وزارت عظمیٰ کا مجنوں اور لعنت

وہ سلیبرٹی ہیں، بعض حوالوں سے کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں لیکن اس شخص کا دل نہیں ۔وہ عوام اور بالخصوص نوجوانوں کے جذبات سے کھیلنے کے ماہر ہیں لیکن خود ان کے ہاں جذبات ہیں اور نہ دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا جانتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چہرے کے تاثرات ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں ۔آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کا دن ہو یا پھر ان کی شادی کا ، ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک جیسے تاثرات نظر آتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ رشتو ںکی قدر جانتے ہیں اور نہ ان کو نبھانااوراور یہی وجہ ہے کہ وہ اختلاف کرنے والوںیا پھر اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں سے متعلق نہایت سفاک واقع ہوئے ہیں۔

یہ شخص سراپا دماغ ہے ،جس میں شہرت اور دولت کے حصول کے بعداب ایک چیز سمائی ہوئی ہے جس کا نام ہے وزارت عظمیٰ۔ وہ جانتا ہے کہ پاکستان میں کسی سویلین کو اس کرسی تک پہنچنے کے لئے پارلیمنٹ میں اکثریت چاہئے چنانچہ وہ اس پارلیمنٹ تک پہنچنے اور اس میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ۔ اسی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کو خوش آمدید کہا اور پھر بے شرمی کی حد تک ریفرنڈم میں ان کی حمایت کی ۔ اسی پارلیمنٹ کا قائد بننے کی خواہش اور کوشش میں انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ بے انصافی کی جو انصاف کے نام پر ان کے گرد جمع ہوئے تھے اور انہوں نے ان انصاف پسند انقلابیوں کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مخدوموں ، ترینوں ، مزاریوں ، چوہدریوں اور نہ جانے کس کس کی قدم بوسی پر مجبور کردیا۔

اسی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اصول اور نظریات چھوڑ کر الیکٹیبل کی سیاست شروع کی ۔ اسی لالچ میں انہوں نے پارٹی ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دی جن کے خلاف انہوں نے وہ بنائی تھی ۔ اسی لالچ میں وہ مقتدر حلقوں کا مہرہ بننے پر آمادہ ہوئے ۔ اسی لئے انہوںنے اپنے محسنوں کو گالیاں دیں ۔ اسی لئے انہوں نے اس شخص کو اپنا مشیر خاص بنا لیا جن کو وہ اپنا چپراسی رکھنے پر بھی آمادہ نہ تھے۔ اسی لالچ میں انہوں نے اپنے ایک طرف ظہیرالدین بابر اعوان اور دوسری طرف فردوس عاشق اعوان کو کھڑا کیا ۔اور تو اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ کبھی ایک پیر کے اور کبھی دوسرے پیر کے مرید بننے لگے اور اب تو نجومیوں تک کی قدم بوسی بھی کرنے لگے ہیں ۔

اس پارلیمنٹ کا قائد بننا ان کے دماغ پر اس قدر سوار ہے کہ جب گزشتہ انتخابات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ یہاں ان کواکثریت نہیں ملی تووہ عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگے۔ ایسی پارلیمنٹ، جس میں اکثریت حاصل کرنے کی خاطر انہوں نے پاکستان کے سب سے متنازع مذہبی سیاستدان تک کو گلے لگا لیا۔ قائدایوان بننے کے عشق میں سول نافرمانی تک کا اعلان کرڈالا۔ اپنے مداحوں سے پولیس والوں کے سرتڑوا دئیے اور خود ان بیچاروں کو پولیس سے پٹواتے رہے۔ جب ان کو احساس ہوا کہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو جلد پوری نہیں ہورہی تو پارلیمنٹ کو گالیاں دینے لگے ۔ اس کی عمارت پر حملہ آور ہوئے ۔

تمام ممبران سے اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دلوادئیے ۔ وزارت عظمیٰ کا جنون اس قد ر سر پر سوار تھا کہ حواس باختگی کے شکار ہوئے۔ کبھی میڈیا پرسنز کو للکارتے ، کبھی پولیس افسران کو دھمکیاں دیتے ، کبھی ججوں کو برا بھلا کہتے اور کبھی اپنی پارٹی کے مرکزی صدر پر تبرا بھیجتے ۔کبھی محمود خان اچکزئی کی چادر کا مذاق اڑاتے تو کبھی مولانا فضل الرحمان کی جبہ ودستار کا ۔ کبھی آفتاب شیرپائو کو القابات سے نوازتے تو کبھی خورشید شاہ کو۔ تقریر ایاک نعبدوایاک نستعین سے شروع کرتے ہیں لیکن اللہ پر بھروسے کی بجائے صبح شام امپائر سے مدد مانگتے رہتے ۔ کئی ماہ امپائر کی انگلی کے اٹھنے کے انتظار میں لگا دئیے اور جب وہ نہیں اٹھی تو خود اٹھ کر گھر چلے گئے۔ سب کچھ تو وہ پارلیمنٹ کی محبت میں کررہے تھے لیکن جب مشن کامیاب نہ ہوا تو سوال یہ تھا کہ اب اپوزیشن کی حیثیت میں ہی سہی لیکن پارلیمنٹ کیسے واپسی اختیار کی جائے ۔

چنانچہ ایک دن وہ اور ان کے سارے ایم این ایز سر جھکائے اسی قومی اسمبلی میں واپس چلے آئے جس کو انہوںنے بوگس قرار دیا تھا، جس پر حملے کئے تھے اور جس سے بقائمی ہوش و حواس مستعفی ہوگئے تھے ۔ جذبات کے حامل انسان ہوتے تو اس روز خواجہ آصف کے طعنے سن کر چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے لیکن اس اسمبلی میں نہ جاتے لیکن چونکہ زندگی کا مقصد ہی اس پارلیمنٹ کو دسترس میں لانا ہے اس لئے دوبارہ وہاں جاکر بیٹھ گئے اورمزے سے اس دور کی تنخواہیں بھی وصول کرلیں جس میں وہ اس اسمبلی کو توڑنے کے لئے سرگرم عمل تھے ۔ پھر معاملہ الٹ ہوگیااور وہ صبح و شام اسی پارلیمنٹ کی اہمیت اور افادیت جتاتے رہے لیکن پھر جب کسی امپائر کی ملازمت کی توسیع کا معاملہ آیا تو وزارت عظمیٰ کے جنون میں مبتلا اس مجنون کو(تاثر ہے کہ) لاک ڈائون کا ٹاسک دیا گیا۔ خود وہ اپنے محل میں اپنے چیلوں چانٹوں کے ساتھ پش اپس نکالتے رہے جبکہ کارکنوں کو اسلام آباد پولیس سے پٹواتے رہے ۔ اب کی بار بھی خواہش پوری نہ ہوئی تو کچھ عرصہ کے لئے پھر پارلیمنٹ کی اہمیت پر لیکچر دینے لگے ۔

اب جبکہ قومی اسمبلی کی مدت میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں تو وہ آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر پاکستان کے سب سے بڑے مذہب فروش کی قیادت میں سانحہ ماڈل ٹائون کا حساب لینے کے نام پر میدان میں نکل آئے ۔ زرداری کی اپنی حالت یہ ہے کہ انہوں نے سندھ میں رائو انوار جیسے وحشیوں کو پولیس افسران کی شکل میں مسلط کردیا ہے جو ابھی تک سینکڑوں سانحات ماڈل ٹائون کراچکا ہے اور تازہ ترین مثال نقیب اللہ محسود کا قتل ہے لیکن اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی بجائے وہ اس مذہبی حوالے سے مذاق بننے والے کے ساتھ خود کو سیاسی حوالے سے مذاق بنا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وزارت عظمیٰ کا یہ مجنون آج تک تو ڈی آئی خان اور مردان میں ظلم کی شکار ہونے والی بچیوں کی داد رسی کے لئے ان کے گھروں پر نہ جاسکا لیکن ماڈل ٹائون ماڈل ٹائون کھیل رہاہے ۔ ان کا خیال تھا کہ اب یہ ناٹک ان کے اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کی منزل قریب لے آئے گا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ پاکستان کے دل لاہور میں جلسے کی حاضری توقع سے بہت کم ہے تو ان کو ایک بار پھر اپنی وزارت عظمیٰ کی منزل دور نظر آنے لگی ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ایک بار پھر ذہنی توازن کھوکر حکومت یا کسی پارٹی کے خلاف نہیں بلکہ پارلیمنٹ پر لعن طعن کرنے لگے ۔

وہ پارلیمنٹ جس کا قائد بننے کے لئے وہ مرے جارہے ہیں اور جسے پاکستان کے آئین نے سب سے مقدس اور سپریم ادارہ قرار دیا ہے ۔ اپنے سیاسی پیر اور استاد شیخ رشید کی تقلید کرتے ہوئے انہوںنے بار بار کہا کہ میں اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہوں ۔ یوں بلاول بھٹو زرداری سے لے کر سید خورشید شاہ تک پارلیمنٹ میں بیٹھے پی ٹی آئی کے سوا تمام اراکین برہم ہوگئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی قریب میں یہ اس شخص کا پہلا بیان ہے کہ جس پر مجھے کچھ خاص غصہ نہیں آیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے آپ کوکوئی خطاب دیتا ہے تو اس پر ہمیں غصہ ہونے کی کیا ضرورت ۔ پارلیمنٹ سے مراد وہ عمارت نہیں بلکہ اس کے اراکین ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ خود بھی اس کا حصہ ہیں ۔ اب اگر وہ اپنے بارے میں ان ’’نیک‘‘ خیالات کا اظہار کرتا ہے تو ہم کیوں غصہ ہوں ۔یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے لوگ بھی بیٹھے ہیں لیکن ا س کا حصہ ہونے کے ناطے شاہ محمود قریشی، اسد عمر ، شیریں مزاری، شبلی فراز ، علی محمد خان ، شہریار آفریدی اور پی ٹی آئی کے دیگر اراکین بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔

اب اپنے اوپر لعنت بھیجنے والے شخص کو اگر وہ لوگ اس کے بعد بھی اپنا لیڈر مانتے ہیںاور اپنے لئے اس لقب کے عطیے پر خوش ہیں تو ہمیں اعتراض کا کیا حق ہے۔ ہم تو الحمدللہ کبھی پارلیمنٹ کا حصہ رہے ہیں اور نہ کبھی بن سکتے ہیں۔ آئین کی بالادستی اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے ایک پاکستانی کی حیثیت سے حکومت سے شدید اختلاف کے باوجود پارلیمنٹ کااحترام کرنا میں آج بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں لیکن اگر اس میں ایسے لوگ بھی بیٹھے ہیں کہ جو اپنے اوپر لعنت بھیجنے والے کو لیڈر مانتے ہیں تو پھر شاید واقعی یہ پارلیمنٹ کسی حد تک اسی طرح کے تبصرے کی مستحق ہوگی جیسا کہ اس کا لیڈر بننے کے خواہشمند وزارت عظمیٰ کے مجنون نے کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے