سینیٹ کمیٹی کی بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو پھانسی کی تجویز

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے قصور سمیت ملک بھر میں بچوں کے اغوا اور زیادتی کے بعد قتل پر مذمت کرتے ہوئے مجرموں کو پھانسی کی سزادینے کی قرار داد منظور کرلی۔

سینیٹر رحمٰن ملک کی صدارت میں کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں پولیس کو بچوں سے زیادتی کی اطلاع کے لیے وٹس ایپ ہیلپ لائن بنانے کی ہدایت کی گئی۔

کمیٹی نے قصور اور مردان میں بچیوں کی ہلاکت کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کر لی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ اغوا کے بعد زیادتی کرنے والے مجرموں کوپھانسی پر لٹکایا جائے اور اس حوالے سے قومی کمیشن بنایا جائے۔

سینیٹر شاہی سید کی صدارت میں ذیلی کمیٹی قائم کی گئی اور ان واقعات کے حوالے سے ہونے والی تفتیش میں پیش رفت پر تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کا کام سونپ دیا گیا ہے۔

کمیٹی کے اجلاس میں قصور میں اغوا کے بعد قتل ہونے والی کم سن زینب کے والد محمد امین، والدہ اور پنجاب پولیس کے حکام نے خصوصی شرکت کی۔

مقتولہ زینب کے والد محمد امین نے سینٹ کمیٹی کو بتایا کہ ‘میری بیٹی پارہ پڑھنے جاتی تھی اور یہ واقعہ 4 جنوری کو جمعرات کے روز پیش آیا اور اس روز میری بیٹی کے پاس روز پیسے بھی تھے تاہم اسی رات ریسکیو15 پر بچی کے اغوا کی اطلاع دی گئی لیکن پولیس نے بچی کو ڈھونڈنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا’۔

انھوں نے کہا کہ ‘پولیس والے آتے تھے، کینو کھاتے اور چائے پی کر واپس چلے جاتے تھے جبکہ پولیس نے بچی کے اغوا کے ابتدائی پانچ دن تک کچھ بھی نہیں کیا حالانکہ ہم نے سراغ رساں کتوں کی مدد لینے کا کہا اور انھیں خرچہ بھی دیا’۔

محمد امین نے بتایا کہ ہم نے اپنے خاندان کے کم از کم 100 افراد کا ڈی این اے کروایا ہے اور اب پولیس ہمارے پڑوسیوں، رشتہ داروں اور آس پاس رہنے والوں کو زینب کے قتل کے حوالے سے سوالات کرکے تنگ کر رہی ہے جبکہ سیریل کلر تاحال آزاد ہے۔

انھوں نے کہا کہ گرفتار کئے گئے لوگوں میں 3 مشکوک افراد شامل ہیں تاہم پولیس نے بتایا ہے کہ گرفتار ملزمان کا زینب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مقتولہ زینب کے والد نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ قصور میں ایک اور بچی بھی اغوا ہوئی ہے جس کی رپورٹ درج نہیں کی گئی اور پولیس نے مغوی بچی کے والدین کو ڈرایا ہوا ہے۔

زینب کی والدہ کا کہنا تھا کہ پولیس کہتی ہے زینب کا قاتل سیریل کلر ہے، وہ سیریل کلر بنا بھی تو پولیس کی چھوٹ کی وجہ سے ہے، ملزم کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور اسے بس ایک بار ایک ماں کی عدالت میں لایا جائے۔

انویسٹی گیشن ٹیم کے انچارج ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جولائی سے اب تک کی تحقیقات میں 31 اکتوبر 2017 سے اب تک 696 ڈی این اے کیے گئے اور 692 لوگوں سے تحقیقات کی گئیں، 125 ڈی این اے کا رزلٹ ابھی تک نہیں آیا۔

ڈی آئی جی نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ زینب کا قاتل کل بھی پکڑا جا سکتا ہے جبکہ اس کے لیے کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں اس لیے ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ڈی آئی جی مردان نے عاصمہ قتل کیس کے بارے میں کمیٹی کو بتایا کہ 13 جنوری کو بچی اغوا ہوئی اور پوسٹ مارٹم کروایا گیا جس سے پتہ چلا کہ گلا دبا کر قتل کیا گیا اور اب ریپ، قتل اور انتقام کو مد نظر رکھ کر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جیو فینسنگ کی جارہی ہے اور تحقیقات کو ہر طرح سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

خیال رہے یہ مردان میں رواں ماہ چار سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کیا گیا تھا جس کے بعد مقامی تنظیموں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور پولیس نے جانب سے 14 جنوری کو ریجنل پولیس افسر مردان کی سربراہی میں 8 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) انویسٹی گیشن کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے