لاہور 2016-17 میں بچوں سے زیادتی کے حوالے سے سرفہرست شہر

پنجاب حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ2016-17 کے دوران پنجاب کے تمام شہروں میں سامنے آنے والے بچوں کے ریپ کیسز میں لاہور سرفہرست ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل آئی جی (اے آئی جی) کی جمع کردہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں دو برسوں میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز سامنے آئے۔

رپورٹ کے مطابق 2016 کے مقابلے میں 2017 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا جبکہ لاہور میں سب سے زیادہ واقعات ہوئے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق لاہور میں بچوں سے زیادتی کے 107 واقعات پیش آئے۔

قومی اسمبلی کی کمیٹی میں جمع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کہ پنجاب میں دو برسوں میں مجموعی طور پر 1297 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2016 میں 645 اور 2017 میں 652 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 17-2016 کے دوران جنسی زیادتی کے شکار بچوں میں 252 بچیاں اور ایک ہزار45 بچے شامل ہیں۔

صوبائی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں 43 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔

پنجاب کے دیگر شہروں میں قصور میں 66، شیخوپورہ میں 38 اور خوشاب میں50 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔

صوبائی حکومت لاہور شہر میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو روکنے میں ناکام رہی جہاں رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تین بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا جاچکا ہے۔

بچوں سے زیادتی کے واقعات میں ملوث افراد کے حوالے سے ایک ہزار 446 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 21 کو سزائیں سنائی جا سکیں۔

گرفتار ملزمان میں سے 166 کو شواہد کی عدم دستیابی کے باعث رہا کردیا گیا۔

خیال رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے یہ رپورٹ قصور میں کم سن بچی زینب کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی تھی جن کی لاش کو 9 جنوری کو قصور میں ایک کچرا کنڈی سے برآمد کرلیا گیا تھا۔

قصور میں 6 سالہ زینب کو 4 جنوری کو اغوا کیا گیا تھا جنھیں ریپ کے بعد قتل کردیا گیا تھا جس پر ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا جبکہ قصور شہر میں شدید احتجاج کرتے ہوئے رکن اسمبلی کے ڈیرے میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے