پانچ دنوں میں شمالی یورپ کے پانچ ممالک کی سیر

مجھے نئی نئی جگہیں دیکھنے کا شوق تقریباً اس وقت سے ہے جب سے میں نے مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے پڑھنے شروع کئے اور ساتھ ساتھ مجھے بہت سے باقی سیاحوں کو پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔!میں اکثر دنیا کے نقشے کو غور سے دیکھتا تھا اور اس پر انگلیاں گھما کر بہت خوش ہوتا تھا کہ میں نے فلاں فلاں جگہ کی سیر کر لی اور فلاں بارڈر پر اب کھڑا ہوں۔۔۔۔!

گزشتہ برس نئے سال کی آمد پر یونیورسٹی میں چھٹیاں تھیں باقی سب طلبا گھروں کو چلے گے تو میں ہاسٹل میں اکیلا بچ گیا تھا۔۔ چنانچہ میں نے زیوریچ( سوئیٹزرلینڈ ) جانے کا پروگرام بنایا۔۔ دو دن وہاں رہا اور پھر لوٹ آیا تھا۔ اب کے برس کے پہلے سمسٹر کے پانچ امتحانات پہلی تاریخوں میں دے کر آزاد ہو چکا تھا اور ساتھ ہی ساتھ میں نے ان دنوں کو شمالی یورپ کے یخ بستہ ممالک میں گزارنے کا سوچا۔ میری بہت پہلے سے یہ خواہش تھی کہ میں ڈنمارک/کوپن ہیگن اور سویڈن/ مالمو دیکھوں گا جب بھی فرصت کے لمحات میسر آئیں گے۔

میری یہ خواہش تھی کہ میں سمندر کے نیچے سے سفر کروں اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے میں نے کوپن ہیگن سے سویڈن جانے کا پروگرام بنایا۔

اٹلی
ڈنمارک
کوپن ہیگن
سویڈن
مالمو

29 جنوری کو میں نے شام سوا چھ بجے کی فلائیٹ سے کوپن ہیگن جانا تھا، چنانچہ انٹرنیشنل فلائیٹ کی خاطر مجھے دو گھنٹے پہلے ائیر پورٹ پہنچنا پڑا۔۔۔ میں نے دو ہفتے پہلے ہی آن لائن چیک ان کی سہولت سے مستفید ہوتے ہوئے تمام کارروائی مکمل کر لی تھی چنانچہ مجھے اب صرف سکیورٹی چیک سے گزرنا تھا۔ اور یہ مرحلہ دس منٹ سے بھی کم دورانیہ میں مکمل ہو گیا۔اب میں ائیرپورٹ لاؤنج میں انتظار کر رہا تھا کہ کب میری فلائیٹ کا گیٹ نمبر اناؤنس ہو گا تاکہ میں بغیر کسی تاخیر کے اپنی سیٹ پر جاؤں۔۔۔

کوپن ہیگن کا ائیر پورٹ

شام پونے چھ بجے گیٹ کی لوکیشن ظاہر ہوئی تو میں بغیر وقت کے ضیاع کے لائن میں کھڑا ہو گیا۔ اور اسی دوران نماز مغرب کا وقت بھی اٹلی میں ہو گیا تھا۔ میں نے بورڈنگ کیو میں ہی کھڑے ہو کر اشارتاً تین فرض ادا کئے اور ساتھ ہی مجھے بورڈنگ کارڈ مل گیا۔۔۔!

انٹرنیشنل سفر کے دوران بہت سے نئے دوست بن جاتے ہیں۔ اور میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔ اب چونکہ یہ میرا پہلا وزٹ تھا اور مجھے ہوٹل کی لوکیشن بھی معلوم نہ تھی۔ ہماری فلائیٹ شام آٹھ بجکر دس منٹ پر کوپن ہیگن انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اتر چکی تھی۔ میں اپنا بیگ لینے کے لئے ایک کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں ایک جوڑے سے ملاقات ہوئی۔ جب میں نے اپنا آبائی ملک پاکستان بتایا تو اس وقت وہ جوڑا حیران رہ گیا اور مجھے پوچھنے لگا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اسلام آباد ایک چیک ری پبلک کی لڑکی نو کلو ہیروئن کے ساتھ پکڑی گئی ہے ؟ وہ کوئی ماڈل نہیں ہے ۔ وہ ایک جسم فروش /راہبہ ہے۔۔۔ !!!!

اٹلی اور چیک ریپبلک سے تعلق رکھنے والے سیاح

پھر کیا تھا ہمارے درمیان بات چیت بڑھتی گئی ۔۔۔ اور ہم ایک کافی شاپ پر بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔۔۔ اس عورت / ريٹا کا تعلق بھی چیک ری پبلک سے تھا، مگر وہ اپنے خاوند الیگزینڈرو پونزونے کے ساتھ کوپن ہیگن رہتی ہے۔ اس جوڑے نے میری بے حد تعظیم کی اور مجھے ہوٹل تک پہنچنے کے لئے انڈرگراؤنڈ /میٹرو کے سٹیشن تک پہنچایا۔۔۔! ہوٹل پہنچکر میں نے سب سے پہلے کھانا کھانے کے لئے کسی حلال ریسٹورانٹ کا پوچھا، پھر واپس آ کر سو گیا۔

صبح باہر کا منظر ایکدم بدل چکا تھا، سردی اتنی تھی کہ مجھے لگا کہ میں شاید کہ ننگا گھوم رہا ہوں۔ تیس جنوری کو میں نے سویڈن کے لئے نکلنا تھا،پر نہ جا سکا، اس دوران کوپن ہیگن میں مقیم پاکستان تحریک انصاف کوپن ہیگن کے راہنما جناب شفقت رحیم سے ملاقات ہوئی اور شام کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھایا۔۔!

کوپن ہیگن میں تحریک انصاف کے رہ نما شفت رحیم سے بھی ملاقات ہوئی

رات واپس ہوٹل پہنچا جہاں میری ملاقات کچھ کینڈا اور آسٹریلیا کے سیاحوں سے ہوئی۔ دوران سفر انسان کو کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بس آدمی کو ذرا چست رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگلی صبح میں نے سویڈن کا پروگرام فائنل کیا۔ فجر کی نماز اور تلاوت قرآن کے بعد تیاری کی اور کوپن ہیگن سنٹرل ریلوے اسٹیشن پہنچا۔۔۔! پہلے میرا پروگرام تھا کہ بذریعہ بس سویڈن جاؤں تاکہ بہت کچھ دیکھ سکوں، مگر معلوم ہوا کہ یہ آپ کی خواہش ہی رہ جائے گی، آپ ریل سے جاؤ تو بہتر اور تیز ترین سفر ہو گا۔

خیر ریل کی ریٹرن ٹکٹ لی اور پلیٹ فارم پر جا پہنچا۔۔۔ ہر آدھے گھنٹے بعد ایک ریل سویڈن کے لئے جاتی ہے۔۔۔ مجھے یہاں بھی دوست بنانے میں دیر نہ لگی ۔۔۔۔اور یوں میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کو پورا کرنے کی ٹکٹ خرید چکا تھا۔۔۔۔!

ریل کے چلنے کے ٹھیک دس منٹ بعد میں سمندر کے نیچے سے گزر رہا تھا۔ اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ تھی کہ آج سمندر سے بھی گہرا ہو کر گزر رہا ہوں۔۔۔۔۔! سمندر پر بنے پل سے جب گزر رہا تھا تو ایسا لگا جیسے ریل پانی ہر سے گزر رہی ہے۔۔۔۔! ہر ایک باہر سمندر کو دیکھ کر سیلفیاں بنا رہا تھا۔۔۔!!!

سویڈن کی حدود میں داخل ہوتے ہی بارڈر سکیورٹی فورس کی خواتین نے ریل میں آ کر ہمارے پاسپورٹ یا دیگر سفری کاغذات چیک کئے اور پھر ہم اگلی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔

[pullquote]سویڈن، مالمو[/pullquote]

31 جنوری کو دن سوا گیارہ بجے میں مالمو سینٹرل ٹرین سٹیشن پہنچ چکا تھا۔ باہر نکلتے ہی بہت زیادہ سردی محسوس ہوئی۔ سویڈن بھی نہایت خوبصورت ملک ہے اور یہاں بھی سیر کی غرض سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ خوبصورت یونیورسٹیوں کا ملک کہلاتا ہے۔ یہاں جرمنی کی طرح تعلیم بالکل مفت ہے۔ کھلی کشادہ سڑکیں اور شاپنگ مال ہیں، بہترین اقسام کے کھانے اور مشروبات ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔۔۔!!!

مالمو پہنچ کر ابھی مشکل سے کافی شاپ دیکھی تھی کہ شدید بارش شروع ہو گئی۔ ظہر کی نماز اسی کافی شاپ/ ویجیٹیرین ہٹ پر ادا کی اور ساتھ ہی کھانے کا آرڈر بھی کیا۔۔۔ اس شاپ کے اندر لائبریری بھی قائم تھی آپ کافی پیو، کھانا کھاؤ، یا کتابیں پڑھو۔۔۔۔!

ٹھنڈی راتوں میں کافی پینے کا لطف دو بالا ہو جاتا ہے

یہ ماحول مجھے بہت پسند آیا۔ دوپہر ہوتے ہی ایک رش سا لگ گیا۔ سبھی ویجیٹیرین کھانے کے شوقین آ پہنچے۔۔۔!!! بارش ذرا سی تھمی تو میں نے بھی باہر نکلنے کو سوچا۔۔۔۔ اور ساتھ ہی بندرگاہ کا رخ کیا۔۔۔ مگر وہاں پہنچتے ہی بارش پھر تیزی اختیار کر گئی اور یوں میں لوٹ کر پھر واپس کافی شاپ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔!شام کو واپس کوپن ہیگن لوٹ آیا اور یوں باقی کا وقت کوپن ہیگن کی تاریخی جگہوں پر گزارنے کا سوچا۔۔۔!

کوپن ہیگن میں رات کا منظر

آخری دن مجھے الیگزنڈرو پونزونے نے کافی پر مدعو کر رکھا تھا۔ سہ پہر تین بجے ہم ایک مشہور کافی شاپ پر ملے اور اس دوران الیگزنڈرو پونزونے نے مجھے اپنے بارے بتایا اور بہت قیمتی آرا بھی دیئں۔۔۔!

الیگزنڈرو پیشے کے اعتبار سے ایک سینئر برج انجینئر ہے۔ اور کوپن ہیگن کی ایک مقامی ملٹی نیشنل برج کمپنی میں ملازمت کرتا ہے۔ ہماری کافی کے لئے ملاقات کے وقت وہ ڈیوٹی سے دو گھنٹے کی آف لے کر آیا تھا۔۔۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک پروفیشنل برج انجینئر کے ساتھ ساتھ پروفیشنل سکائی ڈائیور بھی ہے۔ مجھے ہوٹل کے لئے رخصت کرنے میٹرو سٹیشن تک ساتھ آیا اور پر تپاک انداز میں ملنے کے بعد خدا حافظ کہا۔
ان پانچ دنوں میں جو چیز میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی

[pullquote]شمالی یورپ پانچ دنوں میں[/pullquote]

کافی کا کپ جو اٹلی میں 1.3€ اور سوئیٹزرلینڈ میں 2.3 فرانک کا ملتا ہے کوپن ہیگن میں 8.7 € کا ملتا ہے۔ بہت سی چیزیں مہنگی بلکہ بہت زیادہ مہنگی ہیں۔اٹلی کے شہر میلان میں آپ کو ڈے ٹریول کارڈ کی قیمت 4.5€ ہے جبکہ کوپن ہیگن میں 10.67€ (80DKK)کا ملتا ہے ( جس پر آپ اندرون شہر چوبیس گھنٹے تک میٹرو، ریل اورپبلک بسوں پر سفر کر سکتے ہو۔جبکہ لندن میں ڈے ٹریول 1-4 زون کی قیمت 12.7£ ہے۔
حلال کھانے پینے کی اشیا کوپن ہیگن میں اٹلی کی نسبت سستی دیکھنے کو ملیں۔اور باقی بہت سی متفرق اشیا بھی کوپن ہیگن میں قدرے مناسب داموں دستیاب ہوتی ہیں۔

ویسے ڈنمارک / کوپن ہیگن میں مہنگائی بہت زیادہ ہے ، مگر وہاں تنخواہوں میں بھی اسی شرح سے اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں کا بلند معیار زندگی ہے۔ایک پبلک بس ڈرائیور جس کو دس سال کا تجربہ اسی کمپنی میں ہو گیا تھا اس کی آٹھ گھنٹے کی تنخواہ 20 ہزار سے 22,000 DKK ماہانہ ہے۔کوپن ہیگن کی مارکیٹوں میں زیادہ تر اشیا مغربی ممالک کی ہی نظر آتی ہیں جبکہ چائنہ کی اشیا بہت کم کہیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

لندن، اٹلی اور سوئیٹزرلینڈ کی نسبت یہاں جوانوں میں رومانس بہت کم دیکھنے کو ملا، اور اگر کچھ دکھائی بھی دیا تو بہت محتاط انداز میں۔ اور محل وقوع کے مطابق( کافی شاپس، پب،اور ریسٹورانٹ پر کچھ مناظر چلتے چلتے) اس کی ایک وجہ موسم کا بہت زیادہ ٹھنڈا ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ اور سخت سردی کی وجہ سے خوش لباس /ملبوسات بھی زیب تن تھیں۔ پانچ دنوں میں ایک بھی بولڈ منظر دکھائی نہ دیا تاہم یہ کسر واپسی اٹلی کے ائیرپورٹ پر پوری ہو گئی ۔اگر سردی کی شدت بڑھ جائے تو تو آپ کو کوپن ہیگن میں مکمل باپردہ خواتین دیکھنے کو ملیں۔

[pullquote]سویڈن [/pullquote]

سویڈن کے شہر مالمو میں زندگی کی رفتار بھی کوپن ہیگن کی طرح تیز ہی ہے۔یہاں قدرتی حسن میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔۔۔۔!
ٹاپ کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سٹوڈنٹس اپنا کاروبار بہت اچھے انداز میں کرتے نظر آئے۔۔۔!مالمو میں سردی کی شدت کوپن ہیگن کی نسبت کم محسوس ہوئی۔ سویڈن کے شہر مالمو میں ویجیٹیرین افراد کے لئے کھانے پینے کی بہت زیادہ اشیا دستیاب ہیں۔

[pullquote]سیاحوں کے لیے اہم نوٹ [/pullquote]

کوشش کریں کہ ان ممالک میں سفر کے دوران آپ ادائیگی اپنے کریڈٹ کارڈ سے کریں۔ منی ایکسچینج سے آپ کو نقصان ہوتا ہے ۔ کیونکہ پچھلے سال جب میں نے زیوریچ کے اے ٹی ایم سے فرانک نکلوائے تھے جو یورو میں بدلنے پر نصف سے بھی کم مالیت مجھے ملی تھی اس کی وجہ ان کا کمیشن بھی ہوتا ہے۔ مگر اس بار سفر سے پہلے میں نے اپنے بنک سے ساری معلومات لے لی تھیں کہ کیا کرنا چاہیئے ؟

بنک والوں نے یہ تنبیہہ کی تھی کہ صرف کارڈ سے ادائیگی کریں اس پر کسی قسم کی کوئی کٹوتی عمل میں نہیں لائے جائے گی۔ جبکہ منی ایکسچینج میں ہر دو بار آپ سے کٹوتی ہو گی۔

اگلے سال ناروے End of the world Norway دیکھنے کا پروگرام ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے