تعلیمی نصاب اور اقلیتوں کا مسئلہ

پاکستان کی 4 فی صد سے بھی کم آبادی غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے اردگر بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کا ہر طرح سے خیال رکھنے کا درس دیا گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم غیر مسلم اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے کو تیار ہیں؟

آگے بڑھنے سے پہلے شہنیلہ سے مل لیجیے۔ سانولی رنگت، چمکتی آنکھیں، پنجابی لب و لہجے والی 15 سالہ عیسائی لڑکی شہنیلہ میٹرک کی طالبہ ہے، جس کا باپ اس دنیا میں نہیں رہا اور ماں کی زندگی دوسروں کے گھروں میں کام کرتے گزر گئی، ماں کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ اس کے بچے پڑھ لکھ جائیں۔

لہٰذا شہنیلہ کے تعلیم کے شوق کی راہ میں نہ اس کے والد کی موت رکاوٹ بنی اور نہ ہی وقتی طور پر رکنے والے تعلیمی سلسلے سے اس کا عزم کمزور ہوا۔ شہنیلہ نے اپنے تعلیمی سلسلے کو دوبارہ اسی محلے کے پیلے یعنی گورنمنٹ اسکول کے بجائے انگلش میڈیم اسکول سے شروع کیا۔

اس نے نویں جماعت پاس کی لیکن میٹرک میں آتے ہی اسلامیات پڑھنے کا مسئلہ درپیش آگیا۔ شہنیلہ نے بتایا کہ پہلے اسلامیات کے اسباق اتنے مشکل نہیں تھے اور نہ ہی پرانے اسکول میں اخلاقیات کا مضمون موجود تھا۔وہ اس بار بھی شاید اسلامیات کا مضمون پڑھ لیتی لیکن میٹرک کی اسلامیات کی کتاب میں بڑی قرآنی آیات اور احادیث شامل ہیں ۔شہنیلا نے بتایا کہ اس کی والدہ نے اسکول میں بات کی کہ وہ اخلاقیات پڑھنا چاہتی ہے لیکن وہاں ٹیچر کی عدم دستیابی کی نوید اور اخلاقیات میں نمبر کم آنے کی خبر سنادی گئی ۔

شہنیلہ نے 8 ماہ تک اسلامیات پڑھی یہاں تک کہ امتحانی فارم چلے گئے، اس نے بھی سمجھ لیا تھا کہ بات ختم ہوگئی۔ جیسے تیسے اس کو اسلامیات کا ہی پرچہ دینا ہے لیکن ٹیوشن کی ٹیچر کے کہنے پر امتحانات سے کچھ عرصہ پہلے اس نے میٹرک بورڈ سے خود رجوع کیا اور بھاگ دوڑ کے نتیجے میں آخرکار وہ اسلامیات کے بجائے اخلاقیات کا پرچہ دے گی۔

جب اسکول انتظامیہ سے ان کا موقف لیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے اخلاقیات کی الگ سے ٹیچر اور کلاس نہیں رکھی گئی اور پھر طلبہ نے بھی کبھی اس حوالے سے شکایت نہیں کی۔

چلیں یہ تو ایک پرائیوٹ اسکول کا حال ہے۔ سرکاری اسکول کے غیر مسلم طالب علم اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ بھی جان لیتے ہیں۔

سکینہ ایک سرکاری اسکول میں میٹرک کی طالبہ ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے چھٹی سے آٹھویں جماعت تک تو اسلامیات کا مضمون ہی پڑھا لیکن میٹرک میں اسے اخلاقیات کا مضمون الگ سے پڑھوایا گیا۔

ایک سرکاری اسکول کی اساتذہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے اسکول میں غیر مسلم بچوں کو اخلاقیات کا مضمون ہی پڑھایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی طالب علم اسلامیات پڑھنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔

اس ساری صورت حال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ صرف ایک شہنیلہ کا مسئلہ نہیں بلکہ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق تین اعشاریہ چار فیصد غیر مسلم آبادی کا مسئلہ ہے۔ یقیناً ایسے درجنوں غیر مسلم طلبہ و طالبات ہوں گے جو اسکول انتظامیہ کی غفلت کا شکار ہیں۔

پاکستان کا آئین ہر پاکستانی کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں بڑے پیمانے میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں اور جغرافیہ، تاریخ اور شہریت کے مضامین ضم کرکے مطالعہ پاکستان کا مضمون شروع ہوا جس کے نتیجے میں اخلاقیات کا مضمون غیر مسلموں کے ساتھ جڑا اور اسلامیات مسلم طلبہ کا اولین انتخاب بن گیا۔

یکسانیت کا شکار ان تدریسی کتب کو اگست 2009 میں نئی نیشنل ایجوکیشن پالیسی کے ذریعے نئی زندگی دی گئی ۔ اس تعلیمی پالیسی کے آرٹیکل 4 کی رُو سے ساتویں جماعت سے غیر مسلم طلبہ کے لیے اخلاقیات کا مضمون اور اس کی ٹیچر لازمی قرار پائے۔

سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائریکٹر سید ذاکر علی شاہ نے دعویٰ ضرور کیا تھا کہ غیر مسلم طلبہ کے مذہبی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اخلاقیات کی نئی کتب کی تیاری جاری ہے اور میٹرک کے امتحان نئے کورس کے مطابق لیے جائیں گے مگر اردو بازار کے دکان داروں کا کہنا ہے کہ 2007 کے بعد سے اخلاقیات کا کوئی نیا نصاب نہیں آیا۔

اس حوالے سے سید ذاکر علی شاہ صاحب نے بتایا کہ محکمہ تعلیم سندھ کی خاص ہدایات پر اخلاقیات کی نئی کتب تیار کی جارہی ہیں اور اس سلسلے میں یونس ماسٹر، کاسنڈرا فرنینڈس، افضل جیک، اے جے جاگ روم، گنیش مال اور نکہت سنگھ کی رائے اور بھرپور مدد حاصل ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ساتویں جماعت کی نئی کتاب اسکولوں تک پہنچ چکی ہے ۔ اگلے مرحلے میں آٹھویں جماعت اور پھر میٹرک کی کتاب طلبہ کے ہاتھوں میں ہوگی۔لیکن پاکستان مائنورٹی ایسوسی ایشن کے صدر انجم پال سندھ بورڈ کے نصاب سے متفق نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب مذاہب کا بین التقابلی جائزہ پیش کرتی ہے کیونکہ اس کتاب میں سات مذاہب کے بارے میں تعارفی مضامین ہیں جو پاکستان کے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ پال صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین کی رو سے ہر پاکستانی کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا، ‘خود بتائیں، ایک ہندو بچہ عیسائی مذہب سے متعلق مضامین کیوں پڑھے؟’

بنیادی سوال ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کو بائبل، بھگوت گیتا اور دیگر مذاہب کی کتابیں پڑھنے کی اجازت دیں گے؟ پھر ہمارے ہاں بین المذاہب یا تقابلی جائزے کا بھی کوئی رجحان نہیں۔ پاکستان کا المیہ تو یہ ہے کہ یہاں کُل بجٹ کاصرف پانچ سے چھ فی صد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے، جو سندھ حکومت تک پہنچتے پہنچتے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بن جاتا ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 24 ملین بچے اسکول نہیں پہنچ پاتے اور جو پہنچ پاتے ہیں اس میں سے بھی 31 فی صد طلبا میٹرک تک آتے آتے اسکول چھوڑ چکے ہوتے ہیں، لہذا حکومت کو بھی چاہیے کہ تعلیم جیسے اہم شعبے کو نظر انداز نہ کرے کیونکہ ہر دور میں تعلیم ہی کے ذریعے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوئی ہیں۔

ہمارے ملک کی غیر مسلم آبادی وسائل کی کمی کا شکار طبقہ ہے۔ خدارا ان کے ساتھ ایسی مجرمانہ غفلت نہ برتیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں ایک ساتھ رہنا ہے۔ تھوڑی سی توجہ سے یہ گروہ ہمارے معاشرے کا بہترین چہرہ بن سکتا ہے ۔ اگر یہ مطمئن ہیں تو پھر کسی کی ہمت نہیں کہ ہم پر انگلی اٹھائے ۔ ہم ان سے ہیں اور یہ ہم سے ہیں، حکومت کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کسی پاکستانی کے بنیادی حقوق کا سلب نہ ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے