چارسدہ:توہین رسالت ص کا واقع اور واقعیت

معاشرے کی موجودہ صورت حال پر ہر باشعور آدمی بے چین ہے اور جس تیزی سے ہمارا معاشرہ عدم برداشت اور انتہاء پسندی کے طرف جا رہا ھے اس پر قوم و ملک کے اجتماعی دانش کرب کے عالم میں ہیں۔لیکن اس سے زیادہ قابل تشویش بات یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم چاہے مذہبی ہوں یا سیکولر تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ مالدار ہوں یا غریب مرد ہوں یا عورت جذباتیت کا شکار ہو چکے ہیں۔پہلے سے جو ذہن بن چکا ہو اسی ذہنیت کو مد نظر رکھ کر چیزوں کو دیکھتے ہیں اور دلچسپی رکھتے ہیں. ہر وہ مسئلہ ہمارے دلچسپی کا مرکز ہوتا ہے جس کا ہمارے نظریات سے مماثلت ہو اور جس مسئلے کے متعلق ذہنی بنیاد نفرت پہ بنی ہو اس کو منفی رنگ میں اچھالتے ہیں. ہماری یہ ذہنی رجحانات صرف مذہبی مسائل سے وابستہ نہیں بلکہ ہم کسی بھی واقع کو غیر جانبدارانہ اور اور منطقی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت سے من حیث القوم محروم ہو چکے ہیں. منطقی استنتاج اور معروضی تجزیہ ہمارے لئے بے گانہ تراکیب ہیں.

https://www.youtube.com/watch?v=J9inUFakKYM

ایک تازہ واقعہ جس نے گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پہ ہنگامہ بنایا ہے، شبقدر چارسدہ میں ایک پرنسپل کا اپنے طالب علم کے ہاتھ سے شہادت کا واقعہ ہے.

راقم اسلام آباد میں تھا جب سوشل میڈیا پہ خبر آئی کہ جائے مذکور میں ایک پرنسپل کو توہین رسالت کے الزام میں قتل کیا گیا ہے. کافی تشویش ہوئی کیونکہ میرا ذاتی تعلق بھی متعلقہ علاقے سے ہے اور بذات خود ایک عرصہ سے انتہا پسندی، تنگ نظری اور مذہبی منافرت کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہوں. اگر چہ خود بھی مذہبی حلقوں کے الزام بازی کا شکار رہا ہوں تاہم کسی بھی حالت میں منطقی اور اور غیر جانبدارانہ ذہنی روئے کو نہیں چھوڑا.

حقائق کا بلاواسطہ جائزہ لینے کیلئے میں بذات خود شبقدر اور چارسدہ گیا، راستے میں عوام کو سنا، علاقے کے سیاسی زعماء کی رائے لی اور بالآخر متعلقہ موقع و محل پہ حاضر ہوا. قتل کے بعد علاقے کے عوام سراپا احتجاج تھے اور انہوں نے بہیمانہ فعل پر جلوس بھی نکالا تھا۔ چونکہ مقتول ایک معلم ہونے کیساتھ حافظ قرآن بھی تھا اور ایم اے اسلامیات ٬ایم اے عربی اور پشتو بھی. عوام اس قتل کے خلاف یک زبان تھے. ان احتجاجی جلوسوں میں قتل کی وجوہات میں توہین رسالت کا کوئی ذکر نہیں تھا۔اس کے بعد میں متعلقہ تھانے پہنچا تو واقعے کہ تفتیشی افسر اے ایس آئی جھانگیر خان نے ایف آئی آر کی نقل سامنے رکھ دی. ایف آئی آر قاتل طالب علم سید فہیم شاہ کے خلاف تھا.ایف آئی آر درج کرنے والا متعلقہ کالج کا طالب علم ہونے کے علاوہ مقتول کا بھانجا بھی تھا. ایف آئی آر میں توہین رسالت کے حوالے سے کوئی بات نہیں تھی ۔ تفتیشی رپورٹ اور واقعہ سے وابستہ لوگوں سے پتہ چلا کہ سارے مسئلے میں مذہب کا کوئی رول ہے نہ توہین رسالت یا Blasphemy کا.

طالب علم قاتل سید فہیم شاہ کلاس سےبغیر اجازت کے غیر حاضر رہتا، تعلیمی پرفارمنس بھی اچھی نہیں تھی. جس کی وجہ سے پرنسپل صاحب کیطرف سے ڈانٹ ڈپٹ پڑتی تھی جس کی وجہ سے مذکورہ طالب علم پرنسپل صاحب سے ناراض رہتا تھا۔بعض لوگوں نے بتایا کہ قاتل کا تعلق بریلوی مسلک سے تھا اور پرنسپل صاحب کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے تھا ۔ایک بار پرنسپل صاحب نے کبھی کسی بریلوی عالم کی بھی مخالفت کی تھی جس سے شاید شاگرد ناراض تھا. یہ بھی بات سننے میں آئی کہ استاد نے کسی شعر کی تشریح کی تھی جس کو شاید شاگرد مذہبیات کی توہین سمجھتا ھو. واقعہ کے وقت حاضری کے مسئلہ پر تکرار ہوئی. قاتل نے پستول سے گولیاں چلائیں.جس کی وجہ سے پرنسپل صاحب شدید زخمی ہوا ،اور زخمی حالت میں ان کو پشاور میں ہسپتال لے جار ہے تھے تو راستے میں زخموں کی تاب نہ لا سکا اور فوت ہوگے۔شبقدر میں کافی مذہبی لوگ بشمول جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی رہنما کے جمع تھے جو پرنسپل صاحب کے وفات پہ سخت افسردہ تھے.

اسکے بعد میں چارسدہ آیااور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ظہور آفریدی سے ملا جنہوں نے بتا یا کہ مذکورہ طالب علم فرسٹریشن کا شکار تھا. اور طالب علم نے یہ بھی کہا کہ میں نے first year کسی اور کالج میں پڑھا اور پھر سیکنڈ کیلئے اسی کالج میں داخلہ لیا مگر پرنسپل صاحب کے روز روز ڈانٹنے سے میں بہت تنگ آ چکا تھا جس کی وجہ سے میں نے یہ اقدام کیا ۔طالب علم نے یہ الزام بھی لگایا کہ استاد نے ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہیں کہا، ایک بار ایک صحابی کے بارے میں کہا کہ وہ جہاد پہ اس لئے نہیں گیا کہ وہ بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا . یہ مجھے گستاخی لگ رہی تھی۔جس کیوجہ سے میں راتوں اس پہ سوچتا تھا کہ یہ مقدس ہستیوں کی بے ادبی کرتا ہے. طالب علم یہ بھی کہتا تھا کہ جب گزشتہ ایام میں میں اسلام آباد میں دھرنے پہ گیا تھا تو پرنسپل صاحب نے اس پہ بھی سرزنش کی تھی.چونکہ پرنسپل صاحب کا تعلق دیوبندی جماعت سے تھا ۔اس لئے یہ بھی مجھے اپنے اکابر کی گستاخی معلوم ہو رہی تھی۔ڈی پی او صاحب کا موقف بھی یہی تھا کہ اس واقعے کا براہ راست مذہب سے تعلق نہیں ہے۔اور جس طرح سوشل میڈیا پر یہ خبر توہین رسالت سے نتی کرکے وائرل کیا گیا حقیقت میں ایسا نہیں ہے البتہ مسلکی اختلاف کا تھوڑا سا لنک معلوم ہو رہا ہے۔

اور جہاں تک میں نے اس معاملے کو جانچا اور سمجھا یہ فرقہ وارانہ ذہن سازی کا نتیجہ ہے. اور معاشرے کو اس جھوت سے نجات دینے کیلئے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے.میرا پہلے بھی یہ موقف رہا ہے کہ ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ احساس محرومی کمتری اور مسلکی تعصب اور عدم رواداری ہے جو بلآخر دہشت گردی اور قتل و قتال پر منتج ہوتا ہے۔اگر نچلے سطح پر مسالک کے درمیان سماجی رابطے اور تعلقات بحال کیا جائے تو بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے