مجسمے نہیں بت خطرناک ہوتے ہیں

مجسمے نہیں بت خطرناک ہوتے ہیںہمارے ہاں تو رواج نہیں لیکن دنیا کے بہت سے ممالک میں مجسموں کی روایت ہے۔ یہ سنگی اور دھاتی مجسمے تاریخ کو محفوظ اور نسل در نسل منتقل اور انسپائر کرنے کا بہت ہی عمدہ ذریعہ ہیں۔ عموماً ان مجسموں کا تعلق قوموں کے وار ہیروز کے ساتھ ہوتا ہے۔ سیاحت کے شوقین انہیں دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ہیروز کا تعارف پڑھ کر جانکاری حاصل کرتے ہیں لیکن لوگوں کی بھاری اکثریت ان ’’مجسموں کی زبان‘‘ سے واقف نہیں ہوتی جسے جانے بغیر یہ پرلطف ایکسر سائز ادھوری رہ جاتی ہے۔

جب کبھی کسی گھڑ سوار کا کوئی ایسا مجسمہ دیکھیں جس میں گھوڑے نے اگلی دو ٹانگیں ہوا میں اٹھا رکھی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ شہسوار مردانہ وار لڑتا ہوا میدان جنگ میں مارا گیا تھا اور اگر گھوڑے نے صرف ایک اگلی ٹانگ ہوا میں اٹھا رکھی ہو تو اس کا مطلب ہے یہ سوار جنگ میں شدید زخمی ہونے کے بعد مارا گیا تھا اور اگر گھوڑے کی چاروں ٹانگیں زمین پر ہوں تو سمجھیں اس جنگجو کو طبعی موت نصیب ہوئی تھی۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے ہاں سیاستدانوں کے مجسموں کا رواج ہوتا یا ہوجائے تو کس کس کو کیسی کیسی حالت میں مجسم کیا جائے گا۔ بجائے اس کے کہ میں نام لکھوں، صرف حالت عرض کرتا ہوں، اندازہ آپ خود لگالیں کہ مجسمہ کس کا ہوگا مثلاًوہ کون ہوگا جسے ہوا کے گھوڑے پر سوار دکھایا جائے گا اور وہ کون ہوگا جس کے دونوں ہاتھوں پر چیک بکس کا انبار بلکہ کوہ گراں موجود ہوگا۔

ایک شخصیت ایسی بھی ہے جس کی زبان اس کے قد سے کئی گنا لمبی ہوگی اور چند ایسے بھی ہوں گے جن کے جسموں پر صرف چڈیاں اور ہاتھوں میں مالش کا سامنا ہوگا۔کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کی زبانوں پر الائو دہک رہے ہوں گے اور ایک کی زبان سے مسلسل زہر ٹپک رہا ہوگا۔ ایک صاحب کے ہاتھ میں بہت بڑے سائز کے بلیڈ کا آدھا حصہ ہوگا کیونکہ پرانے جیب کترے آدھے بلیڈ کی مدد سے پورا کام دکھایا کرتے تھے۔ ایک ننھا مناسا مدبر پرائز بونڈز کی پہاڑی پر بیٹھا ہوگا۔ بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کے ہاتھوں میں تسبیح ہو گی جن کے دانے بیش قیمت موتیوں یا ہیرے جواہرات پر مشتمل ہوں گے اور ان کے سامنے تہتر کا آئین پڑا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کوئی دل جلا مجسمہ ساز اس کتاب پر مردار خور گدھ کو بھی بٹھا دے جس کی چونچ میں آئین کا ایک آدھ ورق بھی ہو۔ایک بے چہرہ مجسمہ بھی ہوسکتا ہے جس کی گردن میں بہت بڑی تختی پر جلی حروف میں”For Sale”لکھا ہو۔ یہ ایک مجسمہ دراصل ہزاروں پر بالکل اس طرح بھاری ہوگا جیسے ’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘۔

پتھر نہیں پتیل بلکہ سونے کا ایک ایسا مجسمہ بھی ہوسکتا ہے جس کا دھڑ تو شیر کا لیکن چہرہ انسانی ہوگا لیکن یاد رہے اس شیر کے نہ پنجے ہوں گے نہ جبڑے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ جبڑے تو ہوں گے، دانت نہیں ہوں گے۔ویسے تو کسی صحت مند گدھے کا مجسمہ بھی ہوسکتا ہے جس کا چہرہ انسانی ہو لیکن اس کے لئے کسی ورلڈ کلاس مجسمہ ساز کی خدمات درکار ہوں گی کیونکہ اس گدھے کی دولتیاں جھاڑتے دکھانا ضروری ہے لیکن یہ قطعاً ضروری نہیں کہ اس تاریخی گدھے کی دولتی کسی بم سے ٹکراتی دکھائی جائے۔یہاں اک اور خیال در آیا کہ اہل مشرق و مغرب میں زمین و آسمان سے بھی زیادہ فرق اور فاصلہ ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد مثلاً گدھا ہی دیکھ لیں۔ ہمارے ہاں یہ بے وقوفی کی علامت ہے جبکہ اہل مغرب اسے محنت کا سمبل سمجھتے ہیں۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اسے بے وقوف ہی اس لئے سمجھتے ہو کہ کیونکہ وہ محنتی ہوتا ہے۔

جس کلچر میں محنتی بھوکے مرتے ہوں اور کام چور حرام خور ہوں وہاں محنت حماقت نہیں تو اور کیا کہلائے گی لیکن اُلو والی بات مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اُلواہل مغرب کے لئے دانش اور ہمارے لئے حماقت کی علامت کیوں ہے؟ ہم تو اتنے’’اینٹی اُلو‘‘ ہیں کہ انہیں سیاستدانوں جیسی مخلوق کے ساتھ بریکٹ کرنے سے باز نہیں آتے۔ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہےانجام گلستاں کیا ہوگایہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے مجسمے بنانے کی بجائے صرف ایک بہت بڑا مجسمہ بنایا جائے جو اُلو کا ہو جس میں اُلو کو حلف اٹھاتے دکھایا جائے اور یہ پارلیمنٹ کے سا منے ایستادہ ہو جس پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ بیک گرائونڈ میں یہ ملی نغمہ سونے پر سہاگہ ہوگا۔’’زندہ ہے الو زندہ ہے‘‘’’دیکھو دیکھو کون آیا؟ الو آیا الو آیا‘‘۔الو دانش کا اور ذشیر دلیری کا سمبل ہے۔اور یاد رہے مجسمے نہیں، بت خطرناک ہوتے ہیں اور حرام بھی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے