دینی مدارس کے حوالے سے حکومتی تضادات

حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت کی طرف سے پنجاب میں ایجو کیٹر ز کی بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہوا،ایجوکیٹر زمیں” عربی اور اسلامیا ت ٹیچرز "کی بھی اسامیاں تھیں اس لیے بجا طور پر دینی مدارس کے فضلاء نے شہادۃ العالمیہ کی بنیاد پر ان اسامیوں کے لیے درخواستیں دینا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ عربی ٹیچرزکے لیے تو دینی مدارس کے فضلاء کی درخواستیں اور اسناد قبول کی جارہی ہیں جبکہ اسلامیات ٹیچرز کے لیے دینی مدارس کے پانچوں مکاتب فکر کے بورڈ ز کے فضلاء کی ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق شدہ اسناد کو مسترد کر کے ان کی درخواستوں کو ناقابل قبول قراردیا جارہاہے ۔اس صورتحال پر ملک بھر میں تشویش واضطراب کی لہر دوڑگئی۔ملک بھر کے مذہبی طبقات بالخصوص علماء کرام جو پہلے ہی حکومتی طرز عمل اور حکومتی پالیسیوں کے سخت ناقد اور متعدد دینی معاملات میں حکومتی اقدامات کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومت سے ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں انہیں ایک اور موقع مل گیا کہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت دینی مدارس اور اہل مدارس کے معاملے میں امتیاز ی رویے ،جانبدارانہ اور معاندانہ طرز عمل اختیار کرتی ہے۔

کچھ لوگ اسے دینی مدارس کے فضلاء کی حوصلہ شکنی قراردے رہے ہیں،کچھ لوگ اسے پنجاب حکومت کی طرف سے دین بیزاری کا اظہار سمجھ رہے ہیں،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پنجاب میں مذہبی حلقوں اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھانے کے سلسلے کی یہ ایک کڑی ہے۔ہماری دانست میں یہ سب خیالات وخدشات اپنی جگہ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ہائیرایجوکیشن کمیشن کی طرف سے شہادۃ العالمیہ کو صرف عربی نہیں بلکہ اسلامیات اور عربی دونوں کے مساوی قراردیاگیا ہے۔اسی ایک سند کو عربی ٹیچرز کے لیے قبول کرنا اور اسلامیات ٹیچرز کے لیے قبول نہ کرنا کھلاتضاد ہے ۔ایچ ای سی کی طرف سے تصدیق کے باوجود عملی طور پر ملازمتوں کے حصول اور مختلف اسامیوں کے لیے سلیکشن کے موقع پر دینی مدارس کی ڈگریوں کو ردی کاغذقرار دینا بیوروکریسی کا ایک ایسا افسوسناک طرز عمل ہے جو محض دین بیزاری ہی نہیں بلکہ قومی اداروں کی توہین اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔یہ تضاد صرف اسلامیات اور عربی میں نہیں بلکہ ہمیں تو آئے روز ایسے تضادات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثال کے طور پراسناد کامعاملہ ہی لے لیجیے ایچ ای سی کی طرف سے شہادۃ العالمیہ کو تو ایم اے اسلامیات اور عربی کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن تحتانی اسناد یعنی عالیہ،خاصہ اور عامہ کو بی اے، ایف اے اور میٹرک کے برابر تسلیم نہیں کیا جاتا گویا کہ دینی مدارس کے فضلاء کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ تم ایک من وزن تو اٹھا سکتے ہو لیکن 20کلو10کلواور5کلو وزن نہیں اٹھاسکتے ۔صرف پنجاب کے ایجوکیٹرز کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ اب اکثر اوقات شہادۃ العالمیہ اور ایچ ای سی کی تصدیق کے باوجود میٹرک سے بی اے تک کی عصری درسگاہوں سے حاصل کی گئی ڈگریوں کا تقاضہ کیا جاتا ہے ۔

یہاں یہ تضاد بھی ملاحظہ ہو کہ ایک طرف کے پی کے کی حکومت علماء کرام کو خطوط لکھ لکھ کر ماہانہ اعزازیہ قبول کرنے کی درخواستیں کررہی ہے اور دوسری طرف پنجاب حکومت خالصتاً ایک ایسا معاملہ جو دینی مدارس کے فضلاء کا حق ہے اس میں بھی مدارس کے فضلاء کے لیے امکانات کے دروازے بند کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔پنجاب حکومت کے اس طرز عمل سے کچھ لوگ یہ بھی سمجھنے پر مجبور ہیں کہ ایسے باصلاحیت فضلاء جو پختہ دینی علوم کے حامل اور اسلامیات میں گہرا رسوخ رکھنے والے ہیں ان کی جگہ ایسے لوگوں کی تقرری کرنا جو برائے نام دینی علوم سے نسبت رکھتے ہیں دراصل نسلِ نو کو دینی تعلیم وتربیت سے ہی محروم رکھنے کے کسی خفیہ منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

واضح رہے کہ تضادات کا یہ سلسلہ صرف ڈگریوں اور تقرریوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمیں ہر معاملے میں حکومتی تضادات کا سامنا کرنا پڑتاہے ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس رجسٹریشن نہیں کروارہے ،غیر رجسٹرڈ مدارس مسائل ومشکلات کی جڑ ہیں ،برسوں کی ریاضت کے باوجود حکومت مدارس کو رجسٹریشن کے نیٹ ورک میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ حکومتی ذمہ داران کو خود معلوم نہیں کہ رجسٹریشن کرنی کیسے ہے؟۔1860ء کا جو سوسائٹی ایکٹ چاروں صوبوں اور وفاقی اسمبلی سے منظور شدہ ہے اسے عضو معطل قرار دے کر نت نئے قوانین لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر ان قوانین کا بھی یہ حال ہے کہ آج تک کسی قانون پر اتفاق نہیں ہوسکا،سینکڑوں مدارس کی درخواستیں معرض التوا ء میں پڑی ہیں ۔کبھی کہا جاتا ہے کہ صرف غیر رجسٹرڈ اور جدید مدارس کی رجسٹریشن کروانی پڑی گی اور کبھی بیک جنبشِ قلم نصف ،نصف صدی سے رجسٹرڈ مدارس کو غیر رجسٹرڈ ڈکلیئرکردیا جاتا ہے ۔

اسی طرح کوائف طلبی کا معاملہ ہے بار ہا اس بات پر اتفاق ہوا کہ کوئی ایک ادارہ ،کوئی ایک دفتر ،کوئی ایک ایجنسی طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اور طے شدہ اوقات میں مدارس سے کوائف طلب کرے گی اور دیگر اداروں کو اگر کوائف کی ضرورت پیش آئے گی تو وہ اسی ایک ادارے سے رجوع کرلیں گے لیکن حال یہ ہے کہ ہر روز ایک نیا ادارہ کوائف لینے آپہنچتا ہے ،ہر روز کسی نئے محکمے کے اہلکاروں کو کوائف طلبی پر مامور کردیاجاتا ہے ،بیسوں دفعہ کوائف دینے کے باوجود ہر نیا آنے والا اس انداز سے دینی مدارس کا رخ کرتا ہے جیسے مار کو پولو کی طرح اس نے آج پہلی دفعہ یہ مدرسہ دریافت کیا ہے اور اس کے بارے میں حکومتی اداروں کے علم میں سرے سے کچھ نہیں ۔۔۔پھر ہر ایک کا فارم الگ ،شقیں الگ،رویے الگ،طریقہ الگ، وردی الگ ،وقت الگ۔۔۔ کسی چیز میں بھی یکسانیت نہیں بلکہ طرفہ تماشہ تو یہ ہوا کہ کچھ عرصہ قبل کے پی کے میں امتحانی بورڈ جو صرف میٹرک یا انٹر سطح کے ملحقہ عصری اداروں کے امتحانات لینے پر مامور ہیں اوراسکولز کی رجسٹریشن اور کوائف طلبی بھی ان کے دائرہ اختیا ر میں نہیں آتی چہ جائے کہ وہ مدارس اور جامعات کی رجسٹریشن کرنے لگیں وہ بھی مدارس کی رجسٹریشن کا بیڑہ اٹھاکر دینی مدارس کی کوائف طلبی کی مہم پر چل نکلے تھے جسے اتحاد تنظیمات مدارس کی قیادت نے اپنی حکمت عملی سے بڑی مشکل سے روکا ۔

اسی طرح زبانی طور پر بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس کا آڈٹ ہونا چاہیے ،مدارس کا مالیاتی سسٹم شفاف ہونا چاہیے ،حکومتی اداروں کو مانیٹرنگ کے مواقع ملنے چاہیں ،غیر ملکی فنڈنگ نہیں ہونی چاہیے لیکن جب اہل مدارس کی طرف سے ان سب باتوں کو تسلیم کرلیا جاتا ہے تو مدارس کو بینکوں میں اکاؤنٹ ہی نہیں کھولنے دیئے جاتے۔ سادی سی بات ہے کہ بینک اکاؤنٹس کے ذریعے مانیٹرنگ بھی ہوسکتی ہے ،آڈٹ بھی ہوسکتا ہے،مالیاتی سسٹم مرتب ومنظم بھی ہوسکتا ہے لیکن دینی مدارس کو بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانے کی پہلی اینٹ ہی نہیں رکھنے دی جاتی تو اس پر مالیاتی نظام کی پوری عمارت کیسے کھڑی کی جاسکتی ہے؟۔۔۔کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کے اڈے اور انتہا پسندی کی نرسریاں ہیں جب دعوت دی جاتی ہے کہ آئیں دیکھیں !کہاں دہشت گردی اور کہاں انتہا پسندی ہے ؟ کسی ادارے کا نام لیں ،کسی کا تعین کریں ،کسی کے خلاف ثبوت پیش کریں تو چپ سادھ لی جاتی ہے صرف چپ ہی نہیں بلکہ کئی سابق وزرائے داخلہ دینی مدارس کو ہر قسم کی دہشت گردی سے لاتعلق ہونے کے بارہا سرٹیفکیٹ دے چکے جن میں سے چودھری شجاعت حسین،عبدالرحمن ملک ،چودھری نثار علی خان بطور خاص قابل ذکر ہیں لیکن پھر بھی کبھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو دینی مدارس کو ہدف بنا لیا جاتا ہے اور مدارس کے خلاف اندھا دھند چھاپے شروع ہو جاتے ہیں ۔

کبھی اس بات کی آفر کی جاتی ہے کہ دینی مدارس حکومتی امداد قبول کریں ،دینی مدارس سرکاری امداد کیوں قبول نہیں کرتے ؟جب مدارس کی انتظامیہ کی طرف سے یوٹیلٹی بلز کی معافی اور بلز پر سبڈی کی صورت میں تعاون کی درخواست کی جاتی ہے تو معافی تو کجا پہلے سے زیادہ بھاری بھر کم بلز بھجوائے جاتے ہیں تا کہ اہل مدارس بلبلا اٹھیں اور مدارس بند کرنے پر مجبور ہوجائیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے این او سی لینا لازمی ہے جب مدارس این او سی کے حصو ل کے لیے جاتے ہیں تو ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے ،کبھی کہا جاتا ہے کہ مدارس دنیا کی سب سے بڑی این جی اوزہیں جنہوں نے لاکھوں بچوں کی تعلیم اور مکمل کفالت کا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور دوسری طرف سے انہی مدارس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے ؟

ان معمولی تضادات کا کیا گلہ؟ یہاں تو حال یہ ہے کہ دینی مدارس کی قیادت ایک حکومت سے طویل مذاکرات کرکے کسی معاہدے اور نتیجے تک پہنچتی ہے تو حکومت تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ معاہدہ سرد خانوں کی نذر ہوجاتا ہے ۔حکومتوں کی تبدیلی کی بھی گاہے ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ہمیں کبھی اطلاع ملتی ہے کہ مدارس کے معاملات وزارت مذہبی امور دیکھے گی ،ہم ابھی وزارت مذہبی امور سے راہ ورسم پیدا کرتے ہی ہیں کہ خبر آتی ہے کہ مدارس کا معاملہ وزارت تعلیم کے سپرد کردیا گیا ہے ہم وزارت تعلیم کی راہداریوں کا رخ کرتے ہیں تو پیغام آتا ہے کہ اب وزارت داخلہ دینی مدارس کو کنٹرول کرے گی پھر صرف وزارت داخلہ پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ کبھی کرائسس منیجمنٹ سیل،کبھی نیکٹا اور کبھی مشیر قومی سلامتی کو مدارس دینیہ کا اَن داتا قرار دیا جاتا ہے۔۔۔الغرض تذبذب اور تردد ہے۔۔۔گو مگو کی کیفیت ہے ۔۔۔ابہام کے اندھیرے ہیں ۔۔۔تضادات کی گھمن گھیریاں ہیں ۔۔۔ایسے میں کوئی تو بتائے کہ دینی مدارس آخر کریں تو کیا کریں؟ جائیں تو کہاں جائیں ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے