نئے زمانے کا کھوجی

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جدید پنجاب کی تاریخ میں چوہدری پرویز الٰہی کی چار سالہ وزارتِ اعلیٰ کے بارے میں مورخ کیا طے کرے گا۔ تاہم یہ طے ہے کہ اگر تاریخ میں ڈیڑھ سطر جگہ بھی ملی تو شاید وہ یہ ہو کہ ’’پرویز الٰہی حکومت کے دور میں ریسکیو ون ون ٹو ٹو قائم ہوئی اور پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی ایکٹ نافذ ہوا‘‘ ۔

مزید بہتر بات یہ ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے دونوں منصوبوں کو پچھلی حکومت کے چونچلے قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا بلکہ آگے بڑھایا اور تین برس کے اندر ٹھوکر نیاز بیگ میں پنجاب فورنزک سائنس لیب تریپن کنال میں کھڑی کر دی، جہاں چار سو سے زائد ماہرین وہ کام کر رہے ہیں جو ہر اس حکومت کے کام آئے گا جو پاکستان کو جرائم سے پاک معاشرے میں تبدیل کرنا چاہے لیکن اس راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں ہیں۔

پہلی بنیادی رکاوٹ کسی نئی شے کو ٹھوک بجا کر پرکھے بغیر مسترد کرنا ہے۔ مفید اشیا تو کسی نہ کسی طور ہاتھ آ جاتی ہیں مگر انسانی ذہن بدلنے میں خاصی دیر لگتی ہے۔ وہ بھی ایسا ذہن جو خامیوں خرابیوں سمیت باپ دادا کی محبت میں ہر کہنہ شے اور روایت و رواج کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور ہر نئی شے یا نظریے کی ماہیت و اسباب سمجھے بغیر ایک اور تازہ سازش اور خطرہ سمجھتا ہے۔

بالخصوص اگر اس شے یا نظریے کا براہ راست یا بلا واسطہ تعلق مغرب سے ثابت ہو جائے تو فوائد کھوجنے کی لگن سے پہلے نگاہ اس کے نقصانات پر پڑتی ہے۔ رفتہ رفتہ مجبوری میں اسے اپنا بھی لیا جاتا ہے مگر مانوس ہونے کے بعد اسے ایسے برتا جاتا ہے گویا یہ شے تو ہمیشہ سے ہمارے باپ دادا کی میراث تھی۔

جب سر سید احمد خان نے انگریزی تعلیم متعارف کرنے پر زور دیا تو انھیں جوتے دکھائے گئے اور ملحد قرار دیا گیا۔ آج انھی جوتے دکھانے اور ملحد قرار دینے والوں کی چوتھی پانچویں پیڑھی سانس بھی انگریزی میں لیتی ہے اور یہ تصور رکھنے والے کی دماغی حالت پر سوال بھی اٹھاتی ہے کہ انگریزی تعلیم دراصل ایمان کی ضد ہے۔

آپ نے سنا تو ہوگا جب لاؤڈ اسپیکر متعارف ہوا تو تصور یہ تھا کہ یہ فرنگیوں کا بنایا ہوا شیطانی آلہ ہے۔ آج اسی لاؤڈ اسپیکر کا جس قدر بے دریغ، منفی استعمال ہو رہا ہے، جتنی خیر پھیلائی جا رہی ہے اس سے کہیں زیادہ شر پھیلانے کا کام لیا جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے اکثر لگتا ہے کہ ہمارے پرکھے کتنے مستقبل بین تھے کہ انھوں نے سو برس پہلے ہی تاڑ لیا تھا کہ یہ شیطانی آلہ ہے۔

کچھ ایسی ہی بپتا کیمرے پر گزری۔ متعارف ہوتے ہی اس کے حرامی حلالی ہونے کی بحث چل نکلی۔ مجھے والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب انھوں نے انیس سو باسٹھ میں رحیم یار خان میں فوٹو اسٹوڈیو کھولا تو کئی بہی خواہوں نے مشورہ دیا کہ حافظ صاحب کم ازکم اپنی اولاد کو تو فوٹو گرافی کی کمائی کا لقمہِ حرام نہ کھلائیں۔ حافظ صاحب ان باتوں کے جواب میں ہلکے سے مسکرا دیا کرتے تھے۔ اور پھر یہی بہی خواہ جب پاسپورٹ یا بعد میں بھٹو صاحب کے قومی شناختی کارڈ بنوانے کی مجبوری سے دوچار ہوتے تو حافظ صاحب ہی ان بہی خواہوں کی مشکل آسان کرتے۔

آج نظریہِ تصویر کشی کی یہ صورت ہے کہ نوشہرہ میں گزشتہ برس جب جمیعت علمائے اسلام کے صد سالہ کنونشن کے موقع پر سرکردہ صحافی سلیم صافی نے میزبان حضرت فضل الرحمان صاحب سے یہ ٹیڑھا سوال کر دیا کہ یہ جو کنونشن میں سب مندوب ایک دوسرے کی سیلفیاں لے رہے ہیں اور میڈیا بھی مسلسل فوٹیج بنا رہا ہے اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

تس پر حضرت صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ انسانی شکل کی مصوری جائز نہیں البتہ کیمرے کی تصویر پر ہنوز بحث جاری ہے اور یہ طے نہیں کہ اسے مصوری کے خانے میں رکھا جائے یا جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اس کے ہو بہو عکس کے طور پر دیکھا جائے۔ جب تک یہ مخمصہ متفق علیہہ حل نہیں ہوتا تب تک جو تصویر کھچوا رہا ہے اسے کچھوانے دیں۔

اب تو یوں ہے کہ اگر کسی جگہ میڈیا چوک جائے تو زعما خود فون کر دیتے ہیں کہ بھئی اب تک آپ کی کیمرہ ٹیم نہیں پہنچی ہم تقریب، جلسہ یا پریس کانفرنس یا مظاہرہ کب شروع کریں۔ اور اگر تب تک بھی نہ پہنچے تو پھر چینل کے دفتر پر پتھراؤ یا گھیراؤ بھی کچھ عجب نہیں لگتا۔
یہی حال مغربی تصورِ جمہوریت کا ہے۔ جب نیا نیا متعارف ہوا تو کچھ ایسا کہا جاتا تھا کہ ’’جمہوریت اک طرزِِ حکومت ہے کہ جس میں، بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ ۔ مگر آج بحث کا رخ کم ازکم اس جانب تو چل ہی پڑا ہے کہ ہاں جمہوریت ہماری ضرورت ہے مگر کونسی والی ؟ مغربی سیکولر جمہوریت، عوامی جمہوریت یاپھر اسلامی جمہوریت؟

کچھ یہی گفتگو فورینزک سائنس اور ڈی این اے سیمپلنگ کے تازہ تازہ متعارف تصور کے بارے میں بھی چھڑی ہوئی ہے۔ حالانکہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ تفتیشی و عدالتی نظام فرسودگی کی حد سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ حصولِ انصاف کے سفر میں خلقِ خدا کے جوتے چھوڑ تلوے تک گھس جاتے ہیں۔ ایک نسل قتل، اغوا، ریپ، ڈکیتی یا چوری کا پرچہ کٹواتی ہے اور دوسری یا تیسری نسل اگر خوش قسمت ہوئی تو اس مقدمے کا حتمی فیصلہ دیکھ پاتی ہے۔

اس پر بھی اتفاقِ رائے ہے کہ پولیس کا نہ صرف ڈھانچہ بلکہ اس ڈھانچے کا تفتیشی نظام بہت پہلے ایکسپائر ہو چکا۔ تھانے کا کوئی فطین محرر اچھی بھلی مضبوط ایف آئی آر میں ایک جملہ ایسا بھی ڈال سکتا ہے جو پورے مقدمے کا دھڑن تختہ کر دے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ انسانی گواہی پر کھڑا عدالتی نظام مدت سے کسی بھی مقدمے میں کسی صادق اور امین گواہ کو ترس رہا ہے۔ جھوٹی گواہیاں درکار ہوں تو بفضلِ وکلا و ٹاؤٹ حضرات ترازو بھرکے دستیاب ہیں۔ کوئی عدالت یقین سے کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ اس کے روبرو جو حقائق رکھے جا رہے ہیں ان میں جھوٹ اور سچ کا تناسب کیا ہے اور کٹہرے میں کھڑا شخص واقعی مجرم ہے یا بنایا گیا مجرم ہے۔

اس کے باوجود عدلیہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے نتائج کہ جن میں غلطی کا احتمال اعشاریہ زیرو ایک فیصد سے زیادہ نہیں بطور بنیادی گواہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان نے فورینزک لیب کا دورہ کیے بغیر اور فورینزک سائنس کے حقیقی فوائد و نقصانات پر تعلیمی بریفنگ لیے بغیر یہ رائے دے دی کہ ڈی این اے سیمپلنگ کے نتائج کو انسانی گواہی سے بالا یا اس کے برابر درجہ نہیں دیا جا سکتا۔

مگر زینب قتل کیس کا مجرم جس طرح ڈی این اے پروفائلنگ کی مدد سے پکڑا گیا ہے اس نے اس سائنسی نعمت کی اہمیت کے بارے میں پہلی بار عوامی سطح پر ایک بھرپور بحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ نوتشکیل اسلامی نظریاتی کونسل زینب قتل کیس کی روشنی میں گزشتہ کونسل کی رائے کا ازسرِ نو جائزہ لے اور پارلیمنٹ ڈی این اے پروفائلنگ کا قومی بینک قائم کرنے اور اس پروفائلنگ کو سنگین جرائم کی تفتیش کا لازمی حصہ بنانے اور جہاں چشم دید گواہ دستیاب نہ ہوں وہاں ڈی این اے پروفائلنگ کے نتائج کو بنیادی گواہ بنانے کے لیے ضروری قانون سازی کرے تاکہ انصاف کے حصول میں کرپشن اور انسانی غلطیوں اور غفلتوں کا تناسب کم سے کم ہو سکے۔ صرف یہ نعرہ لگا دینا کہ مجرم کو چوک پر پھانسی دی جائے لوگوں کی وقتی جذباتی تشفی تو کر سکتا ہے مگر اس طرح کی نوٹنکیوں سے مرض کا بنیادی علاج ممکن نہیں۔

مجھے یقین ہے کہ حصولِ انصاف میں مدد دینے کے جدید طریقے اپنانے پر بالاخر وقت ہمیں مجبور کر دے گا۔ لیکن اگر یہ کام کل پر چھوڑنے کے بجائے آج ہی کر لیا جائے تو سوچیے کتنے بے گناہ قیدیوں کی جان بچ سکتی ہے اور کتنے کھلے گھوم رہے گناہ گار اپنے کیے کی سزا پا سکتے ہیں۔

کیا یہ مثال کافی نہیں کہ امریکا میں انیس سو اٹہتر سے اب تک لگ بھگ چار سو ایسے مجرم ڈی این اے پروفائلنگ کے سبب چھوٹ گئے جو مجرم تھے ہی نہیں اور لاہور کی فورینزک لیب نے اس ایجاد کے سبب انیس سو اٹھاون میں ہونے والے ایک قتل کا کیس بھی حل کر لیا۔ جب کہ قصور کا شہری مدثر ایک بچی کو قتل کرنے کے شبہے میں گزشتہ فروری میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ ایک برس بعد ڈی این اے پروفائلنگ سے پتہ چلا کہ آٹھ بچیوں کا قاتل تو کوئی عمران ارشد ہے۔

ہم سب کو آج کے پیچیدہ، چالباز اور اخلاقی دیوالیہ دور میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح پچھلے زمانے میں کھوجی پیروں کے نشانات دیکھتے سونگھتے مجرم کی چوکھٹ پر پہنچ جایا کرتے تھے اسی طرح ڈی این اے پروفائلنگ کی سائنس آج کی کھوجی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے