ادھورا کالم

ادھورا کالمیہ خبر عشروں پیچھے لے گئی۔گورنر گلگت بلتستان بیٹوں کے ہاتھوں لٹ گئے۔ کپوتوں نے جعلی دستخط کر کے مکان بیچ دیا۔ مارگلہ روڈ پر سیکٹر 6/2Fکی گفٹ ڈیڈ تیار کر کے مقامی عدالت میں جمع کرائی اور عدالت میں یہ جھوٹ بولا کہ والد نے ان کو یہ گھر گفٹ کر دیا ہے۔ میر غضنفر کو معاملے کا علم ہوا تو فوراً تھانہ کہسار سے رجوع کیا اور بتایا کہ وہ 1990 سے مذکورہ گھر کے واحد مالک ہیں اور بیٹوں کو عاق کر چکے ہیں۔ مکان پر قبضہ بھی میرا ہے۔لڑکپن، جوانی میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ دکھ کیسے کیسے روپ دھار کر آزمانے آتے ہیں۔ یقیناً ان بیٹوںکی پیدائش پر میر غضنفر نے جشن منایا ہوگا اور کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ جوان ہو کر یہ کیسے کیسے گل کھلائیں گے۔ خاندان کی عزت کو کتنے چاند لگائیں گے۔ غضنفر یونیورسٹی میں ہمارا ہم عصر تھا اور اس کی وجہ شہرت اس کا بینڈ اور گٹارسٹ ہونا تھا اور کچھ کچھ ہنزہ کا کرائون پرنس ہونا۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ اسکا تعلق کس ڈیپارٹمنٹ سے تھا البتہ اس کا کزن ’’نگر‘‘ کا پرنس برکت علی میرا بہت ہی پیارا اور قریبی دوست تھا۔

پرنس برکت دو ناموں سے مشہور تھا۔ ’’پرنس بکو‘‘ جو برکت کی بگڑی ہوئی شکل تھی اور دوسرا’’پرنس پیرٹ‘‘ کیونکہ سرخ و سفید پرنس کی ناک عقابی قسم کی تھی جیسی سلطنت عثمانیہ کے اکثر سلاطین کی ہوتی تھی۔ میرا اور پرنس برکت کا قد ملتا جلتا تھا اس لئے ہم ایک دوسرے کے کپڑے بھی پہن لیا کرتے۔ مقبول ملک کے ساتھ بھی اس کی گہری چھنتی تھی کہ ہاسٹل نمبر ون میں دونوں کے کمرے بھی ساتھ ساتھ تھے۔مقبول میرا بھی بہت قریبی دوست تھا اور یہ دوستی اس کی موت تک جاری رہی۔ بعدازاں مقبول کی شادی ممتاز پنجابی لکھاری پروین ملک سے ہوئی اور وہ ہماری بھابھی بن گئیں۔ پروین ملک ہم سے تھوڑی سینئر اور جرنلزم کی طالبہ تھیں۔ کبھی مقبول، کبھی میرے اور کبھی پرنس برکت کے کمر ے میں محفل جمتی جو رات گئے تک جاری رہتی۔ پرنس بکو کا کمرہ ننھا منا سا شیش محل تھا اور اس کی گاڑی پر نمبر پلیٹ کی جگہ نمبر نہیں صرف "NAGAR” لکھا ہوتا۔ ہم تینوں نے اس گاڑی میں جی بھر کے لاہور نوردی کی۔ میں نے زندگی میں پرنس بکو سے زیادہ معصوم، سیدھا سادہ بھولا بھالا شخص نہیں دیکھا۔
یونیورسٹی کے بعد کوٹہ سسٹم ٹائپ کسی شے کے تحت وہ فارن سروس میں چلا گیا۔ ملاقاتیں بہت کم ہوگئیں لیکن رابطہ ٹوٹا کبھی نہیں۔

پھر کئی سال پہلے وہ زیارتوں کیلئے گیا اور کبھی واپس نہیں آیا۔ سنا کوئی حادثہ وہاں اس کا منتظر تھا۔ اب نہ میرا مقبول ملک ہے نہ پرنس برکت۔ صرف یادیں ہیں یا کبھی کبھار انہیں کالموں میں یاد کر لیتا ہوں لیکن ایک بات طے کہ کم ہی راتیں ایسی گزری ہیں جب سونے سے پہلے ان سب کو یاد نہ کیا ہو جو بہت جلد بچھڑ گئے۔ سچ یہ کہ انہیں یاد کرتے کرتے ہی سو جاتا ہوں ورنہ نیند نہیں آتی کہ ان کی یادیں میرے لئے لوریوں سے کم نہیں۔کالم ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ آصف عفان کے حوالہ سے ایک دلخراش پیغام ملا جس پر یقین نہیں آرہا۔ اللہ کرے غلط ہو،کسی نے بھونڈا بدصورت مذاق کیا ہو۔ کسی محبوب کی موت کی منحوس خبر ہے۔ دو تین بجے کے قریب جنازے کی اطلاع ہے اور اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہورہا ہے۔ عاصم کو کہا ہے ادھر ادھر کراس چیک کرو لیکن وہ بیمار تو تھے اور عمر کے نازک ترین حصے میں بھی۔ سمجھ نہیں آرہی کیا کروں۔ عاصم سے کہتا ہوں براہ راست آصف عفان سے رابطہ کر کے کہے مجھے ساتھ لے چلے….. مجھے سہارے کی ضرورت ہوگی۔ میرے لئے اکیلے ریواز گارڈن پہنچنا مشکل ہوگا۔کالم ادھورا رہ گیایہاں سب کچھ ہی ادھورا رہ جاتا ہےپوری صرف موت ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے