تحریکِ بے توقیری سیاست

2001ء سے2010ء کا عشرہ جہاں پرویز مشرف کی سیاہ کاریوں کا عشرہ تھا اور دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کو دہشتستان میں بدل دیا ، وہاں اس عشرے میں پاکستان بعض حوالوں سے مثبت سمت میں بھی آگے بڑھا۔ یہی عشرہ تھا جس میں وکلا تحریک کے نتیجے میں عدلیہ کی عزت بحال ہوئی اور وہ ایک مضبوط اور طاقتور ادارے کے طور پر سامنے آئی۔

اسی طرح نجی الیکٹرانک چینلز کے منظر عام پر آنے اور پھر وکلا تحریک میں ان کے فعال کردار کی وجہ سے میڈیا کی عزت اور اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ۔ اسی طرح میثاق جمہوریت اور پھر عدلیہ بحالی کے لئے سیاستدانوں کی یکجائی کی وجہ سے اس طبقے کی قدرومنزلت میں بھی اس قدر اضافہ ہوا کہ آصف علی زرداری جیسے سیاستدان کو بھی ’’مردحر‘‘ کا خطاب ملنے لگا اور میاں نوازشریف جیسے سیاستدان کے بارے میں بھی یہ حسن ظن عام ہوگیا کہ اگلی بار مقتدر بننے کے بعدوہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے ۔

لیکن بدقسمتی سے مثبت جانب اس سفر کا دورانیہ بہت مختصر ثابت ہوا اور کچھ عرصہ سے تمام سول ادارے بڑی تیزی کے ساتھ غیرموثر اور بے توقیر ہوتے جارہے ہیں ۔ پہلا نشانہ میڈیا بنا۔ چھتری سے پراسرار اینکرز اور ٹی وی چینلز میدان میں اتارے گئے ۔ کسی کو تشدد سے ، کسی کو خوف کے ذریعے اور کسی کو لالچ کے ذریعے تبدیل کیا گیا ۔ پھر میڈیا کو بڑے کمال کے ساتھ دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک چینل دوسرے چینل کو بے عزت کرنے لگا ، ایک اینکر دوسرے کی پگڑی اچھالنے لگا اور ایک کالم نگار دوسرے پر کیچڑ پھینکےلگا ۔

میاں نوازشریف کی حکومت کی طرف سے صحافیوں کو سرکاری عہدے دینے کے عمل نے بھی میڈیا کو بے توقیر کرنے کا عمل تیزتر بنایا جبکہ رہی سہی کسر عمران خان صاحب نے میڈیا کی تقسیم اور تحقیر کے عمل میں مہرے کا کردار ادا کرکے پورا کی۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اخبار جس کی سنگل کالمی خبر سے قیامت برپا ہوتی تھی، اب اس کی لیڈاسٹوریز کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔

وہ ٹی وی چینلز جو سچ اور حق کے علمبردار سمجھے جاتے تھے ، غدار کے القابات سے یاد کئے جانے لگے اور وہ ٹی وی اینکرز کہ لوگ جن کے ہاتھ چومتے تھے ، آج مشہور ہوکر بھی نفرت اور تحقیر کی علامت بن گئے ہیں ۔افسوس کہ پاکستان میں ظرف کی کمی ہے ۔ چنانچہ پیسہ اور اہمیت مل جانے کی وجہ سے بعض میڈیا مالکان آپے سے باہر ہوگئے ۔ دوسری طرف وہاں بعض اینکر پرسنز اور کالم نگار بھی دولت، عزت اور شہرت مل جانے کی وجہ سے حدود پھلانگ کر جج، مفتی اور سیاستدان بننے کی کوشش کرنے لگے ۔

چنانچہ آج میڈیا بے توقیری کی جن اتھاہ گہرائیوں میں گر گیا ہے ، اس کا سب سے بڑا ذمہ دار بھی خود میڈیا ہی ہے ۔

بدقسمتی سے عزت اورا ہمیت مل جانے کے بعد عدلیہ سے وابستہ بعض شخصیات نے بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کو بحالی کے بعد جو طاقت ہاتھ آگئی تھی، اس کی مثال نہیں ملتی ۔

شہرت تو ان کو عالمی سطح پر مل گئی تھی جبکہ پوری وکلابرادری اور قوم کا غالب حصہ ان کی پشت پر تھا لیکن اس مقام و مرتبہ کو انصاف کے نظام کی تشکیل کے لئے استعمال کرنے کی بجائے انہوں نے اور ان کے بعض ساتھیوں نے ذاتی حساب برابر کرنے کے لئے استعمال کیا۔ وہ جج کم اور سیاستدان زیادہ نظر آئے اور انتظامیہ کو اپنے قدموں میں بٹھانے پر مجبور کرتے رہے ۔

دوسری طرف ان کی شہہ پربعض وکلا نے ایسی بدمعاشیاں شروع کردیں کہ وہ قانون دان کم اور غنڈے زیادہ دکھائی دینے لگے ۔ ایک طرف عدلیہ اور وکلا اس عمل کے ذریعے خود اپنے پائوں پر کلہاڑا چلاتے رہے تو دوسری طرف اسے متنازع اور بے توقیر کرنے کے لئے وہ نسخہ استعمال کیا گیا جو عالمی سطح پر کارگر ثابت ہوا ہے ۔ کچھ عدلیہ نے خود سیاسی معاملات اٹھالئے اور کچھ اس کے اوپر لاد دئیے گئے ۔

اب جب بھی کوئی عدالت سیاسی معاملات نمٹانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا متنازع ہوجانا اٹل ہوا کرتا ہے ۔ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اورمیمو گیٹ جیسے مقدمات سے اس عمل کا آغاز ہوا تھا جبکہ پانامہ کیس نے اسے عروج تک پہنچایا ۔ چنانچہ آج عدلیہ اس قدر متنازع بن گئی کہ اس کے خلاف تقاریر روز کا معمول ہیں جبکہ اس کے جواب میں جج صاحبان کو روز اپنی صفائیاں دینی پڑ رہی ہیں۔

بدقسمتی سے سیاست کو بے توقیر کرنے کے عمل کا آغاز بھی خود سیاستدانوں کے ہاتھوں ہوا ۔ ’’مرد حر‘‘ آصف علی زرداری کو موقع ملا تو گڈگورننس کی بجائے انہوں نے قوم کو قائم علی شاہ اور رئیسانی جیسے تحائف دئیے۔

کرپشن اور بدترین حکمرانی کی ایسی بھیانک تاریخ رقم ہوئی کہ پیپلز پارٹی پہلی مرتبہ عوام کے ذہنوں سے اتر گئی ۔ میاں نوازشریف کو موقع ملا تو وہ پہلے سے زیادہ شاہانہ طبیعت کے مالک نظر آئے ۔ زرداری نے اپنی پارٹی کو سندھ تک محدود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو میاں نوازشریف نے مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کو وسطی پنجاب کی حکمرانی میں بدل ڈالا۔ سی پیک جیسے منصوبے کو بھی ذاتی اور علاقائی مقاصد کے لئے استعمال کرکے متنازع بنایا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گڈ گورننس پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے انہوں نے اداروں سے جھگڑے مول لینا شروع کئے چنانچہ ان کے خلاف میڈیا اور عدلیہ کو متحرک کرکے عمران خان کو میدان میں اتارا گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے بارے میں پہلے سے بدعنوان ہونے کا تاثر مشہور تھا۔

اب مسلم لیگی قیادت کے بارے میں بھی یہ تاثر باور کرایا گیا جبکہ عمران خان لیڈر کی بجائے ایک ایسی سلیبرٹی رہ گئے جنہیں طاہرالقادری کی طرح بوقت ضرورت کسی بھی وقت، کسی بھی مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔سیاست کی بے توقیری کے اس عمل میں خود ان سیاستدانوں کا حصہ سب سے زیادہ ہے لیکن بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ایک منظم منصوبے کے تحت سیاست کو بے توقیر کیا جارہا ہے۔مقبولیت اپنی جگہ لیکن جب اپنی حکومت میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ کرپشن کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے روزانہ عدالتوں میں پیش ہو ں تو اس نوازشریف کی کیا عزت رہ جائے گی ۔ بے شک مقبولیت آسمان پر پہنچ جائے لیکن جو عمران خان طاہر القادری کی امامت میں آصف علی زرداری کے ساتھ ایک اسٹیج پر خطاب کرنے لگ جائیں تو اسے کیوں کر تبدیلی کی علامت سمجھا جائے گا۔

خان صاحب اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہے ہیں کہ جس سے مستعفی ہونے کے اعلانات کرکے بھی مستعفی ہونے کی جرات نہیں کرسکتے ۔ اب لعنت کی مستحق پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیا قوم خود ان پر لعنت نہیں بھیجے گی ۔ ان کی چالاکیاں اور سیاسی چالیں بھلا کتنے کمال کی کیوں نہ ہوں لیکن جو آصف علی زرداری قمرزمان کائرہ کو ساتھ لے کر طاہرالقادری کی قدم بوسی پر مجبور ہوجائیں، اسے قوم کیوں کر سیاسی لیڈر تسلیم کرے گی۔

اسی طرح جو مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار ، پی ٹی آئی کے ایک مقامی عہدیدار کی موجودگی میں بیٹھ کر انضمام کی دستاویزات تیار کریں ، وہ کیسے مہاجروں کی نظروں میں وہ مقام اور مرتبہ حاصل کرسکیں گے جو لیڈروں کو حاصل ہوتا ہے ۔ رہے مولانا فضل الرحمان اور جناب سراج الحق تو وہ تو خود اپنے لئے کافی ہیں ۔ اول الذکر میاں نوازشریف کی حکومت کا حصہ ہیں اور ثانی الذکر عمران خان کی حکومت کا ۔ دونوں پر اقتدار پرستی کا جذبہ اس قدر حاوی ہے کہ نہ ایک چند ماہ کا اقتدار چھوڑنے کی قربانی دے سکتے ہیں اورنہ دوسرے ۔

اوپر سے ایم ایم اے بنا کر قوم کے سامنے یہ جھوٹا دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ اسلام کی خاطر اکٹھے ہورہے ہیں ۔ اب قوم انہیں کیوں کر مذہبی لیڈر مان سکتی ہے کہ جن میں ایک ایک حکومت کے ساتھ اور دوسرے دوسری حکومت کے ساتھ بیٹھے ہیں اور اگلے سیٹ اپ میں چند سیٹیں اور چند وزارتیں سمیٹنے کے لئے ایم ایم اے بنا کر قوم کے سامنے اسلام اسلام کا ورد کررہے ہیں۔ تبھی تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان دنوں اس ملک میں ایک ہی تحریک زوروں پر ہے اور اس تحریک کے لئے شاید مناسب نام ہے تحریک ِبے توقیری سیاست۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے