عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم افسوسناک ہے ، پاکستان کے جید علماٗ کی متفقہ رائے

سوشل میڈیا پر عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد عجیب ماحول دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ عبد الستار ایدھی ، ڈاکٹر روتھ فاؤ ، جنرل حمید گل اور جنید جمشید کے بعد اب عاصمہ جہانگیر کی وفات پر بھی ان کے خلاف ایک مہم جاری ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے تاہم ان کے بعض خیالات کو مرضی کے معانی اور مفہوم پہنا کر ان کے خلاف غدار اور اسلام دشمن کی مہم جاری ہے ۔ اسی طرح تصاویر کا پس منظر جانے بغیر ہی تصویروں کے من پسند کیپشن دے دیے گئے ہیں ۔ مسلمان معاشروں میں کبھی ایسی روایت نہیں رہی ۔ اس حوالے سے ہم نے مختلف مکاتب فکر کے جید علما سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھاکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کسی غیر مسلم کی وفات کی خبر پہنچتی تو ان کا طرز عمل کیا ہوتا تھا ؟ اسی طرح مسلم معاشرے میں جب کسی نظریاتی مخالف کی وفات ہو جائے تو ہمارا رویہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کیسا ہونا چاہیے ؟

اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیر مین اور پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اسلام انسانی اقدار کی سربلندی کا مذہب ہے اور رسول اللہ ﷺ انسانی قدروں کا بے انتہا احترام کرتے اور اس کی تربیت بھی کر کے گئے ۔ یہودی کے جنازے کا احترام ، ایک منافق کی قبر پر جانا اور نجران کے مسیحیوں کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی سہولت فراہمی انسانی اقدار کا عظیم نمونہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت کا احترام تو رسول اللہ ﷺ نے میدان جنگ میں بھی کیا اور سکھایا کہ کبھی بھی خواتین ، بچوں ، بزرگوں یہاں تک کہ اپنے عقیدے کے مخالف غیر مسلح لوگوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ انہوں نے انسانی قدروں کے احترام کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ صلیبی جنگوں کے دوران مشہور صلیبی جنگجو جرنیل رچرڈ دی لائن ہارٹ کا گھوڑا بیمار ہو گیا تو صلاح الدین ایوبی نے اپنے اصطبل کا سب سے بہترین گھوڑا اور طبیب بھجوایا تاکہ وہ صحت یاب ہو جائے ۔ یہ وہ اعلی انسانی قدریں ہیں جنہیں ہمیں اپنے معاشرے میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہتمم ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے کہا ہے کہ کسی کی وفات پر خوشی منانے جیسے عمل کو قرآن کریم سے لیکر احادیث نبویہ تک کہیں بھی تائید حاصل نہیں ۔ اس طرز عمل کو درست اور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ مرنے والے کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو جاتا ہے ، ہمیں خاموشی کا حکم ہے ۔ ظاہری اسباب میں مسلمان کے لئے جنتی اور اسلام کے دشمن کے لیے جہنم کا ذکر ہے مگر یہ بات بھی اپنے سامنے کے حالات کی وجہ سے صرف ایک رائے کا درجہ رکھتی ہے ۔ حق کا علم صرف اللہ ہی کی ذات کو ہے ۔

جامعہ نعیمیہ لاہور کے پرنسپل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی قدروں سے خالی ہوتا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صوفیا اور علماٗ نے اپنی شاعری میں معاشرے کی بڑے خوبصورت انداز میں تربیت کی ہے ۔ "دشمن مرے تے خوش نہ ہوئیے، سجناں وی ٹر جانا ایہہ خوش نہیں ہونا چاہیے”۔انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کا معاملہ اب اللہ کے پاس ہے ۔ ہم نہ اس میں کوئی کمی کر سکتے ہیں اور نا ہی کوئی اضافہ کر سکتے ہیں ۔ ہمارے پاس صرف ایک ہی اختیار ہےکہ اس دنیا سے جانے والے کے لیے مغفرت کی دعا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں کسی سے اختلاف بھی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی وفات پر خاموشی کا اظہار کریں بعد میں اگر کہیں ضرورت تو بیان کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بزرگوں کے درمیان شدید علمی اختلاف کے باوجود بھی غمی اور خوشی کے رشتے بر قرار رہتے تھے ۔

جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے نائب مہتمم اور معروف عالم دین مفتی محمد زاہد نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کافروں کی وفات کے بعد بھی ان کے حسن سلوک کی وجہ سے تعریف فرمائی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مطعم بن عدی بنو نوفل کا سردار تھا اس نے فجارکی جنگ میں اپنے قبیلے کی قیادت کی تھی ۔ نخلہ (طائف)سے واپسی پر جب رسول اللہ کوہ حرا پہنچے تو یہاں آپ نے بعض سردارانِ قریش کے نام ضمانت اور پناہ کا پیغام بھیجا تاہم کوئی شخص تیار نہ ہوا ۔ مطعم بن عدی کے پاس جب آپ ﷺکا پیغام پہنچا تو مشرک ہونے کے باوجود وہ بھی اگرچہ مشرک اورکافر تھا مگر عربی شرافت اورقوی حمیت کے جذبہ سے فوراً کھڑا ہوا اورآنحضرت ﷺ اپنے ہمراہ لے کر مکہ میں آگیا ،مطعم کے بیٹے ننگی تلواریں لے کر خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے، آنحضرت ﷺنے خانہ کعبہ کا طواف کیا اس کے بعد مطعم اوراس کے بیٹوں نے ننگی تلواروں کے سائے میں آپ ﷺ کو گھر تک پہنچادیا۔ قریش نے مطعم سے پوچھا کہ تمھارا محمد ﷺ سے کیا تعلق ہے؟ مطعم نے جواب دیا کہ میرا تعلق تو کوئی نہیں لیکن وہ میری حمایت میں ہیں کوئی ان کو برے ارادے سے نہیں دیکھ سکتا ۔ مطعم کی یہ ہمت اور حمایت دیکھ کر قریش خاموش ہو گئے ۔ رسول اللہﷺ نے مطعم بن عدی کے اس حسنِ سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا، چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہوکر آئی اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے مطعم ابن عدی کے بیٹے حضرت جبیر بن مطعمؓ حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا :اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے (جو کفر کی حالت میں فوت ہو گئے تھے )اور وہ مجھ سے ان کی رہائی کا کہتے تو میں صرف ان کی خاطر انہیں بغیر فدیہ لیے رہا کر دیتا ۔ آپ نے اس موقع پر انہیں اچھے الفاط میں یاد کیا (یہ واقعہ زاد المعاد ، سیرت ابن ہشام اور صیحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 402 میں موجود ہے)

سابق رکن قومی اسمبلی اور جماعت اسلامی کی رہ نما سمیعہ راحیل قاضی نے کہا ہے کہ اسلام ہماری ہر معاملے میں بہترین رہ نمائی کرتا ہے اور ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہےکہ ہم رسول اللہ ص کی سیرت کی روشنی میں اپنی زندگی گذاریں ۔ انہوں نے کہا کہ کسی کی وفات پر رد عمل میں بھی خوشیاں منانا درست نہیں ۔ موت تو ایک یاد دہانی ہے ۔ جب کسی کی موت کا اعلان ہوتا ہے تو در اصل وہ ہمارے لیے ایک گھنٹی ہوتی ہے کہ اب میں تمھارے طرف بھی آؤں گی ۔ کسی کی موت پر خوشی وہ منائے جسے خود موت نہ آسکتی ہو ، موت کی خبر سن کر غفلت کی زندگی چھوڑنے اور اچھے اخلاق ، کردار اور افعال اختیار کرنے چاہییں ۔ انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر سے نظریاتی اختلاف کے باوجود ان سے قابل فخر دوستی اور تعلق تھا ۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنی چھوٹی بہن کہتی تھیں ۔ ان کی وفات کا دکھ اور افسوس ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2002 میں جب پرویز مشرف کی حکومت نے ان کے والد قاضی حسین احمد کو دہشت گردی میں ملوث کرنے کی کوشش کی تو یہ عاصمہ جہانگیر ہی تھیں جو قاضی صاحب کی حمایت میں بول رہی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کے گھر میں غمی اور خوشی کے موقع پر آنا جانا لگا رہتا ہے ۔

جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سربراہ مفتی محمد نعیم نے کہا کہ اگر کوئی غیر مسلم فوت ہو جائے تو اس کی اس کسی خاص باب میں خوبی کا ذکر کیا جا سکتا ہے تاہم اس شخص کی مذہبی نسبت سے بات نہ کی جائے ۔انہوں نے کہ رسول اللہ ص کی واضح حدیث ہے کہ مرنے والے کے بارے میں خیر کی بات کرو لیکن اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس کی وجہ سے مذہبی تعلیمات پر حملہ ہوتا ہو تو اس کے نظریے کے بارے میں مناسب الفاظ میں اظہار کرنا چاہیے تاہم کسی کی موت پر خوشی کا اظہار کرنا مناسب عمل نہیں ۔

مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور معروف عالم دین علامہ محمد امین شہیدی نے کہا کہ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ زندگی کے بعد عالم آخرت کے فیصلے کرنے کا اختیار بھی اللہ ہی کو حاصل ہے ، کسی بندے کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کی موت کے بعد کی زندگی کا فیصلہ کرے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے ایسی رائے دینا شروع کردے جو اللہ کے دائرہ اختیار ہو ۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات بھی اس چیز کی واضح نشاہدہی فرماتی ہے ۔ جب ان تک کسی کی موت کی خبر پہنچتی تو وہ سب سے پہلے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے تھے ۔ آپ کسی کی زندگی کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے اچھا یا برا کہہ سکتے ہیں لیکن دونوں صورتوں میں موت کے بعد کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ اللہ ہمارا اور اس کا مالک ہے ۔ بڑے سے بڑے انسان کے پاس بھی اپنی پسند ، ناپسند یا محبت اور نفرت کی بنیاد پر کسی کو جنت یا جہنم بھیجنے کا اختیار نہیں ۔ قبر کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔ مرنے والوں سے متعلق گفتگو میں احتیاط کی ضروت ہے ۔ اللہ کی مسند پر بیٹھ کر اللہ کے اختیار کے فیصلے دینا شروع کر دینا اپنی عاقبت خراب کرنے کے مترادف ہے ۔ اس قسم کا ماحول ہمارےاخلاقی ، دینی اور فکری طور پر زوال کا سبب ہیں ۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) پنجاب کی مجلس فقہی کے چئیرمین اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی نصاب کمیٹی کے رکن مفتی عبدالرحمان نے کہا کہ اسلام ہمیں کسی کی موت پر خوشی یا جشن منانے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ اپنے دشمن کو کسی مصیبت میں گرفتار دیکھ کر خوشی کا اظہار مت کرو ، عین ممکن ہے کہ اللہ اسے اس مصیبت سے نکال دے اور تمھیں اس میں ڈال دے ۔ دشمن مرے تو خوشی نہ کریے ، سجناں وی ٹر جانا۔ موت تو برحق ہے ۔ موت کے اندر درس عبرت ہے ۔ کسی کی موت پر خوشی منانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حدیث کے مطابق اپنے مردوں کا تذکرہ خیر سے کرو ۔ مرنے والوں کی خوبیاں بیان کی جانی چاہییں ۔ اختلاف کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ دلیل پر مبنی اختلافات زندہ معاشروں کا خاصہ ہے ۔ کسی کے مرنے سے اس کے نظریات نہیں ختم ہوتے ۔ موت سے عبرت حاصل ہوتی ہے ۔ ایسا کام کرنا خلاف اسلام ہے جس سے معاشرے سے میں کشیدگی پیدا ہوتی ہو ۔ انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر انہوں نے ملتان میں مظاہرہ کیا جس میں وہ زندگی میں پہلی بار گرفتار ہوئے ۔ تاہم ان کے نظریات کے ساتھ اختلاف کے باوجود ان کی جرات ، بہادری اور استبدادی قوتوں کے خلاف کاموں کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی وفات کا ٖصدمہ ہے ۔

جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے مہتمم اور جماعت اہل حرم پاکستان کے سربراہ مفتی گلزار احمد نعیمی نے کہا ہے کہ موت کی خبر یا ذکر انسان کے روحانی وجود کو پاک کرنے کا سبب بنتی ہے اور اللہ کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ ہے ۔ مسلمان یا غیر مسلم سب للہ کے سامنے جوابدہ ہیں اور ان کو سزا اور جزا اللہ نے ہی دینی ہے ۔ انہوں نے کچھ عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف طبقات نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر مختلف شخصیات کی وفات پر عجیب و غیریب رویے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اسلام اس رویے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا ۔

ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ ثاقب اکبر نے کہا ہے کہ اسلام کے نام پر بات کرتے ہوئے ہمیں اسوہ رسول ﷺ کو سامنے رکھنا چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک یہودی کا جنازہ جا رہا تھا ۔ آپ احتراما کھڑے ہوگئے ۔ صحابہ نے کہا کہ یارسوال للہ یہودی کا جنازہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا انسان تو ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اپنے جنازوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے نجران کے مسیحیوں کے وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور انہیں ان کے طریقے کے مطابق عبادت کی اجازت دی ۔ اسی طرح ایک ایسے منافق کی وفات پر بھی اس کے جنازے کا احترام کیا اور اس کی قبر پر بھی گئے جو اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا ۔ رسول اللہ سے نسبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم دل و جان سے ان کی تعلیمات پر عمل کریں ۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی وفات پر اختلاف نظر کے باوجود مذہبی جماعتوں کے قائدین نے اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔ اپنی رائے ضرور رکھنی چاہیے لیکن مرنے والے کے بارے میں جو طرز عمل سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں ، انتہائی قابل افسوس ہے ۔ جس طرح زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اسی طرح جنت اور جہنم بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اللہ کے اختیار کو اپنے اختیار میں لینا کسی صورت قابل قبول رویہ نہیں ۔

پاکستان اسلامک مشن کے سربراہ مولانا قاری سید اکبر علی شاہ نے کہا کہ دین کے طالب علم کی زندگی آخرت میں کامیابی کے تصور کی بنیاد پر بسر ہوتی ہے اور وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے معاشرے میں فساد یا انتشار پھیلے ۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس کا معاملہ اب اللہ کے پاس ہے ۔ ہمارے اختلافات زندہ شخص کے ساتھ تھے ۔ جب تک وہ زندہ ہوتا ہے ، ہم ایک دوسرے کے نظریات پر گفتگو کرتے ہیں لیکن اس کی وفات کے ساتھ ہی بات چیت اور ہمارے ساتھ تعلق کا باب بند ہو جاتا ہے ۔ اب ہمارے ساتھ ایک ہی تعلق ہے اور وہ یہ کہ ہم اعلی انسانی اقدار کے مطابق اسے دنیا سے رخصت کریں ۔ اگر ہمارے بس میں ہے تو اس کے اچھے کاموں کو یاد رکھیں نہیں تو خاموشی اختیار کی جائے تاہم نظریاتی اختلافات کا ذکر مناسب الفاظ میں بوقت ضرورت کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ مصیبت زدہ اور دکھی خاندان کو مزید دکھ دینا کسی صورت بھی جائز نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی معاملات جذبات کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اس لیے مذہبی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں سوچ سمجھ کر الفاظ کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے