نہال ہاشمی کواور مارو

اسے اور مارو۔ یہ ہے ہی اسی قابل۔ تم بھی مارو، میں بھی اسے مارنا چاہتا ہوں۔ ہر راہ گیر کو چاہئے، اس کو پتھر مارے۔ سودائی، اسی سلوک کے تو مستحق ہوتے ہیں۔ یہ مڈل کلاسیا وکیل سینیٹر کیا بنا اپنی اوقات ہی بھول گیا۔ بڑے چھوٹے کا فرق ہی کرناچھوڑ دیا۔ طاقتور اور کمزور کی پہچان کھو بیٹھا۔ اور تو اور مقدس ترین اداروں کے بارے میں گستاخیاں کرنے لگا۔ تضادستان کے ججوں اور جرنیلوں کی طاقت اور احترام کو فراموش کربیٹھا۔ ایسے جنونی کا یہی انجام ہونا تھا اسے مارو، اور مارو، سب مل کر مارو!

اسے توہین کی سزا تو ملنی ہی تھی، حماقت کی سزا بھی ملی۔ یہ د یوانہ توقع کر بیٹھا تھا کہ ججوں کے خلاف تقریر کرکے پارٹی کی مدد حاصل کرلے گا مگر پارٹی نے تو دو دن میں ہی اسے فارغ کردیا۔ اس کا ساتھ کیا دینا تھا اسے الگ کرکے اکیلا چھوڑ دیا۔ یہ پاگل سوچتا تھا کہ وہ اہل سیاست کے حق میں بات کرکے ان کی حمایت حاصل کرلے گا اور اہل سیاست کو ووٹ دینے والے عوام اس کا ساتھ دیں گے لیکن دیوانوں کا ساتھ کون دیتا ہے؟ اس ملک کے عوام، سیاسی جماعتیں، ادارے سب سیانے ہیں۔ پاگل ہیں مگر چند اور وہ بھی نہال ہاشمی جیسے۔ ان کا انجام یہی ہونا چاہئے انہیں مارو، اور مارو، سب مل کرمارو۔

نہال ہاشمی کے ساتھ جوہوا اور جو ہو رہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس طرح کے دیوانوں کا ہمیشہ سے یہی حشر ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہی حشر ہوتا رہے گا۔ لبنانی صحافی امین معلوف نے اپنی مشہور کتاب ’’ثمرقند‘‘ میں لکھا ہے ’’جب بادشاہ ابو المنصور، مشہور فلاسفر ابن رُشد کے خلاف ہوا تو فلسفے پر ہی پوری ریاست میں پابندی لگادی اور ابن رُشد کو جلاوطن کردیا۔ ابن رُشد جہاں جاتا تھا وہاں کے سرکاری کوتوال اور سرکاری جج اس کو پہچان کرکے عوام سے اس کو سرعام جوتے لگواتے اور’’نہال‘‘ ہوتے۔ آج ابن رُشد کے نام پر سپین میں یادگاریں قائم ہیں مگر اس کے اپنے زمانے میں اس کو نہال ہاشمی کی طرح جوتے کھانے پڑے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ حسین بن منصور حلّاج بھی دیوانہ تھا، وہ بھی اسی سلوک کا مستحق ٹھہرا۔ وحدت الوجود کا نعرہ انا الحق کیا لگایا، منصف اور کوتوال سب نے ڈنڈے اور پتھر اٹھالئے، عوام بھی شریک کار تھے۔ اس کو پتھر مار مار کر سنگ سار کردیا۔ مخدوم بلاول سمّوں بھی ایسا ہی تھا، اس کا انجام بھی ویسا ہی ہوا۔ کیاملّا اور کیا منصف اور کیا کوتوال سب نے مل کر مخدوم بلاول کو کافر قرار دیا اور اسے چکی کے دوپاٹوں میں ڈال کر پیس دیا گیا۔ حلّاج، ابن رُشد اور بلاول کو بالکل درست سزا ملی۔ نہال ہاشمی کے ساتھ بھی ٹھیک ہوا مگر اسے سزا کم ملی ہے، اتنی بڑی توہین، اتنی بڑی غلطی اور اتنی کم سزا۔ اسے یا تو تختہ دار پر چڑھائیں یا پھر سرعام سنگسار کریں تاکہ آئندہ کوئی توہین نہ کرسکے۔
نہال ہاشمی کو میں زیادہ قریب سے نہیں جانتا مگر مجھے یہ یقین ہے کہ وہ بہت ہی احمق تھا۔ وہ سمجھا کہ اگر علمائے کرام توہین کرکے سرعام سینہ پھلا کر چل سکتے ہیں، سیاستدان چمک کے الزام عائد کرکے آزاد رہ سکتے ہیں، جنرل اسلم بیگ عدلیہ کو پیغام بھیج کر صاف بچ سکتے ہیں تو وہ بھی بچ جائے گا مگر اس کو اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ نہ تھا۔ اشرافیہ ایک دوسرے پر الزام لگائے تو خیر۔ ان میں بالآخر صلح ہو جاتی ہے۔ مڈل کلاس اورلوئر کلاس کے نہال ہاشمی کی یہ جرأت؟ اس کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے تھا۔ اسے اور مارو، تم بھی مارو، میں بھی اسے مارناچاہتاہوں…..

نہال ہاشمی مجنوں ہے، دیوانہ ہے۔ اپنے قدوقامت کا صحیح انداہ نہ لگا سکا اوروہ اپنا چھوٹا قد بڑاکرنے کی خاطر، ’’ن‘‘ میںاپنی اہمیت بڑھانے کے لئے دھمکیوں پر اتر آیا حالانکہ کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربہ، یہ دھمکیاں صرف اورصرف گیدڑ بھبھکیاں تھیں اور وہ جو عیار ہوتے ہیں، چالاک ہوتے ہیں، طاقتور ہوتے ہیں وہ دھمکیاں نہیں دیتے، تقریریں نہیں کرتے۔ وہ عدلیہ سے آئین کی بجائے پی سی او پر سزا لیتے رہے، ججوںکو نظر بند کرتے رہے اور اگر ان سے خوش ہوتے تو انہیں گورنری سے نوازتے رہے۔ وزارتوں کے قلمدان سونپتے اور سینٹ کے ممبر بناتے رہے۔ وہ عقل مند تھے عدلیہ کا نقصان کرکے بھی آزاد رہے مگر نہال ہاشمی تو دیوانہ ہے جس کی گیدڑ بھبھکیاں اس کے گلے کا پھندا بن گئیں۔ اسے مارو، اورمارو، تم بھی مارو اورمیں بھی ماروں۔ سب مل کر مارو۔

آج کل تو دور ہے کہ لاٹھی اٹھائو، نیزہ اٹھائو، دھرنا دو، آگ لگائو، حکومت گرائو، کیا طاقت ور اور کیا کمزور؟ کیا منصف اورکیا مدعی؟ سب ایک بات پر متفق ہیں کہ سیاستدان ناکام ہیں، کرپٹ ہیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح انجام کو پہنچانا ہے۔ اب ایسے دور میں نہال ہاشمی کی آواز کوئی پاگل ہی سنے گا۔ اسی لئے سب نے مناسب جانا کہ اس پاگل کو اکیلا چھوڑ دو، اسے اکیلے ہی مرنے دو۔ اسے سب مل کر مارو۔ یہ دیوانہ کہاں سیانوں کی دنیا میں آگیا۔ اسے بالکل صحیح سزا دی گئی ہے۔ اسے اورمارو!!

تضادستان میں تحریر و تقریر کی مکمل آزادی ہے۔ اہل سیاست کو جتنی مرضی گالیاں دو کسی کی توہین نہیں ہوتی، اہل صحافت میں جس پر جو مرضی الزام لگائو اس پر کسی کی گرفت نہیں ہوتی، افسرشاہی پر جتنا بڑا مالیاتی اسکینڈل ڈال دو، وہ غلط ہو یا صحیح، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ تاجروں اور صنعتکاروں پرکرپشن اور ہیرا پھیری کا جوبھی سوال کھڑا کر دو وہ سچا ہو یا جھوٹا، کوئی باز پرس نہیں۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ یہ سارے شعبے نکمے، نالائق، کرپٹ، کمزور اور قابل تعزیر ہیں ہاں البتہ آئین ِپاکستان نے عدلیہ اور فوج کو مقدس ادارے قرار دیاہے۔ اس لئے نہال ہاشمی نے ان پر تنقید کرکے خود غیظ و غضب کو دعوت دی ہے۔ کاش وہ سیاست، صحافت یا تجارت سے وابستہ کسی بھی موضوع پر بات کرتا تو کوئی بھی اس کابال تک بیکا نہ کرسکتا۔ نہال ہاشمی بالکل ہی بے وقوف ہے نہ زمانے کی چال سمجھتا ہے نہ موسم کی صورتحال ۔ اپنی ہانکتا رہا۔ سو وہی نتیجہ نکلنا تھا جونکلا۔ آئو تم بھی اسے مارو، میں بھی اسے مارتا ہوں…..
نہال ہاشمی تم دیوانے ہو، احمق ہو، تمہیں خاموش کرنا ضروری تھا۔ تم کیاچاہتے ہو کہ معاشرے میں انتشار پیدا ہوجائے، اداروں کی توقیر نہ رہے، اہل سیاست ننگا ناچ ناچیں، کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھوئیں۔ ایساممکن نہیں اسی لئے تمہیں سزا دینی ضروری تھی۔ منصورحلّاجوں، ابن رُشدوں اور بلاولوں کا تاریخ میں یہی حشر ہوتارہاہے۔ نہال کا بھی یہی مقدر تھا۔

آخر میں عرض ہے کہ مجھے موقع ملا تو میں بھی نہال ہاشمی کو پتھر ماروں گا۔ میری جیب میں آج کل پتھر بھرے ہیں تاکہ جب بھی ضرورت پڑے میں نہال ہاشمیوں کو سنگسار کروںاور سرکار دربار میں جگہ پائوں، عوام میں مقبول ہوں اور بڑا بھی کہلائوں۔ سوچتاہوں کہ نہال ہاشمی بدقسمت ہےکیونکہ نہ منٹو زندہ ہے اور نہ حبیب جالب موجود ہے، وہ ہوتے تو ضرور آواز بلند کرتے۔ کیونکہ وہ بھی د ونوں دیوانے تھے ہوا کے مخالف چلتے تھے، گرجتے بادلوں کو اپنی آواز سے چیرتے تھے۔ اب کون ہے ایسا؟ نہال ہاشمی! تیار رہو میں تمہیں خود پتھر ماروں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے