حقیقت روحانیت اور محترم خورشید ندیم

آج کل طبائع اور امزجہ اتنے سہل پسند ہو گئے ہیں کہ جو بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی اس کے انکار میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں ، بقول کسے

” نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ”

اس مضمون میں دراصل روحانیت کے ایک اہم ترین ” مسئلہ وحدۃ الوجود ” کی بڑی بے ڈھنگی تردید کی گئی ہے ، شیخ ابن العربی اور ملا رومی کو تختہ مشق بنانے کے ساتھ ساتھ غلط بیانی اور من مانی تعبیر کو بھی درست قرار دیا گیا ہے ، اس بابت اگر تفصیلی طور پر لکھا جائے تو اولاً ممکن ہی نہیں اور ثانیاً لمبا ہونے کی وجہ سے پڑھے گا کوئی نہیں ، بلکہ الٹا کفر وفسق کی توپوں کے گولے لکھنے والے کا مقدر ہوں گے ، یہ کام
” جوئے شیر لانے ” اور ” اے بیل آ مجھے مار ”

کے مترادف ہوگا ، تاہم آپ کی پرخلوص خواہش کی بناء پر قرآن و سنت کے اس بابت دلائل سے قطع نظر چند مستحضر نکات عرض کئے دیتا ہوں ۔

(1) موصوف نے ” روحانیت کیا ہے ؟ ” کا عنوان قائم فرما کر روحانیت کے ہی ایک شعبہ وحدۃ الوجود کی تردید کی ہے ، در اصل قارئین کرام کے لئے پہلے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ انسان کیا ہے ؟ اور شریعت اسلامیہ کو انسان سے مطلوب کیا ہے ؟ ۔

انسان دو چیزوں سے مرکب ہے جسم اور روح سے ، روح نہ ہو تو وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ کہلاتا ہے ، لہٰذا دنیاوی زندگی میں جسم کیلئے روح اہم ترین چیز ہے اس کی موجودگی میں ہی انسان مکلف کہلاتا ہے اور مکلف انسان سے شریعت اسلامیہ کو اس کے جسم اور روح دونوں کی ہی تطہیر و تہذیب مطلوب ہے ، نہ کہ صرف جسم کی ، پھر ان دونوں کی شائستگی کے لئے ظاہری شریعت اور سلوک و احسان کا تقاضا قرآن و سنت کی طرف سے ہی ہے ، نہ کہ کسی کا خود ساختہ ہے ، اب ظاہری شریعت کے لئے قرآن و سنت اصل ہیں ، اور قدرے سہل بھی ہیں ، لیکن ہر ذی شعور آدمی یہ بخوبی جانتا ہے کہ ان کے اصول و جزئیات کا حصول اور ان کے ذرائع سہل بالکل بھی نہیں ہیں ، مثلاً کوئی آدمی عالم دین بننا چاہے تو صرف قرآن و حدیث کا ترجمہ اور ان کا مفہوم سہل ہے لیکن ان کے اصول و جزئیات کے لئے درس نظامی کا مکمل کورس آسان نہیں ہے ، اصول تفسیر ، اصول حدیث ، اصول فقہ اور دیگر علوم و فنون ان سے کہیں مشکل تر ہیں ، لیکن کوئی بھی عقلمند انسان ان مشکل ذرائع کے بارہ میں یہ رائے کبھی نہیں دے گا کہ یہ قرآن و سنت کے حصول کے راستہ میں رکاوٹ ہیں لہٰذا ان کی وجہ سے قرآن و سنت کی تعلیم ہی حاصل نہیں کرنی چاہئیے ، یا ان کی تعلیم ہی غلط ہے ، بلکہ ہر ایک یہی کہتا ہوا نظر آئے گا کہ یہ چیزیں تو ان کے لئے ممد و معاون اور مفید ترین ہیں ، لیکن استعجاب اور حیرت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب لوگ روحانی تعلیم کے کیلئے مشکل اصطلاحات پر تنقید کرتے ہوئے انہیں رد کر دیتے بلکہ انہیں قرآن و سنت سے متصادم قرار دے دیتے ہیں ، کیا یہ لوگ ظاہری علوم کی مروجہ اصطلاحات کو قرآن و سنت میں دکھا سکتے ہیں ، اگر نہیں دکھا سکتے تو جس وجہ سے ان کے لئے ظاہری شریعت کے حصول کے لئے ان اصطلاحات کا استعمال جواز کا درجہ حاصل کرے گا وہی وجہ باطنی علوم کے حصول کے لئے کیوں دوسروں کے لئے شجر ممنوعہ ہوگا ۔؟

حالانکہ تکمیل انسانیت ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے ضروری قرار دی گئی ہے ، سلوک و احسان کا تعلق دونوں ہی سے ہے اور مسئلہ وحدۃ الوجود کا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے ، اس کی نسبت حقائق کے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے علم کلام کا تعلق عقائد سے ، فقہ کا اصول فقہ سے ، منطق کا دلائل سے اور عروض کا اشعار وغیرہ کے ساتھ ہے ۔

(2) مسئلہ وحدۃ الوجود کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں سے مسلسل چلا آرہا ہے ، امت محمدیہ کے تمام قابل قدر علماء کرام و مشائخ اسلام اس کے قائل و فاعل رہے ہیں ، اگر میں ان ہستیوں کے صرف نام ہی لکھوں تو ایک طویل فہرست بن جائے اور معترضین کی آنکھیں بھی کھل جائیں کہ وہ اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے کن کن شخصیات کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ان کا تعلق کافروں اور غیر مسلموں سے جوڑنے کی سعی نامشکور انجام دے رہے ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا تعلق دیگر مذاہب ، قدیم فلاسفہ اور ہندوؤں وغیرہ سے جوڑنا صرف جنبہ داری اور پارٹی بازی ہے ۔

(3) موصوف کو شاید یہ علم ہی نہیں کہ مسئلہ وحدۃ الوجود کا تعلق تصوف سے نہیں بلکہ علم کلام اور صفات باری تعالٰی سے ہے ، یہ بحث اصل میں تو علم کلام والوں کی ہے ، جسے مخالفین بھی درست فن قرار دیتے ہیں ، البتہ صوفیاء کرام نے ذوقاً اور ترجیحاً صرف اسے اختیار کر رکھا ہے ، اسی لئے وہ تنہا ٹاگٹ ہیں ۔

(4) اس مسئلہ میں صوفیاء کرام کے بارہ گروہ اور فرقے ہیں ، اور ان کے نظریات و افکار کے بارہ میں سینتالیس تعبیرات و توجیہات ہیں ، جن میں سے دو کے علاوہ جمہور امت سب گروہوں اور ان کے نظریات کو درست قرار دیتے ہیں ، ماسوائے حلولی نظریہ کے قائلین اور تنزیہہ باری تعالٰی میں خلل ڈالنے والوں کے ۔

(5) یہ بھی ایک مغالطہ ہی ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی نے وحدۃ الوجود کی تردید فرمائی تھی اور اس کے مقابلہ میں وحدۃ الشھود کو انہوں نے خود ایجاد کیا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں ، ان میں صرف نزاع لفظی ہے اور یہ دونوں نظریات مجدد صاحب سے بہت پہلے سے ہی موجود ہیں ، اور یہ وحدۃ الشھود ان سینتالیس تعبیرات میں سے ایک تعبیر ہے جو مجدد صاحب نے ان لوگوں کے لئے اختیار کی تھی جو نافہمی کی بناء پر غلط روش اختیار کر رہے تھے ، تاکہ وہ ان کا رخ حکمت عملی سے دوسری طرف موڑ سکیں جسمیں تنزیہہ باری تعالٰی میں کسی قسم کا وہم پیدا نہ ہو سکے ، اسی لئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بالکل صاف لکھا ہے کہ مسئلہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود دونوں کشفی مسئلے ہیں ، دونوں صحیح اور واقعہ کے مطابق ہیں ۔

(6) شیخ ابن العربی اور ملا رومی کو موصوف نے اس لئے تختہ مشق بنایا ہے کہ ان مسائل کا چرچا اور فیض دنیا میں ان ہی سے زیادہ ہوا ہے ، اس کے بارہ میں تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ، وذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ۔

(7) مجدد صاحب کے اختلاف کے نظریہ کو نمایاں کرنے والے لوگ اس بات سے شاید بے خبر ہیں کہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشھود دونوں نظریات دراصل ربط الحادث بالقدیم کی تعبیر ہیں اور یہ دونوں تعبیرات ان سے بہت پہلے بھی موجود تھیں ۔

(8) ربط الحادث بالقدیم کیا ہے؟ آخر میں اسے بھی مختصراً عرض کئے دیتا ہوں ، یہ مسئلہ متکلمکن اور فلاسفہ سب ہی کے نزدیک ایک سخت اور مشکل ترین مسئلہ ہے ، اس کی پوری حقیقت کسی کی سمجھ میں نہیں آتی ، وجہ اس کی یہ ہے کہ ربط ایک نسبت ہے اور کسی نسبت کا ادراک اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے طرفین کا ادراک نہ ہو اور یہاں طرفین میں ایک طرف حادث ہے جس کا ادراک انسان کے لئے مشکل ہے ، مگر دوسری طرف قدیم اور ذات واجب الوجود ہے جس کی حقیقت کا ادراک انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ، اسی لئے ہر ایک کو جلدی یہ مسئلہ سمجھ نہیں آسکتا اور وہ رد عمل میں اس کے انکار میں ہی عافیت سمجھتا ہے ، جبھی تو صوفیاء کرام نے اس کے لئے اتنی مشکل ریاضت مقرر کی ہے ، جسے لوگ ایک فضول اور لایعنی کام سے تعبیر کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ، مولٰی کریم ہی سب کو ہدایت سے نوازے ، آمین ۔

خورشید ندیم صاحب کا مضمون ” تصوف آخر ہے کیا ” پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے