5 فروری اور ہماری ترجیحات

"ممتاز خیال”

پانچ فروری کو دنیا بھر میں کشمیری یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ موجودہ تناظر میں بات کی جائے تو یہ دن ایک سالانہ تہوار کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جیسے عید ،شب برات۔ عید، شب برات پر جہاں چھوٹے بچوں کا شوق دیدنی ہوتا ہے ایسے ہی یہاں بڑے افراد ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں وہ خبروں اور میڈیا کی زینت بنیں۔ آج کا دور میڈیا کا دور ہے، آج کے دور میں کھانا بھی پہلے دنیا کو دکھایا جاتا ہے پھر کھایا جاتا ہے، بھلے وہ سیلفیوں کے دوران ٹھنڈا ہی کیوں نہ ہو جائے۔

کشمیری عوام کے ساتھ ستر سال سے جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں اس کے لئے ہم آواز بلند کرتے ہوئے بھی اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہیں۔ کشمیر میں لگی آگ ایک ایسی آگ ہے جو اگر اب بھی نہ بجھی تو سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی۔ کشمیر ہمارا گھر ہے، اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ گھر کے ایک حصے میں آگ لگی ہو تو دوسرے حصے میں خوشیاں منائی جائیں ؟ پاکستان اگر کشمیریوں کا وکیل ہی بننا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ کشمیر کے مسلئے کو عالمی دباؤ کے ساتھ بھارت سے حل کروائے نہ کہ تجارتی پالیسیوں کے تحت ۔۔۔۔۔!

میرا خیال یہ کہتا ہے کہ آپ تجارت بھی کرو، باقی معاملات پر بھی بحث کرو، مگر کشمیر کے مسلئے کو ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہیئے۔ دنیا میں کتنی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں دو ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہونے سے اردگرد کے ممالک کتنے متاثر ہوئے ۔۔۔۔۔! دور جانے کی بات نہیں اسی یورپ کے ایک ملک جرمنی کی مثال لے لیں کی دوسری جنگ عظیم کے بعد کیسے ملک میں تبدیلی آئی ؟ جرمنی جو دو حصوں میں بٹ چکا تھا اور دیوار برلن نے ان کو مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی میں تقسیم کر دیا تھا صرف مغربی جرمنی ہی اس دوران بہتری کی راہ پر گامزن تھا۔ لیکن باوجود اس کے وہ ٹھیک سے ترقی نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔!

دیوار برلن کو گرانا وقت کی ضرورت بنا تو ترقی کی دوڑ میں جرمنی آگے بڑھنا شروع ہوا۔ کتنا خون بہا جرمنی کے گلی کوچوں میں مگر آج جب جرمنی امن کی راہ پر چل پڑا تو وہی جرمنی آج پورے یورپ کا پہیہ گھوماتا نظر آتا ہے ۔۔۔۔!

مارک گلبرٹ امریکہ کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اپنی کتاب The World Since 1945 کے صفحہ 70 پر لکھتے ہیں کہ :
“In 1946 the Americans and British had united their occupation zones in Germany into the Bizone; and in 1947 it was decided that all the Western zones(but not under Eastern) were to receive Marshall Aid. The decision of Germany was well under way. Berlin, on the other hand, though divided into occupation zones, was still being administrated jointly by four occupying powers: the Soviet Union, the United States, Britain and France. Berlin was thus in a different situation from the rest of the Germany.”

آج وہ جرمنی جس پر 1947 میں چار بڑی طاقتوں کا قبضہ تھا انہی میں سے چند طاقتوں کو آج جرمنی مالی مدد بھی دے رہا ہے اور یورپ کے ستائیس ممالک میں سب سے مضبوط معیشت بھی جرمنی کی ہے۔

یہاں جرمنی کا قصہ بیان کرنا اس لئے مقصود تھا کہ اگر چار سپر پاور ممالک کا مقبوضہ ملک آج یورپ کے باقی دو سپر پاور ممالک سمیت روس سے کہیں آگے ہے تو اس کے پیچھے ایک آزاد جرمنی ہے۔۔۔!
ایسٹ جرمنی نے ویسٹ جرمنی کے ساتھ تعلقات کی راہ ہموار کرنے کے لئے کوئی تیسرا ملک شامل نہیں کیا بلکہ مغربی جرمنی کے پڑھے لکھے افراد نے اس چیز کو محسوس کیا کہ ہمارے درمیان 111 کلومیٹر لمبی اور 4 میٹر اونچی نفرت کی دیوار برلن کو اب گرانے کی ضرورت ہے تب ہم ترقی کی دوڑ میں دنیا کے ساتھ دوڑ سکیں گے۔آج جرمنی ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہے۔

ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ جن ملاؤں کو کسی مسجد مدرسے میں ہونا چاہئیے تھا وہ آج کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے پھرتے ہیں۔۔۔۔!!! ان کو اپنی دال روٹی کی پڑی ہے اور ہمارے نام نہاد حکمرانوں نے اپنی کرسی کو بچانے کی خاطر ان ملاؤں کے منہ میں بھی کشمیر کمیٹی کی چئیرمین شپ دے رکھی ہے۔ آج پانچ فروری کو جب پاکستان کے نااہل وزیراعظم کو آزادی کے بیس کیمپ میں تقریر کرتے سنا تو وہ اپنا ہی رونا پیٹ رہے تھے۔۔۔۔! اور کشمیری قیادت ساتھ شامل ہو کر اس بات کا اعادہ کر رہی تھی کہ ما بدولت کا ہر ایک لفظ کشمیریوں کے لئے ہے۔۔۔!

دوسری طرف جب لاہور کو خالی دیکھا تو سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی لاہور میں الاؤ جلا لیا۔۔۔۔۔!!! یہ سب کیا ہے ؟ کیا یہ سارے تماشائی اکھٹے کر کہ اپنا کرتب تو نہیں دیکھا رہے ۔۔۔۔؟ نواز شریف کتنی بار وزیراعظم رہے ؟ انھوں نے کشمیریوں کے لئے کیا کیا ؟ آصف علی زرداری بھی صدر پاکستان رہے، انھوں نے کشمیریوں کی آواز کیسے بلند کی ؟ کشمیر کے نام پر کشمیریوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ کبھی ایک آ کر کشمیر کی بات کرتا ہے تو تماشائی اس کے ساتھ۔۔۔۔ اور کبھی دوسرا پنڈال سجاتا ہے تو یہ چاولوں کی صرف آدھی پلیٹ پر مر مٹنے والی قوم اس کے آگے دھمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔!!!!

ہمارے “چالاک” حکمرانوں کو معلوم ہے کہ اگر عوام کو دو وقت کی روٹی وقت پر ملنا شروع ہو گئی تو مبادا ان کے ہاتھ ہماری پلیٹ تک پہنچ جائیں گے۔ ان سے روٹی کو ہی اتنا دور کر دو کہ ان کو اپنی ہی روٹی کی فکر سی آزادی نہ ملے۔بحیثیت کشمیری میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں کہ چھوڑو پاکستانی وزراءاعظموں کو، صدور کو، میں نے کیا کیا ہے کشمیر بارے ؟ جو میں آج ان پر انگلیاں اٹھا رہا ہوں تو ساتھ ہی میرا “خیال” مجھے کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ فی الوقت تو اسی قابل ہے کہ تو لکھ۔۔۔۔ اپنا حق ادا کر۔۔۔۔۔ سارے مورچوں ہر بھی نہیں جاتے۔۔۔۔ تو سارے وزیراعظم بھی نہیں بنتے۔۔۔۔ تو جتنا حصہ ڈال سکتا ہے ڈال۔۔۔۔ تجھ سے حساب تیرے اعمال کا لیا جائے گا نہ کہ دنیا جہاں کا۔۔۔۔!

آزادکشمیر کی حکومت سے کوئی کشمیریوں کا مخلص نظر آتا ہے نہ ہی پاکستان سے۔۔۔۔ اور جب سے پاکستانی سیاسی جماعتوں کی “فرنچائز” آزاد کشمیر میں قائم ہو چکی ہیں تو اب سیاسی رہنماؤں کو اپنے کشمیری عوام سے زیادہ پاکستانی حکمرانوں کی فکر کھائی جا رہی ہوتی ہے۔ آزادی کے بیس کیمپ مظفرآباد میں آج کا “شو” دیکھ کر ایسا ہی لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی بیوہ امداد کی خاطر در در جاتی ہے، ہر ایک کو اپنا غم سناتی ہے کہ شاید ان میں سے اس کی داد رسی کرے۔ قارئین سے التماس ہے کہ آج کے مظفرآباد میں منعقد یوم یکجہتی کشمیر کی کوئی بات آپ کو سمجھ آئی ہو تو کمنٹس کر دینا۔

ہماری جتنی کوشش ہوتی ہے رب اتنا دے ہی دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے