کشمیر کونسل کا معاملہ،کون کس کا مخلص ہے؟

رات گئے ایک پمفلٹ اچانک سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس پر لکھا تھا کہ ’’ہم جملہ ملازمین کشمیر کونسل اپنے ادارے کے بالجبر خاتمے کی پرزور مذمت کرتے ہیں ۔ یہ ادارے پر نہیں اس سے وابستہ تمام افراد کے خاندانوں پر ظلم ہے۔ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے جمعہ کے روز کشمیر کونسل کے گیٹ پر اکٹھے ہونگے ۔جس میں سیاسی پارٹیاں، سول سوسائٹی اور میڈیا نمائندگان سے رابطے کیلئے لائحہ عمل پر مشاورت ہوگی۔ یاد رکھیں ، ابھی نہ بولے تو پھر کبھی نہ بول سکیں گے‘‘

اس کے بعد آج دن گیارہ بجے کشمیر کونسل کے سامنے احتجاج ہوا جس میں اپوزیشن لیڈر چوہدری یاسین نے بھی شرکت کی اور کونسل کے خاتمے کی شدید مخالفت کی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر کونسل کے خاتمے کی خبروں اوراس پر ہونے والے احتجاج پر تبصرے ہو رہے ہیں اوراس معاملے پر آزاد حکومت اور اپوزیشن اور کشمیر کونسل کے ملازمین اس طرح رد عمل دے رہے ہیں جیسے کونسل ختم ہو گئی۔

وزیراعظم آزاد کشمیر کے ترجمان کہتے ہیں ’’اس (کونسل ختم کروانے )کا کریڈٹ سیاسی لوگوں بالخصوص وزیر اعظم آزاد کشمیر کو جاتا ہے۔‘‘(واضح رہے کہ وزیر اعظم ہاوس آزاد کشمیر کی طرف سے ابھی تک ایکٹ 74 میں ترمیم یا کونسل کے خاتمے کے حوالے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ ان کے پریس سیکرٹری صرف سوشل میڈیا پر بحث کر رہے ہیں )۔ اسی طرح اپوزیشن لیڈر چوہدری یاسین کونسل کے ملازمین کے احتجاج میں شریک ہوئے اور کہا کہ’’ کونسل کو کسی صورت ختم نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے اور میرے خیال میں اس وقت وہی ردعمل چیک کیا جا رہا ہے جو گزشتہ نو سال سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے والی خبروں کو وقفے وقفے سے چلا کر کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاست کاروں کی مخلصی اور حقوق کی مخالفت کرنے والے بھی سامنے آ رہے ہیں۔

آزاد کشمیر کے نظام حکومت سے جانکاری رکھنے والوں کیلئے کچھ بھی نیا نہیں ہو گا کیونکہ اس سب کو ایک طرف ’’پولیٹیکل اسٹنٹ‘‘ کے طور پر یہ خبر کچھ لوگوں کے ذریعے پھیلائی گئی اور دوسری طرف کروائے جانے والے احتجاج میں کچھ لوگوں نے ’’خوشنودی‘‘ کیلئے کونسل کے خاتمے (جو ابھی تک نہیں ہوا) کی مخالفت کی۔ اب شائد آزاد حکومت کا یہ موقف ہو گا کہ احتجاج کیوجہ سے کشمیر کونسل ختم نہیں ہو رہی اور اپوزیشن لیڈر اسے اپنی کامیابی سمجھیں گے۔

یہ ساری صورتحال دو دن پہلے کشمیر کے حوالے سے ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس کے بعد سامنے آنے والی خبروں سے پیدا ہوئی ۔وزیر اعظم پاکستان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم فاروق حیدر ، کچھ سیکرٹریز، وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر ، وفاقی وزیر قانون بشیر ورک ، وفاقی سیکرٹری فنانس اور دیگر آفیشلز شامل تھے ۔

اجلاس کے بعد آزاد حکومت نے تو میڈیا کیلئے کوئی خبر جاری نہیں کی تاہم وزیراعظم پاکستان سیکرٹریٹ جاری خبر میں بتایا گیا کہ آزاد کشمیر کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اس کیلئے آزاد کشمیر کا بجٹ بھی بڑھایا گیا اور چین پاکستان اقتصادی راہداری میں آزاد کشمیر کو دئے جانے والے پراجیکٹ کا بھی ذکر ہے تاہم کسی آئینی معاملے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ تاہم آزاد کشمیر کے کچھ صحافیوں نے ’’ذرائع ‘‘ سے خبریں چلائیں جن کے مطابق کشمیر کونسل کو ختم کیا جا رہا ہے اور آزاد حکومت(قانون ساز اسمبلی ) کو مکمل اختیارات دیے جا رہے ہیں۔

کہیں یہ کوئی سیاسی اسٹنٹ تو نہیں ہے جسے درپردہ آزاد حکومت کی آشیر باد سے چلایا جا رہا ہے ؟ کیونکہ کچھ ہی وقت پہلے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں ایک قانون سازی کرتے ہوئے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا لیکن وہاں اسمبلی با اختیار بنانے کی کوئی بات نہیں ہوئی نہ ہی مشترکہ اجلاس میں آزاد حکومت کی جانب سے کوئی ایسا مطالبہ سامنے آیا تھا۔

موجودہ حکومت نے اس بارے میں اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی اور نہ ہی کونسل کے آئندہ بجٹ سے قبل کوئی جوائنٹ سٹنگ نظر آ رہی ہے کیونکہ مارچ میں پاکستان میں سینٹ کے انتخابات کے فورا بعد اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی اور وزیر اعظم پاکستان بھی اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جائیں گے ۔سب سے اہم یہ کہ سابقہ دور حکومت میں آزاد کشمیر کے آئینی ڈھانچے میں تبدیلی کی تجاویز کے لیے حکومتی اور اپوزیشن ارکان پر مبنی کمیٹی بنائی گئی تھی جس کا حالیہ حکومت کے آنے کے بعد کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ (شائد وہ کمیٹی فاروق حیدر نے تحلیل کر دی ہو لیکن حکومتی سطح پر کسی قسم کی مشاورت نہ ہوئی ۔ ابھی تک یہ سب ’’ون مین شو‘‘ ہی ظاہر کیا جا رہا ہے)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزاد کشمیر حکومت کو با اختیار بنایا جانا چاہئیے تاکہ وہاں کے عوام کے ووٹ کا درست معنوں میں استعمال ہو۔ وسائل پر عوام اور مقامی حکومت کا اختیار ممکن ہو سکے۔قانون ساز اسمبلی کو قانون سازی کے اختیار ات مل سکیں ۔ فاروق حیدر کا بھی یہی موقف ہے کہ اسے سرے سے ختم کیا جانا چاہئیے اور گزشتہ عام انتخابات میں ان کا انتخابی منشور یہی تھا کہ کشمیر کونسل کا خاتمہ کیا جائے گا لیکن یوں حقوق کے نام پر حق اور مخالفت میں پوائنٹ سکورنگ حکومت اور اپوزیشن کا درست عمل نہیں ہے۔

ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ کشمیر کونسل نہ صرف قانون ساز ادارہ ہے بلکہ اس کے پاس انتظامی اختیارات بھی ہیں ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کا تقرر ، چیف الیکشن کمشنر اور آڈیٹر جنرل کی تقرری کے اختیارات بھی چیئرمین کشمیر کونسل کے پاس ہیں۔اس کے علاوہ اس عبوری آئین ایکٹ 74 میں آزاد کشمیر سے بجلی و پانی پیدا کرنے کے اختیارات ، سیاحت ، آبادی کی منصوبہ بندی ، بینکنگ ، انشورنس ، سٹاک ایکسچینج اور مستقبل کی منڈیاں ، تجارتی ادارے ، ٹیلی مواصلات ، معاشی روابط کیلئے منصوبہ بندی ، ہائی ویز ، کان کنی ، آئل اینڈ گیس ، صنعتوں کی ترقی اور اخبارات کی اشاعت کا اجازت نامہ بھی کشمیر کونسل سے لینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

آزاد حکومت کی آمدنی کے بڑے ذرائع انکم ٹیکس سمیت متعدد دیگر ٹیکسز جمع کرنے کا اختیار بھی کشمیر کونسل کے پاس ہے۔اس حوالے سے قانون سازی وقت طلب معاملہ ہے جو طویل المدتی پیش بندی کا متقاضی ہے ۔کیونکہ اگر وفاقی حکومت کسی ایڈونچر کے طور پر اگر کونسل کو ختم کرتی ہے تو فوری طور پر ان اداروں کو آزاد حکومت کس طرح سنبھال سکے گی؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر وفاقی حکومت واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو آزاد کشمیر سے سیاسی کشیدگی کی فضا کو ختم کر کے آزاد حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھے تاکہ حل طلب معاملات کے حوالے سے کامیابی کا حصول ممکن ہو سکے ۔
۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے