یہ ‘مِرچی’ آخر لگتی کیوں ہے؟

انگریزی میں جسے (chili pepper) اور اردو میں جسے مرچ کہا جاتا ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں باورچی خانے میں کوئی مصالحہ ہو نہ ہو مرچ ضرور میسر ہوتی ہے کیونکہ ہماری زبانوں کو اس کاایسا چسکا لگ چکا ہے کہ کھانا اس کے بغیر حلق سے اتر ہی نہیں سکتا ۔

مرچ کے دیگر نام سبز مرچ ، سرخ مرچ لال مرچ ، کالی مرچ ، مرچی پودوں کی جنس شملہ مرچ سے تعلق رکھنے والا ایک پھل ہے مرچ کی ابتدا امریکن سے ہوئی ۔کولمبین تبادلے کے بعد کی کاشتکاروں نے اسے پوری دنیا میں پھیلا دیا مرچ کم از کم 7500قبل مسیح لے کر امریکن میں انسانی خوراک کا ایک حصہ رہی کرسٹو فر کولمبکس وہ پہلا یورپی تھا جس نے مرچ کا سامنا کیا جبکہ اب پوری دنیا اس کا سامنا کررہی ہے ۔ کھانے اور بلاشبہ باتوں کی صورت میں کیونکہ ہم کھانے سے زیادہ اپنی گفتگو میں اس کا استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق بھارت دنیا کا سب سے بڑا مرچ پیدا کرنے والا صارف اور برآمد کنندہ ہے ہندوستان و پاکستان میں لال مرچوں کا استعمال اس قدر عام ہے کہ ہر گھر میں سالن اور بریانی کے ساتھ مصالحہ کے طور پر بہ افراط کھائی جاتی ہے ۔

دنیا کے دیگر ممالک یورپ ، امریکہ ، شام ترکی وغیرہ میں لال مرچ کھانے سے اجتناب کیاجاتا ہے، بہت سی تند خو اقوام بھی اس کے استعمال سے گریز کرتی ہیں ۔دنیا میں مختلف اقسام کی مرچیں پائی جاتی ہیں، جن سے شملہ مرچ کافی مقبول تصور کی جاتی ہے یہ مختلف رنگوں میں بازار میں دستیاب ہوتی ہے لال ، پیلی ، سبز ، جامنی اس کے علاوہ باریک مرچیں جو عموما اچار ڈالنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ جنگی مرچیں روزمرہ کے کھانوں میں استعمال کی جاتی ہیں کھانے میں مرچیں نہ ہوں تو لطف نہیں آتا اور باتوں میں مرچیں ہو تو سامنے والے کا بلڈ پریشر باآسانی ہائی ہوجاتا ہے ۔

بعض اوقات کچھ کہے بغیر بھی دوسروں کو مرچیں لگ جاتی ہیں جیسے اگر بہو بہت اچھی ہو تو شوہر کا خاص خیال رکھے تو ساس کو مرچیں لگ جاتی ہیں اسی طرح بیوی تین چار گھنٹے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر تیار ہو شوہر بے چارہ اس کی تعریف میں دو بول نہ بولے تو بیوی کو مرچیں لگ جاتی ہیں ۔اگر بیوی لذیذ کھانا بنائے اورشوہر سے اس میں سے کوئی خامی نکال دے تو پھر بیوی کو مرچیں لگ جاتی ہیں بعض روزمرہ کی زندگی میں ہم نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں کو مرچیں لگادیتے ہیں ۔

کچھ لوگ ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ اپنے الفاظ کے ساتھ ساتھ سامنے والے کے منہ پر مرچوں کا چھنٹا بھی مار دیتے ہیں ۔بعض لوگوں میں اتنی بری عادت کہہ لیں یا بیماری پائی جاتی ہے کہ جہاں بیٹھتے ہیں ایسی بات کرکے اٹھتے ہیں کہ دو افراد آپس میں گتھم گتھا ہوجاتے ہیں جس کی روشن مثال آج کل ہمارے اینکر پرسن ہیں جو اپنے پروگرام میں بااثر گفتگو تو دور کی بات ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ ان کے پروگرام میں موجود مہمان ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے پر آجاتے ہیں ۔

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ہمارے حکمران بھی کسی سے کم نہیں ایک دوسرے پر بے جا الزام تراشی کی سیاست کرتے ہیں تو ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس سے ان کے حریف کے پورے بدن میں مرچیں لگ گئی ہوں ۔

جس طرح کھانوں میں مرچوں کی مقدار کو بیلنس رکھنا ایک فن ہے اسی طرح عملی زندگی میں بھی دوران گفتگو مرچوں کا استعمال متوازن فن ہے اس طرح عملی زندگی میں بھی دوران گفتگو مرچوں کا استعمال متوازن طریقے سے کیا جائے تو سننے والے کو لطف آتا ہے اور بات زیادہ چٹ پٹ ہو جاتی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی گفتگو میں زیادہ شیریں الفاظ کا استعمال کریں کیونکہ زبان کی مٹھاس انسان کو امتیاز کرتی ہے اور لوگ اس کیاایسے گرویدہ ہوتے ہیں جیسے شہید پر مکھیاں اور دوسری طرف کڑوے جلے کٹے الفاظ انسان کو اپنوں سے کوسوں دور کردیتے ہیں ۔

لہذا ہمیں ایسی گفتگو سے پرہیز کرنی چاہئے جو لوگوں کے درمیان فاصلے پیدا کریں ایسی باتوں سے اجتناب ضروری ہے جو دوسرے کے تن بدن میں آگ لگا دے ۔شیریں الفاظ نرم گفتگو اور زبان کی مٹھاس وہ ہتھیار ہیں جس سے ہم دوسروں کے دل جیت سکتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے