سرعام پھانسیاں، پولیس مقابلے اور سینیٹ الیکشن

کارل مارکس نے صنعتی معیشت کی تفہیم میں فرد کی بے گانگی کا تصور دیا تھا۔ کارل مارکس ہمارے ملک سے آشنا ہوتا تو اس نے قوم کی بے گانگی کا تصور بھی دیا ہوتا۔ اسے معلوم ہو جاتا کہ جب علم، صنعت اور جمہوریت کے عہد میں کوئی قوم تاریخ کے دھارے سے انحراف کرتی ہے تو کس طرح کی اجتماعی بے گانگی کا شکار ہوتی ہے۔ کس طرح اپنے مفاد سے بیگانہ اور بیگانوں کے دکھ میں مبتلا ہوتی ہے۔ اپنے دکھ سے بے خبری اور پرائی مصیبتوں کو سمیٹ کر اپنے گھر لانے میں ہمارا جواب نہیں۔ آپ کو تو یاد ہو گا ہمارے بزرگوں نے پہلی عالمی جنگ میں ترکوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب سے سو برس پہلے کی دنیا میں جو نوآبادیاتی قوتیں تھیں ان میں برطانیہ بھی تھا اور ترکی بھی۔ برطانیہ نے ہمیں غلام بنا رکھا تھا اور ترکی نے مشرق وسطی پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ہمارا حقیقی تضاد برطانوی قابض حکومت سے تھا۔ برطانوی حکمران ہندوستان میں جدید علوم، مشین اور غیر شخصی انتظامیہ لے کر آئے تھے۔ اس سے ہمارے پرانے مفادات کو دھچکا پہنچا تھا۔ برطانیہ بہادر نے ہماری زمین پر نیا مراعات یافتہ طبقہ پیدا کیا۔ برطانوی حکومت کی مخالفت میں ہم نے جدید علم، سائنس اور جمہوریت کی مخالفت پر کمر باندھ لی۔ یہ ایک دلچسپ صورت حال تھی۔ علم اور مشین میں لازم اور ملزوم کا رشتہ ہے۔ غیر شخصی انتظامیہ اور جمہوری سیاست میں علت اور معلول کا نامیاتی تعلق ہے۔ ہم نے مشین اور غیر شخصی انتظامی بندوبست سے انکار نہیں کیا، علم اور جمہوریت کی مخالفت کرتے رہے۔ اسی جوش میں سلطنت عثمانیہ کی حمایت کی۔ مسولینی کی تعریف میں نظمیں کہیں۔ ہٹلر سے درخواست کرتے رہے کہ ہمارے نام کا ایک گولہ بکنگھم پیلس پر پھینک آئے۔ ہم نے دوست اور دشمن کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے مفاد کی درست نشاندہی نہیں کی، غلط مورچوں کا انتخاب کیا، نتیجہ یہ کہ غیر شخصی انتظامیہ جمہوری جواب دہی سے بے نیاز ہو کر عام شہری پر ریاست کی بالادستی کا ذریعہ بن گئی۔ مشین کو علم سے الگ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اس انکسار سے محروم ہو گئے جو علم ہمیں بخشتا ہے۔ ہم مشین کے جبر کا شکار ہو گئے۔ اس پر طرہ یہ کہ مشین کی غلامی کے طفیل ملنے والے دکھوں کو علم کے کھاتے میں شمار کرتے ہیں۔ یاد کیجیے، اب سے ٹھیک چار دہائی پہلے ہم نے بار بار کہا کہ درسگاہوں میں ادب تاریخ اور فلسفے کی تعلیم غیر ضروری ہے، ہمیں تو ڈاکٹر اور انجینئر چاہئیں۔ نیز یہ کہ ہمیں کامرس اور بزنس کی تعلیم چاہئے۔ تو اے صاحبان عقل و دانش، ہماری دسگاہوں سے میڈیکل، انجینئرنگ، کامرس اور کمپیوٹر کی تعلیم پا کر برآمد ہونے والے کاٹھ کے یہ لشکر اب عم زاد زوجگان اور بچوں کے بہیرو بنگاہ سمیت بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اس لیے کہ گاما فور پلس تھری اور دوسرے فارمولے یاد کرواتے ہوئے ہم نے انہیں تمدن کی تعلیم نہیں دی۔ سیاسی شعور سے محروم رکھا۔ رٹو طوطے کی طرح کچھ بے معنی نعرے اور خود ساختہ مفروضات یاد کروائے تھے جو دھوپ کی پہلی کرن کے ساتھ پگھل گئے۔ اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو…

اچھی خبر ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے مسودہ قانون پر اختلاف سامنے آیا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ ایکٹ 1860 کے سیکشن 364-اے میں ترمیم کا معاملہ زیر غور تھا۔ یہ قانون 14 برس سے کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے متعلق ہے۔ اس سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ ہمارے قانون ساز ابھی جرم و سزا کی حرکیات سے مکمل طور پہ لاتعلق نہیں ہوئے۔ شاید آپ کو یاد ہو سلطنت عثمانیہ کی علامات میں ایک تو خواجہ سرا کا کردار تھا جسے دربار اور حرم سرا میں ایک ضروری کڑی سمجھا جاتا تھا۔ وسیع حرم سرا اور پھر اس کی حفاظت پر مامور لاؤ لشکر کا جنسی خصوصیات سے محروم ہونا… دوسرے لفظوں میں وہ معاشرہ ایک خوفناک جنسی خلجان اور ہیجان کا شکار تھا۔ سلطنت عثمانیہ میں حقیقی سیاسی فیصلوں کی قوت جن سری گروہ کی تحویل میں تھی۔ جن سری وہ عسکری گروہ تھا جو تلوار اور بندوق کے بل پر خلافت کے فیصلے کرتا تھا۔

کسی روز شمار کیجیے گا کہ خلافت عثمانیہ کے کل چالیس حکمرانوں میں سے کتنے قتل ہوئے؟ اسی دربار میں ایک تیسرا کردار گونگے جلاد کا تھا۔ یہ گونگے بہرے پہلوان امپائر کی انگلی دیکھ کر اپنے شکار پہ پل پڑتے تھے اور اس کا گلا کمان کی تانت میں جکڑ کر قتل کر دیتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ اس لیے برباد ہوئی کہ صاحب اختیار کی پہلی ترجیح حرم سرا کے معاملات تھے، فیصلے تلوار کے زور پر کیے جاتے تھے اور فیصلوں پر عملدرآمد کرنے والے مظلوم کا موقف سمجھنے سے قاصر تھے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جن کے کان صرف حرم سرا کی سرگوشی سنتے ہیں اور جو صاحب تلوار کے اشارے کا انتظار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انصاف پر عمل درآمد کرنے والا احساس سے بیگانہ ہو۔ یہ لوگ ہمارے گلی کوچوں میں پھانسی گھاٹ تعمیر کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔

انصاف سزائیں بانٹنے کا بندوبست نہیں ہے، انصاف کا مقصد پیداوار، علم، تحقیق، تخلیق اور محبت کا منطقہ قائم کرنا ہے۔ انسان کے ان مثبت امکانات میں مداخلت جرم ہے اور ایسی مداخلت کو روکنے کے لیے قانون بنایا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نےمثبت انصاف کا تصور دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انصاف کا حتمی مقصد انسانی مساوات اور سماجی انصاف کی ضمانت دینا ہے۔ یعنی ریاست شہریوں کے خلاف ناانصافی اور تشدد کو بطور ادارہ منظور نہیں کرے گی۔ غلامی ایک ناانصافی ہے، شہریوں میں عقیدے، جنس، نسل اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر امتیاز ناانصافی ہے۔ اگر ریاست غلامی اور امتیاز کو جائز قرار دے تو ریاست بذات خود جرم میں شریک ہے۔ انسانی معاشرے میں آمریت سب سے بڑا جرم ہے کیونکہ آمریت شہریوں پر ناانصافی مسلط کرنے کا ریاستی بندوبست ہے۔ اگر راؤ انوار انصاف کی وردی پہن کر شہریوں کو قتل کرتا ہے اور ریاست اس پر آنکھیں بند کر لیتی ہے تو یہ جرم ہے۔ ریاست کا کام جرم کی نشاندہی کرنا اور اسے ختم کرنے کا بندوبست تشکیل دینا ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ پھانسی گھروں کا تماشا دیکھنے کے شوقین حلقوں نے کبھی آمریت کی مخالفت نہیں کی۔ یہ لوگ انصاف کا مفہوم سمجھتے ہیں اور نہ انصاف مانگتے ہیں۔ انہیں تو تعصب، تشدد اور امتیاز کی تلاش ہے، یہ فرد کی بیگانگی کا استعارہ ہیں اور قوم کی بے گانگی میں اپنی داخلی خشک سالی کے لئے پناہ ڈھونڈتے ہیں۔

اگر سخت سزاؤں سے معاشرے میں جرم اور بدعنوانی ختم ہو سکتی تو برادر اسلامی ملک میں چار سو شہزادے تین ماہ سے شاہی قید میں نہ ہوتے۔ یہ وہی اصحاب ہیں جو پچھلے چالیس برس سے اس حکومت کا نظام چلا رہے تھے جس کا نام لے کر ہم پر فوری انصاف کی تلوار کڑکائی جاتی تھی۔ اب مشاہدہ کر لیجیے، نہ قانون، نہ وکیل، نہ دلیل، نہ اپیل، سمجھوتا کرو اور گھر جاؤ۔ خواہی اسے قصاص و دیت کہو، خواہی اسے این آر او کا نام دو۔ ہمیں بیگانوں سے الفت نہ ہوتی اور ہم اپنے سے یوں بیگانہ نہ ہوتے تو ہم نے کہا ہوتا کہ ہمیں پھانسیاں نہیں، انصاف چاہئے۔ ہمیں پولیس مقابلے کرنے والے افسر نہیں، شہریوں کے محافظ درکار ہیں۔ بادشاہت سے شغف دوسروں کو مبارک، ہماری قوم کی کامیابی سینیٹ کے انتخاب کا راستہ ہموار ہونے میں ہے۔ اور ہمیں اپنی سیاسی جماعتوں سے توقع ہے کہ سیاسی اور جمہوری ذہن رکھنے والے افراد کو ٹکٹ دے کر جمہوری تجربے کو مضبوط بنائیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے