شہید مقبول بٹ کے پرستاروں سے

اگرچہ شہید محمد مقبول بٹ کی جدوجہد ناتمام ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے پیرو کاروں میں جو مختلف ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں پوری نیک نیتی اور جذبہ کے ساتھ فکر مقبول کو اپنی اپنی سمجھ اور دستیاب معلومات کے مطابق آگے بڑھا رہے ہیں۔ میں پہلی بار یہ بات بتانے میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ شہید مقبول بٹ نے مجھے اپنے دل کے خون کی جلائی ہوئی ’ شمع ’ سے تعبیر کیا۔ اس کا حوالہ اس تحریر کے آخر میں دوں گا۔

مقبول بٹ کا ایک محبوب شاگرد ساتھی ہونے کے ناطے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں مقبول بٹ شہید کے سب ہی پیرو کاروں ، جو ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے میں دل و جان سے مصروف ہیں ، قربانیاں دے رہے ہیں کا دل کی گہرایوں سے شکریہ ادا کروں ۔ میرا ایمان ہے اور یقین ہے کہ ان کی کوششیں ضرور رنگ لایں گی۔ خدا ہم سب کا اور خصوصی طور مجھ سمیت مقبول بٹ کے سب ہی ساتھیوں اور پیروکاروں خواہ وہ الطاف قادری کی شکل میں امریکہ ، فاروق صدیقی کی شکل میں کنیڈا ، ظفر خان و عظمت کی شکل میں برطانیہ ، سرینگر میں یاسین ملک اس کے سب ہی ساتھیوں و جاوید میر کی شکل میں ، مظفر آباد سے حمید بٹ، حافظ انور سماوی کی شکل میں ، سردار نسیم کی شکل میں برسلز ، راجہ حنیف اور سردار انور کی شکل میں مشرق وسطی غرضیکہ دنیا بھر میں پھیلے کہیں بھی ہوں سب کے نام اس آرٹیکل میں سمو نہیں سکتا ، ہم سب ایک دوسرے کے دلوں میں سموئے ہوئے ہیں۔ لہذا کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں کسی کو بھول رہا ہوں اور ایسے وہ سب جو کسی بھی جماعت یا گروپ سے وابستہ ہوں کا عزم سفر قائم رکھے تا کہ آنے والے وقت میں ارض کشمیر کا گوشہ گوشہ ‘‘مرحلہ وار آزادی ’’ کے تمام ثمرات سے مستفید ہو سکے۔

جن حالات سے ہم سب اور پوری کشمیری قوم دوچار ہے ، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم مقبول بٹ شہید کی تحریروں کا مطالعہ کریں ۔ بحث و مباحثہ سے ان شکوک کو دور کریں جو ہمارے ذہنوں میں بسے ہوئے ہیں۔

قرآن میں کہا گیا ہے کہ ”آپس میں مشورہ کرتے رہو”ـ اور مشوروں کے دوران مولانا ابولکلام آزاد کے اس قول کو مدنظر رکھا جائے کہ ’’ سیدھے منہ سے ایک بول اور عفو و در گذر کی کوئی ایک بات اس خیرات سے ہزار درجہ بہتر ہے جس میں خدا کے بندوں کے لیے اذیت ہو ‘‘ ۔ جن حالات نے ہمیں یعنی ملک جموں کشمیر اور باشندگان ریاست جموں کشمیر کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے ، ان میں باشندگان کے لیے زندگی بسر کرنے کے لیے دو ہی راہیں رہ گئی ہیں ۔ بے حسی اور حالات سے لاتعلقی و بے خبری کی زندگی بسر کریں یا احساس حال و احساس زیاں کریں ، رد عمل کی راہ اپنائیں ، ہڑتال مظاہرہ کریں اور جیل چلے جائیں۔ یا کوئی زیادہ بہتر راہ اپنائیں۔ پہلی صورت میں زندگی ہر حال میں اور کہیں بھی بسر کی جاسکتی ہے اور ایسا بہت سے لوگ کر رہے ہیں۔ دوسری صورت میں زندگی کا احساس حال اور احساس زیاں کرتے ہی کچھ لوگوں کو جو خیالات آتے ہیں ان میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ ہماری جدوجہد میں کیا کمی ہے ، کیا ہماری سمت اور حکمت عملی درست بھی ہےیا نہیں؟ کیا ہمیں کچھ کچھ بدلنے اور بدلاو کی ضرورت ہے کہ نہیں ؟ اور جب اس قسم کے سوالات کسی تنظیم کے اندر کوئی فرد اور عام شہریوں میں سے کوئی صاحب الرائے اٹھاتا ہے تو بجائے اس کے خیالات اور رویہ میں تبدیلی پر بحث کے اسے منحرف دشمن ایجنٹ یا گمراہ کہہ دیا جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اب اس روش اور رویہ کو ترک کیا جانا چاہیے تاکہ مزید تقسیم کا عمل رک سکے ۔ جو کچھ کھو چکے اس پر ہاتھ ملتے رہنے کی بجائے یہ سوچنا شروع کریں کہ جو بچا ہے اسے کھونے سے کیسے بچانا ہے اور کھوئی منزل کو دوبارہ کیسے پانا ہے۔

شہید مقبول بٹ کی تعلیمات سے سب ہی دوست واقف ہیں مجھے کچھ دھرانا نہیں فقط چند ایک ایسے نکات کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا کہ ہمیں مسلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کی بجاےئ منزل کا واضح اور دو ٹوک تعین کرنا چاہیے۔ چند روز قبل میں نے آر پار ادھر ادھر اپنے ساتھیوں دوستوں کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی اور فیس بک کی وساطت سے بھی لکھا کہ اب ہمیں سیدھے سیدھے اور براہ راست آزادی کی مانگ کرنا چاہیے اور لفظ آزادی اور لفظ کشمیر کے معانی واضح کر کے بیان کرنا چاہیے۔

عام طور جس حق خود ارادیت کی بات ہم کر رہے ہوتے ہیں وہ بھارت کی اقوام متحدہ میں ایک شکایت اور پاکستان کی جانب سے شکایت کے جواب کی شکل میں ہماری دھرتی اوراس پر بسنےوالے خاندانوں کو جبری تقسیم کر کے مشروط اور محدود شکل میں دیا گیا ہے۔ ہم از خود نہ تو اس حق خود ارادیت کی شکل ، معانی اور تعریف بدل سکتے ہیں جو بھارت اور پاکستان نے اپنی اپنی سفارتی جدوجہد کے نتیجہ میں حاصل کی نہ ہی ہماری تقریریں ، اور نعرے اسے غیر مشروط بنا سکتے ہیں۔ جن کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ ان قراردادوں کو کشمیریوں کے حق میں تبدیل کرسکیں اور مسئلہ کے پر امن دائمی حل تک پہنچیں ، وہ ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔

ہندوستان تو اب یہ حق سرے سے دینے سے انکاری ہے اور پاکستان کا سرکاری موقف ہے کہ کشمیری پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کر لیں ، آزادی کا راستہ ان قراردادوں میں نہیں مگر ہم کشمیری لوگ ان ہی قراردادں پر اسرار کرتے پھر رہے ہیں۔ ہاں ان قراردادوں میں صرف حکومت پاکستان ہمارے لیے غیر مشروط حق خوداردیت کا راستہ کھول سکتی ہے۔ بھارت کی حکومت ایسا نہیں کرے گی۔

میں نے اقوام متحدہ میں کچھ عرصہ قبل سفیر پاکستان محترمہ ملیحہ لودھی صاحبہ کو تجویز کے طور لکھا تھا کہ آپ اپنی حکومت کی جانب سے سلامتی کونسل کے صدر یا جنرل اسمبلی کے ارکان کو سیکرٹری جنرل کی وساطت سے خط کے ذریعے آگاہ فرمائیں کہ حکومت پاکستان جنوبی ایشیا کے علاقہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور امن کو درپیش خطرات کے پیش نظر اور عالمی و علاقائی سلامتی کے بہترین مفاد میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے ۱۳ اگست ۱۹۴۸ کی اقوام متحدہ کے کمیشن براے پاک و ہند کی سفارشات اور قرارداد اور اس سے منسلکہ پاک بھارت معاہدہ کی تمام تر شرائط بشمول جموں کشمیر سے اپنی افواج کے انخلا کے لیے تیار ہے۔ آپ یعنی اقوام متحدہ کا سیکرٹریٹ بھارت کو حکومت پاکستان کے اس موقف سے سرکاری طور آگاہ کریں اور انہیں یہ بھی بتائیں کہ حکومت پاکستان کو ریاست جموں کشمیر کے عوام کو خود مختاری کا حق دینے میں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ اور بھارتی حکومت سے کہیں کہ وہ اس سلسلہ میں آپ ہی کی وساطت سے حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرے۔ اور اقوام متحدہ کو بتایا جائے کہ ان ستر سالوں میں بھارت و پاکستان کے درمیان دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں ، کارگل کا واقعہ امریکی مداخلت سے کسی بڑے سانحہ میں بدلنے سے بچا۔ اور سیز فائر لاین پر جھڑپوں کی شدت میں اضافہ کی اطلاعات ہیں اور یہ کہ خود جموں کشمیر کے عوام کی سوچیں بدل چکی۔ ‘‘ مجھے ابھی تک اس مکتوب کا جواب نہیں ملا ۔

دوستو! میں کوئی پچیس تیس سال سے مختلف ممالک کے سفارتکاروں سے ملتا رہا ، مختلف کانفرنسوں میں شرکت کے مواقع ملے اور گذشتہ بیس سال سے تو امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہوں ۔ میں نے بہت کچھ سیکھا اور حاصل ہونے والے علم کی بنیاد پر اپنی سوچ میں تبدیلیاں بھی لائیں ۔ یہاں امریکہ میں ،مَیں نے تحریک و تنظیم کے لیے کیا کیا، اس کا تذکرہ ہر گز نہیں کروں گا ۔۔ بلا شبہ مجھے یہاں کے سیاستدانوں ، دانشوروں سفارتکاروں، مختلف یونیورسٹیوں ، سینیٹ ، کانگریس، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، وایٹ ہاوس، نشریاتی اداروں تک جانے اور اپنا موقف بیان کرنے کا موقع ملا۔ اور ملتا رہتا ہے ( کچھ دوستوں نے لکھا کہ میں امریکی شہری بن گیا ۔۔ اور تحریک کو بھول گیا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ان کی اطلاع کے لیے فقط اتنا عرض ہے کہ امریکی شہریت تو دور کی بات میرے پاس گرین کارڈ بھی نہیں اس لیے وہ دوست جو امریکی شہری ہونے یا امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام دیتے رہے ان کے لیے یہ مختصر تذکرہ کافی ہے ) مجھے نہ صلے کی پروا ہے نہ داد تحسین چاہیے۔ بقول شاعر

مرد قلندر کو کیا تمغہ زر چاہیے
یا کسی گلزار میں شیشے کا گھر چاہیے
اس کو فقط صحبت اہل نظر چاہیے
اور اگر یہ نہ ہو تو عزم سفر چاہیے

اقوام متحدہ کی قراردادیں تنازع کا ثبوت تو فراہم کرتی ہیں ذکر کی حد تک مگر ان قراردادوں میں کشمیری فریق نہیں اور نہ ہی کشمیریوں کی آزادی کا کوئی راستہ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قریب ۳۷ سال قبل شہید مقبول بٹ نے اپنی زندگی میں ہی لفظ آزادی کی اپنی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’ آزادی سے ہمارا مطلب جموں کشمیر کی مقدس دھرتی سے غیر ملکی تسلط کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بھوک افلاس ، جہالت ، بیماری ، معاشی، سماجی نا ہمواری کو شکست دینا بھی ہے ۔ اور ایک دن ہم آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔

میری گزارش ہے کہ سر دست چند باتوں پر اتفاق رائے پیدا کر کے ان پر فوکس کیا جائے۔ اور غیر مبہم پیغام دیا جائے کہ :

۱۔ ریاست جموں کشمیر کے عوام مکمل آزاد جمہوری خود مختار مملکت کا قیام چاہتے ہیں ۔ یہی ایک حل ہے اور ایک منزل۔

۲۔ بھارت اور پاکستان اپنی اپنی افواج کے نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کی ۱۳ اگست ۱۹۴۸ کی قرارداد اور اس سے منسلکہ معاہدہ کی روشنی میں عملدرآمد کر کے جموں کشمیر کے عوام پر مسلط خوف و دہشت کی فضا ختم کریں۔ تاکہ عام شہری زندگی بحال ہو بچے سکولوں میں جا سکیں۔جب کسی علاقہ میں فوج ہو گی تو امن نہیں بد امنی آئے گی۔ ستر سال قبل جموں کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی فوجیں آ دھمکیں۔ نکلنے کا وعدہ کر کے نکلی نہیں۔ ان ستر سالوں میں حساب لگایں کہ جموں کشمیر میں کتنے شہری مارے گئے ۔ غیر مصدقہ عام اندازے کہتے ہیں ۹۰ ہزار ۔

۳۔ طرز فکر و عمل میں بنیادی تبدیلی لانا ہو گی۔ ابہام دور کرنا ہوں گے۔ ایک دوسرے کے لیے شکوک شبہات ختم کرنا ہونگے۔ اور دنیا کو اور اپنے عوام کو صاف صاف بتانا ہو گا کہ ہم اصل میں چاہتے کیا ہیں ؟۔ مبہم نعرے ؟ کشمیر اٹوٹ انگ، کشمیر شہ رگ، حق خود ارادیت دو کہ ہم کسی ایک ملک کے غلام بنیں ، اب یہ سب فرسودہ اور رام کہانیاں بن چکی ہیں۔ ان نعروں اور ان کا پرچار کرنے والوں پر عوام کا اعتبار نہیں اور یہ سب حضرات اور پارٹیاں جموں کشمیر کے مختلف حل تجویز کرتے ہیں مگر اپنی منزل اور مقاصد بیان نہیں کرتے۔ اور کشمیر کی خود مختاری کا آپشن پسند کرنے کے باوجود اس کا اظہار کرتے ہوے احتراز برتتے ہیں۔ شرم محسوس کرتے ہیں وجوہات سب جانتے ہیں۔

۴۔ کشمیری سیاسی جماعتوں کی مجبوریاں اور مسائل اپنی جگہ مگر انہں رہنمائی کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ نہیں کہ کوئی باہر سے ان کو یہ کہہ رہا ہو کہ آج آپ کو یہ کرنا ہے اور کل یہ۔ ہمیں آزادی بھارت اور پاکستان سے لینی ہے تو ہمارے لیڈران ، دانشوروں کو
دہلی اور اسلام آباد کے حکومتی وزیروں مشیروں اور ریاستی اداروں کی بجائے وہاں کے عوام اور عوام کے رہنماوں اور رائے ساز اداروں اور شخصیات سے روابط پیدا کرنے ہوں گے ۔

مضمون بہت طویل ہو گیا سب خیالات سموئے نہیں جاسکتے۔

میں اس تحریر کے ساتھ شہید مقبول بٹ کے اپنے نام دو خطوط شامل کروں گا، ان سے آپ کو میرے اور بٹ صاحب کے ساتھ قربت باہم تعلق کا اندازہ ہو جائے گا، ایک اور خط کا حوالہ میں اس جگہ دینا چاہوں گا اور فخریہ آپ کو بتانا چاہوں گا کہ مجھے بٹ صاحب نے اپنے خون دل سے جلائی ہوئی ایک’’ شمع ‘‘ قرار دیا۔ یہ ایک اعزاز ہے جو بٹ شہید نے ۳۷ سال قبل پھانسی کی کوٹھڑی سے میرے ہی ایک دوست اور ساتھی خواجہ رشید ظفر صاحب مرحوم کو اپنے جوابی خط میں لکھتے ہوئے عنایت کیا تھا ۔

خواجہ رشید ظفر صاحب کو میری بابت لکھا کہ :

’’ میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام کیا ہو سکتا ہے کہ حالات کی نامساعدگی اور وقت کا جبر نہ صرف یہ کہ وفا کی ان ’’ شمعوں ‘‘ کو بجھانے میں ناکام رہے ہیں جنہیں ہم نے خون دل سے روشن کیا ہے بلکہ ان جلتی شمعوں سے اور بھی کتنے ہی چراغ روشن ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو انشاللہ وہ دن دور نہیں جب ان چراغوں کی روشنی سارے وطن کو منور کرے گی اور نتیجہ کے طور وہ کیفیت برپا ہو گی جسے ہم بجا طور پر آزادی کا چراغاں کہہ سکیں گے۔‘‘ مقبول بٹ ۱۵ اگست ۱۹۸۱

۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے