خواب دیکھنے والے بھی آنکھیں بند کئے اس خواب کی تعبیر کے منتظر ہیں۔ اللہ کو جان دینی ہے، یہ بات بہرحال ماننا پڑے گی کہ یہ معزز لوگ از راہِ کرم حکومت کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ خود ہی مستعفی ہو جائے یعنی خواہ مخواہ ہاتھا پائی کا کیا فائدہ؟

لیکن حکومت ہے کہ ان کی اتنی معمولی سی خواہش کی تکمیل کرنے سے انکاری ہے، حالانکہ ہماری تاریخ میں محبوب کے چہرے کے تل پر سے سمرقند و بخارا قربان کرنے والے شاعر بھی گزرے ہیں۔ امیر تیمور نے اس شاعر سے صحیح کہا تھا کہ تم لوگ اپنی اس دریا دلی کی وجہ ہی سے اس حال کو پہنچے ہو!
میں نے عرض کیا تھا کہ طاہر القادری صاحب کا ذکر قدرے تفصیل سے کروں گا کیونکہ اس وقت وہ عمران خان اور زرداری کے قائد کی حیثیت سے ’’تحریک‘‘ کے مدار المہام ہیں، وہ میں ابھی کرتا ہوں مگر اس سے پہلے ان لوگوں سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ تم الیکشن سے پہلے اپنی ہار کیوں مان گئے ہو، حوصلہ رکھو اگر تمہیں اپنی کامیابی کا یقین ہے، الیکشن میں صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں، تم کیوں چاہتے ہو کہ بیس کروڑ عوام کی رائے لینے سے پہلے حکومت کو چلتا کیا جائے تاکہ اس کے بعد مرزا یار گلیوں میں دندناتا پھرے۔

انہیں دراصل یہ خوف لاحق ہے کہ موجودہ حکومت نے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا ہے، ملک میں امن و امان قائم کیا ہے، عظیم الشان ترقیاتی منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچائے ہیں اور اوپر سے سی پیک ہے جسے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا جاتا ہے، چنانچہ انہیں شبہ نہیں، الیکشن میں اپنی شکست کا یقین ہے اور یہ بات ’’وارا‘‘ ہی نہیں کھاتی نہ ان کو نہ ان کے سرپرستوں کو کہ ایک بار پھر یہ جماعت برسرِ اقتدار آئے جو کٹھ پتلی نہ بنی ہے اور نہ بنے گی۔ چنانچہ سیاست میں مذہب کا تڑکا بھی لگا دیا گیا ہے تاکہ عوام کے جذبات کو بھڑکایا جا سکے مگر یقین رکھیں اب راہ چلتا ایک عام آدمی بھی سب کچھ سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے یہ ہنگامہ کیوں برپا کیا جا رہا ہے اور اسے یہ بھی علم ہے کہ اسی طرح کے ڈرامے خوشحالی کے سفر میں ایک ایسا سپیڈ بریکر ثابت ہوں گے جس سے خاکم بدہن، حکومت کا نہیں، پاکستان کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے!

علامہ طاہر القادری کا ذکر ایک بار پھر ادھورا رہنے لگا تھا مگر مجھ سے یہ گستاخی ممکن ہی نہیں تھی کیونکہ علامہ صاحب کے بقول وہ 21سال روحانی طور پر امام اعظم ابوحنیفہؒ کے شاگرد رہے ہیں۔ حضور نبی اکرمﷺ نے انہیں منہاج القرآن کے قیام کا حکم دیا تھا۔ حضورؐ پاکستان تشریف لائے تو بہت آزردگی کی وجہ سے واپس مدینہ شریف جا رہے تھے مگر طاہر القادری نے کہا حضورؐ آپ ایسا نہ کریں جس پر حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا اچھا طاہر اگر تم کہتے ہو تو نہیں جاتا مگر پاکستان میں میرے قیام و طعام کا انتظام تم نے کرنا ہو گا اور اس کے علاوہ لاہور مدینہ کا پی آئی اے کا ٹکٹ بھی تمہارے ذمہ ہو گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ طاہر القادری جب تیس پینتیس سال کے تھے تو عزرائیلؑ ان کی روح قبض کرنے آگئے، جس پر حضورؐ نے عزرائیل ؑ کو تین بار اپنی اس درخواست کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجا کہ طاہر کی عمر میں اضافہ کیا جائے، چوتھی بار حضورؐ کی یہ درخواست منظور ہو گئی، تو حضورؐ نے عزرائیل ؑ سے کہا کہ طاہر کی موت کا پروانہ ابھی میرے سامنے پھاڑ دو!

میں نے یہ سب توہین آمیز خرافات نقل کفر، کفر نہ باشد کے تحت یہاں نقل کی ہیں اور ہر جملہ کوٹ کرتے وقت دل میں استغفر اللہ کا ورد کیا۔ یہ سب کچھ ان کی ویڈیو کیسٹس میں خود طاہر القادری کی زبانی موجود ہے۔ میں علماء سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ سب کچھ سراسر توہین مذہب نہیں اور عوام سے سوال کرتا ہوں کہ کیا وہ اس طرح کی گفتگو کرنے والے کے کاندھے سے کاندھا ملائے عمران خان اور آصف علی زرداری کی تحریک میں اس کا ساتھ دیں گے؟ جو شخص حضورؐ کے حوالے سے اس طرح کی باتیں کر سکتا ہو، اس کی اور اس کے ہمنوائوں کی کسی بات پر یقین کیا جا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ ہاں اگر کوئی آنکھوں دیکھی مکھی کھانا چاہے تو شوق سے کھائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے