راؤ انوار اتنا ہی بہادر ہے تو اس کو بارڈر پر بھیجا جائے،سراج الحق

کراچی: جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو بارڈر پر بھیجنے کی تجویز دے ڈالی۔

سراج الحق نے کراچی میں معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کیے گئے نوجوان نقیب اللہ محسود کے لواحقین سے ملاقات کی اور تعزیت کا اظہار کیا۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے سوال کیا، ‘حکومت ہمیں بتائے کہ نقیب اللہ کا جرم کیا تھا؟’ ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت کو نقیب اللہ کی ہلاکت کا جواب دینا ہوگا۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ کراچی کا ہر شخص راؤ انوار کو قاتل کہتا ہے، جو ماورائے عدالت اور اجتماعی طور پر بھی قتل عام میں ملوث ہے، جس کے دامن پر 424 افراد کے قتل کا داغ ہے۔

انہوں نے معطل ایس ایس پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘راؤ انوار اگر اتنا ہی بہادر ہے تو اس کو بارڈر پر بھیجا جائے لیکن کراچی میں مزدوروں کو گاڑیوں میں ڈالنا اور ویرانے میں قتل کرنا کہاں کی بہادری ہے؟’

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پورے ملک میں جنگل کا قانون ہے، کوئی بھی محفوظ نہیں ہے لیکن تعداد پوری کرنے کے لیے بے گناہ افراد کو قتل کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے نقیب اللہ محسود کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک واقعے کی جوڈیشل انکوائری نہیں کرائی جاتی، کسی اور پر اعتماد نہیں کریں گے۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ راؤانوار کو معطل کرنا کوئی سزا نہیں ہے بلکہ یہ روزمرہ کے معاملات ہیں، ہم ایسے مجرم کو عدالت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جرائم کی دنیا میں رہنے والا شخص غاروں میں رہتا ہے، سوشل میڈیا پر نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا، ‘اب ہم ڈرنے اور جھکنے والے نہیں اور پاکستان کے ہر مظلوم کے ساتھ ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ قاتلوں کے ساتھ قاتلوں والا سلوک نہ ہوا تو سمجھیں گے اصل قاتل وزیراعلیٰ ہے جب کہ آصف علی زرداری جو کہ جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں، وہ بھی دیکھیں کہ آج نقیب اللہ محسود کی لاش اور ان کا خاندان انصاف مانگ رہا ہے۔

سراج الحق نے نقیب محسود کے قتل کی تحقیقات کے لیے حکومت کو 10 دن کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ 31 جنوری کو کراچی کے تمام مظلوم افراد کے لیے عظیم الشان جرگہ کیا جائے گا جس میں تمام قبائل اور تمام زبانیں بولنے والے شامل ہوں گے۔

[pullquote]نقیب اللہ کی ہلاکت[/pullquote]

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

راؤ انوار کا دعویٰ تھا کہ نقیب اللہ جیل توڑنے، صوبیدار کے قتل اور ایئرپورٹ حملے میں ملوث مولوی اسحاق کا قریبی ساتھی تھا۔

تاہم 27 سالہ نقیب اللہ کے رشتے داروں اور دوستوں نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو ‘جعلی’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مقتول کاروبار کے سلسلے میں کراچی آیا تھا۔

نقیب اللہ کے ایک رشتے دار نے بتایا کہ ‘مقتول ایک سال قبل جنوبی وزیرستان سے کراچی آیا تھا، اس کی الآصف اسکوائر پر کپڑے کی دکان تھی اور وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا’۔

واضح رہے کہ راؤ انوار کو ‘انکاؤنٹر اسپیشلسٹ’ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو اس سے قبل بھی متعدد مبینہ پولیس مقابلوں میں کئی افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کرچکے ہیں۔

نقیب اللہ کے قتل کے واقعے پر چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار بھی ازخود نوٹس لے چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے