منو بھائی۔۔حق و سچ کی آواز

ملک کے معروف کالم نویس، مصنف اور ڈرامہ نگار منو بھائی کا طویل علالت کے بعدپچاسی برس کی عمر میں انتقال ہوگیا وہ کچھ عرصہ سے علالت کے باعث ہسپتال میں زیر علاج تھے،ورلڈ کالمسٹ کلب کے دوستوں سمیت لاہور کےصحافیوں سے اکثرانکی خیریت معلوم ہوتی رہتی۔
منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا وہ 1933میں پنجاب کے شہر وزیرآباد میں پیدا ہوئے انہیں منو بھائی کے نام سے ہی جانا اور پہچاناجاتا تھا۔انہوں نے”سونا چاندی "سمیت پاکستان ٹیلی ویژن کیلئے کئی ڈرامے تحریر کئے۔انکی ادبی خدمات پر 2007 میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دیا گیا۔ہمارے گھر میں ابتدائی زمانے میں نوائے وقت آتا تھا پھر جنگ اخبار غالب 1994سے آنا شروع ہوا،تو میں نے ’گریبان‘ پڑھنا شروع کیا۔انکا انداز بیان انتہائی عام فہم اور سادہ تھا۔اس زمانے میں ارشاد احمد حقانی اور دیگرمشکل اردو لکھنے والوں کی تحریریں اوپر سے گزرجاتی تھیں۔منو بھائی اپنے کالموں کے ذریعے معاشرے اور اس میں پائی جانے والی برائیوں پر لعنت ملامت کرتے رہتے تھے۔ سینئرز کے مطابق یہی کام انھوں نے اپنے لکھے گئےٹی وی ڈراموں میں بھی کیااور سونا چاندی جھوک سیال جیسے بے مثال شاہکار تخلیق کیے۔آج سوشل میڈیا پر انکی پنجابی شاعری میں بھی کالموں اور انکے لکھے گئے ڈراموں کی جھلک دکھتی ہے۔ ؎جیسے۔۔کی ہویا اے۔۔کج نیں ہویا۔۔۔ احتساب دے چیف کمشنر صاحب۔۔ ۔!
ہمارے معاشرے میں قیام پاکستان سے اب تک اشرافیہ کی بدعنوانی کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔اپنی نظم ‘اجے قیامت نئیں آئی’ میں انہوں نےمعاشرے میں رونما ہونے والے ‘غیرمعمولی واقعات ‘ پر تنقیدی قلم کشائی میں ہماری حقیقت بیان کی ہے۔اپنی تحریروں میں انہوں نے ہمیشہ سچ گوئی کی اور کھبی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا۔
او وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی منگ لیندے ساں
مل جاندا سی کھا لیندے ساں
نہیں سی ملدا تے رو پیندے ساں
روندے روندے سوں رہندے ساں
ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
بھک لگدی اے منگ نیں سکدے
ملدا اے تے کھا نیں سکدے
نیں ملدا تے رو نیں سکدے
نہ رویے تے سوں نہیں سکدے
مجھے 2003 میں منوبھائی سے ملاقات کا موقع ملا اور وہ بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ڈاکٹر واجد خان کی راہنمائی اور میری ادارت میں چلنے والے اخبار کی تقریب تقسیم اسناد میں مہمان خصوصی تھے اور دیگر بھی مصروفیات تھیں۔میرے لیے وہ وقت انتہائی پر مسرت تھا کہ جس شخصیت کو میں آئیڈیلائز کرتا رہا ان سے ملاقات اور وہ بھی اس قدر بے تکلفی سے۔انہوں نے اس موقع پر جو گفتگو کی اس میں بھی ہمیں ہمت دی کہ ظلم اور ناانصافی کے نظام کے خلاف اپنے قلم کی حرمت کو ہمیشہ قائم رکھنا۔ میرے والد محترم کی طرح قیام پاکستان کے وقت منو بھائی کی عمر بھی بارہ،تیرہ سال تھی ان سے بھی وطن کی محبت اس مٹی سے وفا اور نظام کے ناسوروں کے خلاف بغاوت کا درس ملا۔منوبھائی نے بھی پاکستان کے بننے سے آج تک کے حالات کو آنکھوں سے دیکھا۔وہ تو اپنی آواز کو لاکھو ں لوگوں تک پہنچا کر گئے،حقیقت میں منو بھائی حق کی آواز اور سچ کی آواز تھے۔۔اللہ انکی نیکیوں کو قبول کرے اور آج کے لکھاریوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے