شاہ نور اسٹوڈیو سے یونیورسل اسٹوڈیوز تک

سولہ گھنٹے کی پرواز کے بعد جب جہاز کے پہیوں نے لاس اینجلس ہوائی اڈے کو چھوا تو یوں لگا جیسے مجھے کسی قید سے رہائی مل گئی ہو، یہ میری زندگی کی سب سے طویل پرواز تھی، جہاز میں زیادہ تر بھارتی سکھ اپنی فیملیز کے ساتھ سفر کر رہے تھے، اڑھائی سال کی بچی سے لے کر اسّی برس کی مائی تک، یوں لگ رہا تھا جیسے میں امرتسر کے کسی ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوں اور جب کھانا سرو ہوا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ امرتسر ہی ہے۔ بل کلنٹن نے ٹھیک ہی کہا تھا، Its economy stupid، سارا کھیل پیسے کا ہے، بھارتی مسافروں کی اکثریت تھی سو کھانے بھی انہی کے مزاج کے مطابق اور فلموں کی سہولت بھی ہندی سے لے کر بنگالی تک۔ باہر کی دنیا میں قدم رکھتے ہی پہلا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی اہمیت کے بارے میں خاصی غلط فہمی ہے، ہم دنیا کے لئے ذرا بھی اہم نہیں، کم از کم کسی اچھی وجہ سے تو بالکل بھی نہیں، ائیر لائن کے اشتہارات میں بھی افریقہ کے ٹکے ٹکے شہروں کا ذکر تھا، لاہور کراچی اسلام آباد کہیں نظر نہیں آئے حالانکہ اُن شہروں کے مقابلے میں ہمارے یہ شہر کئی گنا خوبصورت اور ترقی یافتہ ہیں۔

لاس اینجلس اونچے نیچے پہاڑوں کے درمیان گھرا ہے، دن میں موسم خوشگوار رہتا ہے، نازنینیں عموماً ٹی شرٹ پہن کر گھومتی ہیں، شام ڈھلتے ہی خنکی ہو جاتی ہے، ٹھنڈی ہوا میں سردی کا احساس ہونے لگتا ہے، ٹی شرٹ کے اوپر جیکٹ آ جاتی ہے، لوگ خوش اخلاق ہیں، بذلہ سنج ہیں، شہر میں ہر پل زندگی تھرکتی دکھائی دیتی ہے، تفریح کے مواقع ان گنت ہیں کیونکہ دنیا کا سب سے بڑا فلمی مرکز ہالی وڈ اسی شہر میں ہے۔ ہالی وڈ کا احساس آپ کو یہاں چپے چپے پر ہوگا، نائی کی دکان سے لے کر ہوٹل تک سب ہالی وڈ کے نام کا دُم چھلا لگائے ہوئے ہیں، ہالی وڈ واک آف فیم وہ مشہور شاہراہ ہے جہاں ہالی وڈ سے وابستہ افراد کے نام ستاروں کے ساتھ زمین پر کندہ ہیں، سوائے محمد علی باکسر کے جس کا نام دیوار پر موجود ہے، کیونکہ یہ عظیم مکے باز نہیں چاہتا تھا کہ محمد نام زمین پر تراشا جائے۔ اس شاہراہ پر مختلف تھیٹر ہیں، میوزیم ہیں، ہالی وڈ کاسٹیومز کی دکانیں ہیں، ریستوران ہیں، فلموں میں استعمال ہونے والی چیزیں بھی آپ کو یہاں نظر آتی ہیں، مگر نہ جانے کیوں میں اس جگہ سے خواہ مخواہ متاثر نہ ہو سکا، جگہ اچھی تھی مگر اتنی ’’happening‘‘ نہیں لگی جتنا سُن رکھا تھا۔ یقیناً میری کوئی غلطی ہوگی، لاس اینجلس میں خرابی کیسے ہو سکتی ہے!

اگر لاس اینجلس میں آپ کا قیام ایک دن کا ہو اور آپ نے درجنوں تفریحی مقامات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو آنکھیں بند کرکے یونیورسل اسٹوڈیوز کی ٹکٹ خرید لیں اور صبح دس بجے ان کی اسپیشل شٹل میں بیٹھ کر اِس جادو نگری میں پہنچ جائیں جہاں اگر سامری جادوگر کو بھی چھوڑ دیا جائے تو وہ دیوانہ ہو کر بھاگ نکلے گا۔ یونیورسل اسٹوڈیوز کو Entertainment Capital of LAکہا جاتا ہے، یہ ہالی کا فلم اسٹوڈیو اور تھیم پارک ہے، ہالی وڈ کی فلمیں کہاں بنتی ہیں؟ کیسے بنتی ہیں؟ ان میں کیا تکنیک استعمال ہوتی ہے؟ انہیں کیسے حقیقی مناظر میں ڈھالا جاتا ہے؟ ان کے پیچھے کتنی محنت لگتی ہے؟ سب سوالوں کا جواب یہاں ملے گا۔ انسانی ذہن کا کمال اور مہارت کی معراج اگر دیکھنی ہو تو یونیورسل اسٹوڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے، یہاں درجنوں اسٹوڈیوز ہیں جن کے باہر نمبر درج ہیں، 52 نمبر تک میں نے گنے تھے ممکن ہے اور بھی ہوں، ہر ایک کے اندر الگ جہان آباد ہے، وکٹورین طرز کی عمارتیں دکھانی ہوں یا جدید شہر کی جھلک، پرانے گاؤں کا منظر ہو یا ٹیکسس کے کسی کاؤ بوائے کے قصبے کا سین، سب یہاں فلمایا جاتا ہے۔ ٹرام میں بٹھا کر آپ کو ایک گھنٹہ میں چند اسٹوڈیوز کی سیر کروائی جاتی ہے، کہیں آپ کی آنکھو ں کے سامنے یکایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی آ جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ سیلاب کا سین یوں پکچرائز ہوتا ہے اور کہیں چھوٹی سی تباہ حال جگہ دکھائی جاتی ہے جو اکثر فلموں میں ہمیں نظر آتی ہے، ایسی ہی اپنی فلم کے لئے اسٹیفن سپیلز برگ نے اصل جہاز خرید کر تباہ کیا، اس کا ملبہ اب بھی جوں کا توں اسٹوڈیو میں رکھا ہے۔ مشہور زمانہ فلموں میں استعمال ہونے والی گاڑیاں جیسے نائٹ رائیڈر، بیک ٹو دا فیوچر، فاسٹ اینڈ فیوریس، جیوراسک ورلڈ وغیرہ بھی یہاں نظر آتی ہیں، ٹور کے دوران یہ کمبخت ایسے دم بخود کردینے والے مناظر دکھاتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے، کیسے یکایک گاڑیاں ٹکراتی ہیں، ٹرین کا ڈبہ الٹ جاتا ہے، دھماکے سے آگ لگ جاتی ہے، یہ سب براہ راست آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ یونیورسل اسٹوڈیوز کے تھیم پارک میں لاتعداد ’’رائیڈز‘‘ ہیں (یہاں رائیڈز کا ترجمہ ’’جھولے‘‘ کرنا ایسا ہی ہوگا جیسے ’’ٹرانسفارمر‘‘ کو شاہ نور اسٹوڈیو میں فلمانے کی کوشش کرنا)، ہر جگہ ایک مخصوص تھیم کے تحت بنائی گئی ہے، قدیم برطانوی طرز پر بنی عمارتوں کے بیچ ہیری پوٹر کی رائیڈ ہے، اگر اپ ٹرانسفارمر کے مداح ہیں تو اُس کی رائیڈ حاضر ہے جو جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے، اور اگر جراسک پارک کا حقیقی لطف اٹھانا ہے تو آپ کشتی میں دل تھام کر بیٹھ جائیں فلم میں استعمال ہونے والے ڈائنوسار آپ کا استقبال کریں گے، دی ممی سمیت ہالی وڈ کی ہِٹ فلموں پر مبنی رائیڈز آپ کو یہاں مل جائیں گی، ہر رائیڈ اور فلم کی مناسبت سے اسٹاف کا لباس ڈیزائن کیا گیا ہے، ان رائیڈز میں کیا دکھایا جاتا ہے اور کیسے دکھایا جاتا ہے وہ بتانا ممکن نہیں، یوں سمجھئے کہ اگر افراسیاب بھی چاہتا تو ایسی جادونگری نہ بنا سکتا۔

یونیورسل اسٹوڈیوز میں تین شوز ایسے دکھائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ فلمی تکنیک جان سکتے ہیں، اسپیشل ایفیکٹس شو ان میں سے ایک تھا۔ فلموں میں مار کٹائی کے سین کیسے ہوتے، مکے کی آواز کیسی ہونی چاہئے، دوڑتے قدموں کا تاثر حقیقی کیوںکر لگتا ہے، خلا میں اڑتا ہوا باز دکھانا ہو تو کیسے کیا جاتا ہے، زندہ انسان کو آگ کیسے لگائی جاتی ہے ۔ اور سب سے بہترین وہ تکنیک جس کی مدد سے مصنوعی کردار تخلیق کئے جاتے ہیں جو انسانوں کی طرح اداکاری کرتے ہیں۔ دوسرا شو جانوروں کا تھا، ان جانوروں کو خصوصی ماہرین تربیت دیتے ہیں، یہ فلموں میں اُن کے اشارو ں پر اداکاری کرتے ہیں اور اُن کی انگلیوں پر ناچتے ہیں۔ تیسرا شو واٹر ورلڈ، چھوٹے سے تالاب میں بیس پچیس منٹ کی ایک فلم براہ راست دکھائی جاتی ہے جس میں وہ تمام ممکنہ سین پرفارم کئے جاتے ہیں جو ایسی کسی فلم میں ہو سکتے ہیں جو کسی دریا یا ندی میں بنائی جائے حتّیٰ کہ ایک موقع پر یکدم چھوٹا سا جہاز بھی پانی میں آن گرتا ہے اور اس میں آگ لگ جاتی ہے۔

یہاں تین باتیں نوٹ کرنے والی ہیں۔ پہلی، یونیورسل اسٹوڈیوز پرفیکشن اور عظیم الشان ترقی کا شاہکار ہے، کسی مرحلے پر آپ کو بور نہیں ہونے دیا جاتا، اگر آپ قطار میں لگے اپنی باری کا انتظار بھی کر رہے ہیں تو کہیں کوئی تعارفی فلم چلا کر آپ کا دھیان بانٹ دیا جائے گا، اگر کہیں سے گزر رہے ہیں تو ’’مارلن منرو‘‘ سے اچانک ٹاکرا ہو جائے گا چاہیں تو اس کے ساتھ تصویر بنوا لیں، مشہور فلمی کردار جگہ جگہ پھرتے دکھائی دیتے ہیں، مختلف شوز میں پرفارم کرنے والے اداکار اور میزبان نہایت عمدہ جملے بازی سے حاضرین کا دل لگائے رکھتے ہیں، احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ یہ لوگ دن میں کئی مرتبہ یہ کام کرتے ہیں اور روزانہ کرتے ہیں۔ دوسری، چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی یہاں خیال رکھا گیا ہے، بہت سی رائیڈز ایسی ہیں جہاں آپ اپنا سامان ساتھ نہیں لے جا سکتے، اِس کے لئے قطار اندر قطار کمپیوٹرائزڈ لاکر بنے ہیں، آپ اپنی انگلی کے نشان سے لاکر میں اپنی چیزیں ڈال کر بند کر دیں اور واپسی پر لے لیں، بچوں اور معذوروں کی سہولت کا خاص خیال رکھا گیا ہے، معذوروں کی نشستوں کو ہر جگہ ترجیح دی گئی ہے، چھوٹے بچوں کی پریم کے لئے جگہ جگہ پارکنگ بنائی گئی ہے۔ تیسری بات، تحفظ کا احساس،خطرناک ہونے کے باوجود تمام رائیڈز مکمل طور سے محفوظ ہیں، ایک لمحے کے لئے بھی دل میں خیال نہیں آتا کہ اگر بجلی چلی گئی تو کیا ہوگا، اگر کنڈا ٹوٹ کیا تو گیا ہوگا، اگر سرنگ میں دم گھُٹ گیا تو کیا ہوگا۔ بدقسمتی سے ایسے تمام ’’اگر‘‘ ہمارے نصیب میں ہی لکھ دیئے گئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے