ایک جلسے کی درد ناک کہانی

پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتیں علامہ طاہر القادری کی قیادت میں لاہور کے مال روڈ پر جمع ہوئیں، مقصد جلسہ کرنا تھا مگر صرف ’’جلسی‘‘ ہوسکی۔ اسٹیج پر اپوزیشن جماعتوں کے تین سو ’’قائدین‘‘ تشریف فرما تھے، اگر یہ اپنے پچاس پچاس پیروکار بھی ساتھ لے آتے تو سامعین کی تعداد پندرہ ہزار ہوسکتی تھی، اگر اور کچھ نہیں تو اسٹیج پر بیٹھے رہنے کی بجائے سامعین کے ساتھ خالی کرسیوں پر ہی آکر بیٹھ جاتے توبھی جلسے کی رونق میں ان کا حصہ پڑ جاتا۔ تاہم جلسہ ہوا اور بہت گرما گرم تقریریں ہوئیں، نوازشریف اور شہباز شریف کے کپڑے نوچنے اور ان کے گھروں پر حملوں جیسی باتیں بھی ہوئیں، یہاں ان رہنمائوں کے خلاف ’’عمرانی زبان‘‘ بھی استعمال کی گئی۔ پارلیمنٹ پر اتنی بار لعنت بھیجی گئی کہ لگتا تھا کہ یہ جلسہ صرف اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے ہی کے لئے منعقد کیا گیا تھا، جس نے انہیں حکومت نہیں بنانے دی۔ شیخ رشید نے تو اس پارلیمنٹ سے استعفیٰ بھی دے دیا جس کی بے پناہ پذیرائی عمران خان اور طاہر القادری نے کی۔ عمران خان نے تو کہا کہ اپنی پارٹی سے مشاورت کے بعد وہ بھی استعفوں پر غور کریں گے، طاہر القادری نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا کیونکہ پارلیمنٹ میں ان کی ایک سیٹ بھی نہیں ہے۔

سچی بات پوچھیں تو اس جلسے اور اس کے مقررین کی حالت پر مجھے بہت ترس آیا۔ یہ لوگ حکومت سے استعفیٰ لینے آئے تھے اور بقول مریم نواز خود استعفوں پر اتر آئے کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ الیکشن سر پر کھڑے ہیں اور یہ عوام کی رائے کا انتظار کرنے کے روادار بھی نہیں ہیں۔ یہ سراسر خود پر بے اعتمادی کا اظہار ہے، اگر انہیں یقین ہو کہ انتخابات میں وہ موجودہ حکومت کو اٹھا کرباہر پھینک دیں گے تو وہ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے کی بجائے الیکشن کی تیار ی کرتے، مگر پاکستانی عوام کی طرح انہیں بھی علم ہے کہ پنجاب میں میاں نوازشریف کی قیادت میں شہباز شریف نے جو ناقابل یقین حد تک ترقیاتی کام کئے ہیں اور وفاق میں جس طرح میگاپروجیکٹس سے عوام کے چند بڑے بڑے مسائل کے حل کے لئے ان تھک کوششیں کی ہیں، اس کے نتیجے میں اگلی حکومت بھی انہی کی بنتی نظر آتی ہے۔ یہ بات ’’دی اکانومسٹ‘‘ بھی اپنے تجزیئے میں کر چکا ہے اور یہ نوشتہ دیوار بھی ہے۔

تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عوام کے تمام مسائل حل کردیئے ہیں، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگیا ہے اور ہر طرف امن و امان ہے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حالات بالکل نہیں بدلے بلکہ ایک بہت نمایاں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے، عوام اس حکومت سے مجموعی طور پر خوش دکھائی دیتے ہیں، جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ 2013ء کے جنرل الیکشن کے بعد جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں، بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں، کنٹونمٹ کے انتخابات ہوئے ہیں، آزاد کشمیر کے انتخابات ہوئے ہیں، ان سب کے نتائج یہی ثابت کرتے ہیں کہ عوام حکومت کی مجموعی کارکردگی سے مطمئن ہیں جس کا اظہار وہ آنے والے انتخابا ت میں کرسکتے ہیں، جس کا ہم سب کو انتظار کرنا چاہئے، مگر اپوزیشن جس میں صرف ایک بڑی جماعت تحریک انصاف ہے، انتظار کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ عمران خان کا تو کہنا ہے کہ انہیں سڑکوں پر رہنے کا بہت تجربہ حاصل ہو چکا ہے۔ گویا آئندہ بھی ان کا ارادہ سڑکوں ہی پر گزارا کرنے کا ہے۔

اپوزیشن کے متذکرہ جلسے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اسٹیج پر بیٹھے قائد ین ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں چنانچہ ماضی میں ایک دوسرے کے بارے میں اتنا ’’سچ‘‘ بول چکے ہیں کہ ان کے پیروکاروں کے دلوں سے وہ باتیں نہیں جارہیں چنانچہ ان جماعتوں کے کارکنوں نے میڈیا پر دوسری جماعتوں کے بارے میں وہی باتیں کیں جو ان کے لیڈر کر چکے ہیں، جلسے میں یہ لوگ اگرچہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے تھے مگر ان کے دل ایک ساتھ نہیں تھے، یہ ایک ایسی شادی کا منظر لگتا تھا جس میں ’’شریکوں‘‘ کو آنا تو پڑتا ہے مگر ان کے اندر کا زہر کسی نہ کسی طرح باہر آجاتا ہے۔ متذکرہ جلسہ بظاہر سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے کیا گیا تھا جس کی رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے مگر اس کا حوالہ لگتا تھامجبوری کے تحت دیا جارہا ہے۔ اللہ پاکستان اور اس کے عوام پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور اللہ کرے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینے والے عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے یہ جان لیں کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے، ان کے بچوں کا مستقبل بھی مضبوط پاکستان سے مشروط ہے، چنانچہ اسے کمزور کرنے کے بجائے اسے مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لئے ہم سب کو ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے