دہشت گردی ، ریاست اور ہمارا موقف

[pullquote](پیغام پاکستان فتوے کے اجرا کے موقع پر ایوان صدر اسلام آباد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں 1800 سو سے زائد علماء اور مشائخ کی نمائندگی موجود تھی . تقریب سے صدر مملکت سمیت دیگر اہم شخصیات نے خطاب کیا . اس موقع پر جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اہم گفتگو کی جسے آئی بی سی اردو کے لیے محمد خالد شریف ضبط و ترتیب دیا )[/pullquote]

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد

جناب صدر مملکت، وزراء کرام، علماء ومشائخ عظام اور اس تقریب میں موجود تمام اہل علم، اداروںسے وابستہ اہم شخصیات میرے بھائیو اور بہنو!

ایک مبارک موقع ہے، جب ریاست کی نگرانی میں مملکت کے زیر سایہ یہاں ملک کے تمام مکاتب فکرجمع ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے یہاں جمع ہیں حکومت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے حضرات یہاں جمع ہیں۔ اور ریاست کے ساتھ اپنی بھر پور اور گہری وابستگی وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسے پیغام پاکستان کا نام دیاگیا، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی کہ ہم
عالمی برادری کو اور اسلامی برادری کو یہ باور کراسکیں کہ ہم ایک پر امن ملک ہیں، پور ی قوم امن چاہتی ہے، اور امن کو سبو تاژ کرنے والوں کے مقابلے میں پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔

میرے محترم بزرگو اوردوستو

انسان معاشرے میں اور حیات اجتماعی میں امن و سکون اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فطری زندگی ہے، انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ جب وہ مدنی الطبع ہے، مل جل کر رہتا ہے، ریاستوں کی صورت میں، شہروں کی صورت میں، دیہاتوں کی صورت میں، محلوں کی صورت میں تو پھر انہیں ایک دوسرے کی عزت، جان و مال کے حقوق کا لحاظ رکھنا ہے، اس کا احترام کرنا ہے، اور اسی لئے تمام قوانین اور تمام دنیا کے دساتیر وجود میں آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی مشیت بڑی واضح ہے، کہ رب العزت کیا چاہتے ہیں، مدینہ منورہ میں جو قوتیں سازشیں کرتی تھیں، فسادبرپا کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے اس کی تعبیر ان الفاظ میں فرمائی۔

کُلَّمَا اَوْقَدُوْانَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَأَھَا اللّٰہُ جب ان لوگوں نے جنگ کی آگ بھڑکانا چاہی تو اللہ نے اس کو بجھایا ہے، رب کی مشیت ایک پر امن ماحول دیناہے، حضرت انسان کو اللہ نے پیدا کیا تو اسے لفظ خلیفہ سے تعبیر کیا اور جب انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نیابت کے عظیم الشان منصب پر فائز کیا تو مقصود انسانی معاشرے میں انصاف، عدل اور امن کا قیام تھا، حقوق کا تحفظ تھا، جان و مال، عزت وآبرو کا تحفظ تھا، لیکن انسانی تخلیق کے عناصر کو سامنے رکھتے ہوئے ملائکہ نے ضرور اس شبہ کا اظہار کیا قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَاوَیَسْفِکُ الدِّمَائَ۔ آپ ایک ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گی اور خون بہائے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اس رائے اور شک اور گمان کو علی الرغم فرمایا قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ، میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک کررہا ہوں۔ کیا ہم نےکبھی اس ذمہ داری کا احساس کیا ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ریاست کو وجود میں لاکر قرارداد مقاصد کے ذریعے سے ہم نے جو پہلا عہد اپنی قوم کے ساتھ کیا وہ یہی کہ قوم کے نمائندوں ذریعے سے اللہ کی نیابت کرتے ہوئے قومی و اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق گزاری جائے گی۔ اس حوالے سے علماء کرام کی انہی کوششیں ہیں، مختلف مکاتب فکر کی کوششیں ہیں، اور ریاست نے جب بھی تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کو دعو ت دی ہے، لبیک کہا ہے، اتحاد کے اوپر پھر بھی الزام انہی کے اوپر ہے۔ کہ آپ ہی لوگ مذہبی لوگ ہی فساد کی جڑ ہیں۔ 1951ء میں 22اسلامی دفعات ملکی نظام کے لئے بطور اساس کے اور اصول کے تمام مکاتب فکر نے متفقہ طور پر تجویزکیے تھے، حضرت مولانا تنویر الحق تھانوی تشریف فرما ہیں، انہی کے گھر پر اجتماع ہو ا، جیکب لائن پر اجتماع ہوا تھا اور آج وہ ہماری دستاویز ہے۔

کیا پاکستان کی تاریخ میں ہم نے ان 22 اسلامی اصولوں کو کوئی اپنی پالیسی اور نظام کی بنیاد بنانے کے لئے توجہ دی ہے، قرارداد مقاصد پر اتفاق، 22 نکات پر اتفاق، اور جب ملک کو متفقہ آئین ملا تو پارلیمنٹ کے اندر تمام مکاتب فکر نے اس آئین کوایک متفقہ اسلامی آئین کے طور پر قوم کے سامنے رکھنے میں جو کردار ادا کیا کس سے مخفی ہے؟ یہاں سوال پید اکیا جاتارہا کہ اسلام تو ہم سب چاہتے ہیں لیکن کس کا اسلام؟ سنی کا اسلام، شیعہ کا اسلام، بریلوی کا اسلام، دیو بند ی کا اسلام، سلفی کا اسلام، کس کا اسلام ہمیں چاہیے؟

چنانچہ اس کا جواب دیاگیا اور باقاعدہ اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی، مسئلہ اعتقادات کا ہوتو اس کا تعلق فرد کے ساتھ ہے، مسئلہ عبادات کا ہو تو اس کا تعلق فرد کے ساتھ ہے، لیکن قوم کو جس نظام کی ضرورت ہے حیاتِ اجتماعی میں ہمیں جس نظام کی ضرورت ہے، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے آئینی ادارہ قائم کیا گیا، تمام مکاتب فکر اس میں موجود ہیں، ماہرین آئین اس میں موجو دہیں، سینئر وکلاء اس میں موجود ہیں اور آج تک اس کی جتنی بھی سفارشات ہیں، تمام مکاتب فکر کے جو نمائندے کونسل کے اندر ہیں ان کے اندر بھی متفقہ ہیں اور جو باہر مکاتب فکر ہیں ان کے اندر بھی متفقہ ہیں، لیکن 1973ء سے لے کر آج اس دن تک جب ہم اور آپ ایک بیانیہ پر متفقہ رائے کا اعلان کر رہے ہیں، پاکستان میں ایک سفارش پر بھی قانون سازی کی نوبت اب تک نہیں آئی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کس کو ٹھہرائیں اس کا ذمہ دار؟ ہمیں مصروف کریں آپ، ملک کے لئے، ریاست ہماری خدمات حاصل کرے۔

تاکہ اس کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنائیں یہ ہمار ا مؤقف ہے۔ کہ آج کا انسان آج کا مسلمان چودھویں، پندرھویں صدی کا مسلمان اپنی تمام تر کوتاہی کے باوجود تمام تر فسق و فجو ر کے بعد بہر حال بہر حا ل اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، اور ہم بھی اسے مسلمان سمجھتے ہیں، لہٰذا ن گناہگاروں کے بشمول اور ان کی جدو جہد سے جو ریاست وجود میں آئی، وہ تو ہے عملی طور پر ہزار کمزور، لیکن اس ریاست کوعقیدے کے اعتبار سے ایک اسلامی اور مسلمان ریاست کہا جائے گا، لیکن جیسے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب نے فرمایا کہ 2004ء میں میں نے فتویٰ لکھا اور اس پر تمام علماء کرام کے دستخط موجود ہیں یہ ایک کاوش ہے۔

جمعیة علماء اسلام نے پشاور میں 25ہزار علماءکرام کو اکٹھا کیا صوبہ کے پہاڑ کی چوٹی پر اگر چھوٹا سا مدرسہ ہے اس کے عالم دین کو بھی بلایا اور ایک بیانیہ جاری کیا جس میں ان تمام چیزوں سے برأت کا اعلان کیاگیا، یہ مسلح جنگ اور یہ خود کش آئین سے ماوراء جو کچھ بھی ہے۔ اور آئین کے مطابق ملک کے اندرکردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا، لاہور میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے متفقہ اعلامیہ جاری کیا اور اس کا مسودہ میں نے خود لکھا تھا، مکمل اتفاق کے ساتھ اس کو قبول کیا گیا اس وقت اس اجلاس میں ہمارے شہیدمولانا سرفراز نعیمی صاحب بھی موجود تھے، اتفاق رائے کے ساتھ ہوا، لاہور میں جامعہ اشرفیہ کے اندر وفاق المدارس العربیہ کے تمام علماء کرام دونوں طر فوں سے اکٹھے ہوئے، اور ایک جامع اعلامیہ جاری کیا جس میں یہاں تک لکھا گیا اور تمام نے اتفاق رائے کے ساتھ اس پر دستخط کر دیے کہ پاکستان میں مسلح جنگ غیر شرعی ہے، ہر طرف سے اس پر اتفاق ہے، ہمیشہ اتفاق رائے رہا ہے، ووٹ کی شرعی حیثیت پر سب سے پہلے فتویٰ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے دیاتھا اورآج بھی ان کے فتاویٰ موجود ہیں، علمی رائے بھی تھی، ہمارے تمام اکابرین پارلیمنٹ سے وابستہ رہے ہیں، پارلیمانی سیاست سے وابستہ رہے ہیں، ہم آج بھی آج کے اس بیانیے پر اتفاق کرتے ہیں، بندوق کے ذریعے سے شریعت کا مطالبہ غلط ہے، جو لوگ اس قسم کا مطالبہ بندوق کے ذریعے سے کرتے ہیں ان سے ہزار ہزار مرتبہ برأت کا اعلان لیکن جمہوریت اور پارلیمان کے راستے سے، جائز راستے سے، مجھے کب شریعت ملے گی؟ آئینی راستے سے۔ میری یہ تشنگی کب دور ہوئی ریاست اس کا بھی احتساب کرے۔ میرا احتساب تو کرتی ہےاور اپنا بھی احتساب کرے

مجھ سے تو روز روز لکھوایا جاتاہے کہ میں پاکستان کا وفادار ہوں، ریاست اور شہری کے درمیان ایک رابطہ ہوتاہے، جہاں ریاست شہری جان مال او رحقوق کاتحفظ کرتا ہے، جہاں ریاست ایک سایہ ہے وہاں فرد اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے، میں نے آپ کے سامنے تین ان دستاویزات کی بات کی جس میں خود شریک تھا حضرت مفتی صاحب کا فتویٰ اس کے علاوہ ہے اور علماء ہیں جنہوں نے بار باراس پر کام کیا ہے، اس تمام کے باوجود میرا مدرسہ، میری مسجد، میرے مدرسے کا استاد، میرے مدرسے کا طالبعلم، میرے مدرسے کی قرآن وسنت کا نظام تعلیم، میرے ملک کی ڈاڑھی اورپگڑی اس پر اعتما د کب کیا جائے گا، وہ دن بھی تو بتادو ہمیں، اعتماد دو طرفہ ہونا چاہیے، مدارس پر روزانہ چھاپے لگائے جار ہے ہوں، آدھی رات میں طلباء کو اٹھا کر میدان میں لایا جاتاہے، تشدد کیا جاتاہے، مارا پیٹا جاتاہے، اب میں اس پر ہوں کہ میں نے ساری سیاسی اور مذہبی زندگی اس بات پرگزاردی ہے، کہ میں دہشت گردوں اور ان مسلح تنظیموں کو اور اسلحہ کے ذریعے شریعت کی بات کرنے والوں کو تنہا کردوں اور ہم نے انہیں تنہا کیا ہے، الحمدللہ، آج تمام مدارس آپ کے ساتھ ہیں، تنظیمات مدارس آپ کے ساتھ ہیں، تمام مکاتب فکرکی تنظیمیں آپ کے ساتھ ہیں، لیکن جب مدرسے کے اجتماعی نظام پر حملہ کیا جاتاہے اوراجتماعی طور پر ماحول پر تشدد کیا جاتاہے وہ دو بندے جو مجرم ہوتے ہیں جب ان کو اٹھایا جاتاہےصبح دیکھتے ہیں ساری ہمدردیاں پھر ان کے ساتھ ہوتی ہیں، اور ہم پھر تنہا ہو جاتے ہیں۔

علماء کرام کو فورتھ شیڈول میں مستقل مجرم قراردیا جاتاہے، اگر میں نے جناب صدر مملکت اگر آپ پر اعتماد کر ناہےتو آپ نے بھی آج کے بعد ہمیں شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا، دونوں طرف اعتماد ہونا چاہیے تب بات چلے گی، میں آپ پر اعتماد کرتا ہوں آپ مجھ پر اعتماد کریں، جس طرح آپ آج مجھے اکٹھا کرسکتے ہیں، خدا کی قسم قیامت تک آپ مجھے متحد رکھ سکتے ہیں، کوئی جھگڑا نہیں، ساری تاریخ ہماری ایک ہے۔

[pullquote]اہل بیت بھی ہمارے ہیں، صحابہ کرام بھی ہمار ے ہیں، اہل بیت سے نفر ت کرنے والا بھی اپنے ایمان پر نظر رکھے، صحابہ کرام سے نفر ت کرنے والا بھی اپنے ایمان پر نظر رکھے، یہ ہماری اساس ہے اگر یہ اساس بیچ سے ہٹ گئی تو میں اور آپ کس سند کے ساتھ دنیا کے سامنے اسلام پیش کریں گے، سند کیا رہ جاتی ہے میری اور آپ کی[/pullquote]

تو اس اعتبار سے ہم نے آج اس اجتماعیت کو پیدا کرنا ہے، اس وحدت کو پیدا کرنا ہے، میرا آپ سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے، آپ کا مجھ سے اختلا ف بھی ہو سکتا ہے، اختلا ف کے اپنے گوشے ہیں، ہم اسلام کی ترجیح کو اول درجے میں کیوں نہیں رکھ سکتے۔ اور مسلک کی شناخت کو ہم نے پہلی ترجیح کیوں قراردیا ہے، یہ ہے ہمارے سامنے بڑا سوال جس کی سزا میں بھگت رہا ہوں میرا گریبان بھی پکڑا جارہا ہے وجہ کیا ہے میں ریاست سے پوچھنا چاہتا ہوں ناراض نہ ہونا۔ آج کی مجلس ہی اس لئے ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر نے وحدت کا مظاہرہ کیا اور آج تک کر رہے ہیں، اب جمہوری راستے سے ہم نے ملک میں اسلام لانا ہے، اب تمام دینی قوتیں یکجا ہوکر ایک بازو بن کر یہ ہاتھ آگے بڑھے گا تو پھر ریاست کے گریبان میں پڑے گا، ریاست بہت ہوشیار ہے، ریاستی ادارے بہت ہوشیار ہیں، ایسے حالات پیدا کر لیتے ہیں کہ اسلام کی بات کرنے والے اپنی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں، تاکہ مجتمع ہو کروہ ریاست پر دباؤ نہ ڈال سکیں تو یہ ہمارے لئے بھی سبق ہے، ہم بھی سوچیں اس بات پر کہ ہم آپس میں کیوں لڑرہے ہیں، کیوں تشدد کی طرف جاتے ہیں، اسلام تو ہمیں اعتدال کا راستہ دکھتا ہے، قرآن کریم ہماری تعلیمات کا منبع ہے جو ہمار ے اندر اترتا ہے اور ہمیں انسان بناتا ہے، وہ تو مجھے اعتدال کی امت کہتا ہے، وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا تو پھر میرے قرآن سے وابستگی کو شدت پسندی سے کیوں تعبیر کیا جارہا ہے، ، ہم اعتدال والے ہیں، تجزیہ میں فرق ہوسکتا ہے، جب تک میں مذہب کی بات کروں گا، دین کی بات کروں گا، میری طرف نسبت ہوگی یہ بڑے شدت پسند ہیں، ملا لوگ بڑےسخت ہوتےہیں، لیکن تجزیہ شاید صحیح نہیں ہے۔

[pullquote]ہمارے ملک میں جو لبرلز ہیں وہ بالکل پانی اور مائع ہوچکے ہیں، ان کو ہم کہتے ہیں کہ آپ بہت ہی پگھل گئے ہیں ان کے سامنے، تم ذرا اپنے اندر سختی پیدا کرو ہم ذرا اپنے اندر نرمی پیدا کریں، خیر خیریت سے ملک چلے گا ایک صف میں آجائیں گے سارے لوگ، آپ تو عالمی قوتوں کے مقابلے میں پانی بن جائیں اور خود پانی ہو کر میرے اعتدال کو شدت سے تعبیر کریں پھر یہ انصاف کا تقاضا نہیں ہوگا تم بھی پانی مت بنو، مت جھکو اتنا آگے ٹرمپ جیسا آدمی آپ کی گردن پر سوار ہو جائے، اب عقلمند آدمی تو جواب دے سکتا ہے، ٹرمپ کا کیا جواب دوگے۔[/pullquote]

اس قسم کی دنیا سے ہمار اواسطہ ہے، میں تسلیم کرتا ہوں کہ جس طرح دعوت حکمت کا تقاضاکرتا ہے اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنحکمت کے ساتھ دعوت دیا کرو، خوبصورت لب ولہجہ کے ساتھ دعوت دیا کرو شائستہ انداز کے ساتھ دعوت دیاکرو اور کبھی بحث و مباحثہ کا مسئلہ بھی پیش آجائے و ثالثی بھی احسن و شائستہ انداز گفتگوکے ساتھ

[pullquote]بین المذاہب مکالمہ کے تصور کی سب سے پہلے ہم نے حمایت کی ہم بین المذاہب مکالمے کے حق میں ہیں، لیکن بین المذاہب مکالمہ پر امن ماحول چاہتا ہے، آپ نے میرے سر پر تلوار لٹکائی ہوئی ہے آپ میری گردن کو بھی مار رہے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ مذاکرہ بھی کرو، مکالمہ بھی کرو، میرے سر کے اوپر جنگ کے بادل ہیں، بارود برس رہا ہے، میرے بچے، میری امت مر رہے ہیں پور ی دنیا میں ا س کا خون بہہ رہا ہے، آپ میرا خون بھی بہاتے رہیں، اور آپ مجھے مجبور بھی کریں کہ آؤ میرے ساتھ مباحثہ کرو، ہاں ہم مباحثے کے لئے تیار ہیں آپ بھی تو جنگ بند کر دیں۔[/pullquote]

اور میں ریاست کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں، امن وامان ہمارا داخلی مسئلہ ہے، وزیر داخلہ تشریف فرما ہیں، روز اول سے ہم یہ موقف دے رہے ہیں اس وقت بھی جب2001ء میں عالمی اتحاد کا حصہ بننے کی بات کی جار ہی تھی، ہم نے اس وقت بھی کہا تھا۔ کہ پاکستان کو اس دلدل میں مت ڈالو، امن وامان داخلی مسئلہ ہے ہم پاکستان کے اندر ان عناصر کے ساتھ نمٹ سکتے ہیں لیکن بین الاقوامی جنگ کا حصہ بننے کے بعد اس جنگ کو افغانستان کے حدود تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں کر سکیں گے۔ پڑوس میں آگ لگ جائے تو اس کو ٹھنڈ اکرنے کے لئے اس پر پانی ڈال جاتاہے، ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم نے افغانستان میں برپا ہونے والی جنگ پر تیل چھڑکنا شروع کیا جس کے شعلے پاکستان میں داخل ہو گئے۔

اور آج ہم ا س سے نبرد آزما ہیں، اپنی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے،

ہماری پالیسی واضح ہے، جو لوگ ہماری ریاست نہیں مانتے وہ تنہا ہیں، ان کو تنہا کرنا پڑے گا آج کے اس اجتماع میں بھی وہ تنہا ہیں لیکن ریاست کی سطح پر بھی کئی غلطیاں ہوئی ہیں، ا س کے ازالے کے لئے بھی ہم نے بولڈ سٹیٹ لینے ہوں گے، پالیسی سٹیٹ منٹ دینی ہوگی ہمیں، اور اس طرح ہم پاکستان کے مستقبل کو روشن کرنا چاہتے ہیں، مملکتییں امن سے چلتی ہیں۔

جناب رسول اللہﷺنے فرمایا

سلو اللہ العافیہ اللہ سے عافیت طلب کرو ولا تتمنوا القاء العدو دشمن کے ساتھ آمنا سامناکرنے کی تمنا نہ کیا کرو۔ جنگ کی خواہش نہ کیاکرو، و اذا لقیم ما تبتو ہاں اگر مقدر ہے درپیش ہوجائے پھر بزدلی نہ کرو سامنے ڈٹ جاؤ، تدریج کے ساتھ، پہلی چیز۔ ۔ ۔ ہے پھر اس کے بعد جنگ کی تمنا کبھی نہ کیا کرو، اور اگردرپیش ہو جائے تو پھر ڈٹ جایا کرو، میں نے کئی مرتبہ علماء کرام کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ جہاد ایک فریضہ شرعی ہے اورجہاد کرنے کا کتنا اجر و ثواب ہے اورساری چیزیں اپنی جگہ پر لیکن جہاد کا میدان بڑا وسیع ہے صرف بندوق اوروہ بھی اپنی ریاست کے ساتھ اور اس کو جہاد کہنا، اس پرعلماء کرام اتفاق نہیں کرتے آپ کے ساتھ، اختلاف ہے، تو اس حوالے سے کوئی ابہام موجود نہیں ہے، جو آپ کو وسائل ریاست مہیا کرتا ہے، آئین مہیا کرتا ہے اس میں جو آپ کے بس میں ہے، آپ وہ کرتے جائیں اس سے آگے مت جائیں، آپ جلسے کریں، جلوس کریں، پارلیمنٹ میں جائیں، نظریہ پیش کریں، بحث کریں وہاں پر اس اعتبارسے اصل چیز ہے امن

حضرت ابراہیم جو شرک کے خلاف لڑتے رہے بتوں کوتوڑتے رہے اس پاداش میں آگ میں پھینکے گئے، لیکن جب امامت کبریٰ ملی واذابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن اللہ نے امتحانات لیتے اور آپ اس میں کامیاب ہوتے قال انی جاعلک للناس اماما اب انسانیت کے امام بن گئے، امر اجتماعی آپ کے ہاتھ میں آگیا، آپ اس کے بعد حضرت ابراہیم کی گفتگو کا زاویہ دیکھیں، واذ قال ابراہیم رب اجل ہذا بلد آمنا کرہ ارض کے سب سے بڑے موحد شرک کے خلافسب سے بڑے مجاہد، لیکن جب امر اجتماعی کی ذمہ داری آئی تو فوراً آپ نے کہا رب اجل ہذا بلد آمنا وارزق اھلہ من الثمرات اب آپ امن کے بھی خواہش مند ہیں اور اقتصادی خوشحالی کے بھی، ریاستیں امن سے چلتی ہیں، ریاستیں اقتصادی خوشحالی سے چلتی ہیں، اپنے وسائل کو کب ہم استعمال کریں گے تاکہ ہم دنیا کے حاجتوں سے بے نیاز ہو، ہم کرہ ارض پر اللہ کے نائب ہیں، تو جب اللہ ایک ہے تو اس کی نیابت کا تقاضا ہے کہ مومن ایک رہے اگر اللہ بے نیاز ہے تو اس کے بے نیازی کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں، ان کی مدد اورقرضوں سے بے نیاز ہو جائیں، ان تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ریاستوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

5، 6 سال پہلے غالبا میں بنوں میں تھا رات کو میں سویا ہوا تھا تو میں خواب دیکھ رہاہوں کہ حضرت آدم سے فون پربات کررہا ہوں، اور حضرت آدم مجھے فرماتے ہیں تم کیا چاہتے ہوِ میں نے کہا میں امن چاہتا ہوں، اس کے بعد لائن کٹی نہیں، لیکن خاموشی کا ایک وقفہ ہوگیا، میں سوچتا ہوں کہ میں کچھ کہتا ہوں تو بے ادبی ہے، خاموش مسلسل رہوں تولائن کٹ جائے گی تو میں نے سلام عرض کیا فرمایا انتظار نہیں کرسکتے ؟

انتظار تو کررہے ہیں ہم، ابا نے کہہ دیا انتظار کرو تو اس انتظار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے آگے بڑھنا ہے اتفاق رائے سے بڑھنا ہے ہمارے اندر کی روح امن مانگتی ہے، اس لئے ریاست نے جب امن کے قیام کے لئےفوج اور اداروں کو میدان میں اتار، ہم نے سپورٹ کیا کیونکہ امن چاہتے ہیں، حکمت عملی میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن ریاست مقدم ہے، جب اس نے فیصلہ کیا ہم نے پیروی کی لہٰذ اعلماء کرام اس بات پر بھی غور کریں کہ ریاست کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہے، ریاست کی حاکمیت، اس کی اطاعت کا تصور کیا ہے اور اس پر اپنے نوجوانوں کو تعلیم دی جائےتاکہ کہ اس کی اہمیت کو سمجھیں ریاست کے وفادار رہیں، ریاست کی اطاعت کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ریاست کے ساتھ وفادار رہنے، پاکستان کو ترقی دینے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

محمد خالد شریف سیاسی اور نظریاتی طور پر جمیعت علمائے اسلام ف سے وابستہ ہیں
Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے