پنجاب میں بچے سے ’بدفعلی‘ کا ایک اور واقعہ

پنجاب پولیس نے جہلم کے علاقے سعیلہ میں 8 سالہ بچے کو مبینہ طور پر بدفعلی کا نشانہ بنانے والے ملزم کو گرفتار کرلیا جبکہ ابتدائی ٹیسٹ میں بدفعلی کی تصدیق ہوگئی۔

پولیس کے مطابق سعیلہ میں زیر تعمیر مکان میں مزدور یاسر محمود چپس رگڑائی کا کام کر رہا تھا، جس نے 8 سالہ بلال عارف کو چھت پر لے جاکر مبینہ طور پر بدفعلی کا نشانہ بنایا۔

پولیس کے مطابق بچے کے شور شرابے کی آواز سن کر اس کے اہل خانہ چھت پر پہنچے تو ملزم موقع سے فرار ہو گیا۔

بعد ازں بچے کے چچا ساجد حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے تھانہ صدر پولیس نے ملزم یاسر کو گرفتار کر لیا۔

پولیس کے مطابق سول ہسپتال میں بدفعلی کا شکار بچے کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں بدفعلی کی تصدیق ہوگئی ہے جبکہ ملزم کے میڈیکل کے بعد نمونے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بھیجے جائیں گے۔

خیال رہے کہ حالیہ کچھ ماہ کے دوران صوبہ پنجاب سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں بچوں کے ساتھ بد فعلی اور ریپ کے واقعات میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

گزشتہ ماہ پنجاب کے علاقے قصور میں ایک ملزم نے کم سن زینب کو اور خیبرپختونخوا میں ایک علیحدہ واقعے میں اسماء کو ریپ کے بعد قتل کردیا تھا۔

[pullquote]اسماء ریپ کیس: ’ایک ملزم کا ڈی این اے میچ کرگیا‘[/pullquote]

صوبہ پنجاب حکومت کے ترجمان ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ مردان میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی اسماء کے کیس میں خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے دیئے گئے ڈی این اے نمونے میں سے ایک نمونہ مقتولہ کے ساتھ میچ کرگیا۔

ترجمان پنجاب حکومت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مردان میں اسماء سے زیادتی کیس میں خیبرپختوا حکومت کی جانب سے 145 افراد کے ڈی این اے پنجاب حکومت کو موصول ہوئے تھے اور اس حوالے سے تمام تر تفصیلات خیبرپختونخوا حکومت سے شیئر کی گئی ہیں۔

اس سے قبل وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبرپختونخوا نے اسماء کیس کو دبانے کی کوشش کی اور پولیس نے متاثرہ اہل خانہ کے گھر پر پہرا بٹھائے رکھا جبکہ ’عمران خان مراسی بن کر خیبرپختونخوا پولیس کی تعریف کرتے رہتے ہیں‘۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے اسماء سے زیادتی کی کوشش کو چھپانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے 145 افراد کے جو ڈی این اے نمونے فراہم کیے تھے، ان میں سے ایک کا ڈی این اے میچ ہوگیا ہے اور اس حوالے سے صوبائی حکومت کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مردان کے علاوہ کوہاٹ میں عاصمہ رانی کا قتل ہوا اور پاکستان تحریک انصاف کے ڈسٹرکٹ صدر کے بھتیجے نے یہ قتل کیا لیکن اس کے باوجود کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، یہاں تک کے ان سے کوئی وضاحت بھی نہیں طلب کی گئی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے کی پولیس کا موازنہ کرنا درست نہیں ہے، جس علاقے میں عاصمہ رانی کا قتل ہوا، کم از کم وہاں کے ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے