ہم بابے نعمتے کے عہد میں جی رہے ہیں!

لگ بھگ نوے کی دھائی میں جب کنٹرول لائن سے جُڑے علاقے وادی نیلم میں میں نے آنکھ کھولی تو کالے بوٹوں کی دہشت سے پوری وادی لرزا کرتی تھی ۔ جنگ کا سا سماں تھا ،راستے بند، بازار سنسان، کھیت کھلیان ویران اور جنگل آگ میں لپٹے ہوئے تھے ۔ آدم زاد گھروں کے اندر مقید تھے اور کسی اندھی گولی کے انتظار میں موت کو آتا دیکھ رہے تھے ۔ گھروں کے اوپر سے سائرن بجاتے مارٹر گولے گذرتے تو خوف و دہشت سے آنکھ میں آنسو بھی خشک ہو جاتے ۔ لاشیں گرتے دیکھتے تو خدا کے نہ ہونے کا یقین کامل ہو جاتا اور زمین کے اندر بنے بینکرز ہی میں کھاتے ،نہاتے ،دھوتے اور سوتے ۔نہ روشنی اندر ،نہ آواز اندر بس کبھی کبھار کوئی آواراہ سانپ نکل آتا جو مبہوت سائے دیکھ کر دم دبا کر بھاگ جاتا۔ آرمی چیک پوسٹس پر جب گولہ بارود ختم ہو جاتا تو رات کے اندھیرے میں فوجی جوان بنکتر نما جھونپڑیوں سے مردوں کو نکال کھینچتے اور بیگار کیلیے لے جاتے ۔ کئی کئی دن تک مرد بیگار کے فرائض سرانجام دیتے جب کہ خاندان والے فاتحہ پڑھ کے صبر و شکر کر کے بیٹھ جاتے ۔

تب فوج سے خوف آتا تھا ۔ آرمی یونیفارم والے کو دیکھ کر شلوار گیلی ہو جاتی تھی اور حلق خُشک۔ تب میر انیس کے مرثیے یاد آتے اور کربلا کا منظر بہ نفس نفیس خود دیکھتے تھے ۔ گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان بھی ایسی ہی کسی صورتحال سے دوچار ہے ۔ کبھی ڈرون حملے، کبھی خودکش دھماکے، کبھی سکولوں پر حملے، کبھی ملالہ کی پذیرائیاں ، کبھی عدلیہ بحالی، کبھی مہنگائی کی دوھائی، کبھی دھاندلی کا ڈرامہ، کبھی ضرب عضب کا نشانہ ،کبھی تحریک قصاص کا رقص ، کبھی مغربی تہذیب کاعکس تو کبھی اسلام کے نام پر بلیک میلنگ،کبھی عدلیہ بحال تحریک تو کبھی جی ٹی روڈ مشن ۔ راستے بند ، کاروبار ٹھپ، آگ، فساد،گالم گلوچ، مار پیٹ ،چوری،ڈکیتی ،خوف وہراس۔

فوج سے خوف ختم ، اب کوئی ڈر نہیں ، امن ہے اب کوئی جنگ نہیں مگر عدلیہ سے خوف شروع ، جج کانام سنتے ہی آدمی سر تا پاؤں پسینے میں شرابور، لب سلے ہوئے کہ ہلے تو کہیں توہین عدالت کا مرتکب ہی نہ ہوجاؤں۔ انصاف والوں کا ہر چیز پر از خود نوٹس۔ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے مُلا دو پیادہ اور بیر بل کا آپس میں اینٹ کتے کا بیر ہو۔ عدلیہ والے پارلیمنٹ کو نہیں مانتے تو پارلیمنٹ والے عدلیہ کو ۔ جج چاہتے ہیں کہ ملک میں اب کی بار ہم انصافی مارشل لا لگائیں جب کہ عوام چاہتی ہے کہ نہیں مارشل لا ہو تو بوٹی ہی ورنہ جمہوری مارشل لا ہی چلے گا ۔

جج صاحبان عدالتوں میں سیاسی لیڈروں کو بلا بلا کر خوب بے عزت کرتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں، چور کہتے ہیں، گارڈ فادر کہتے ہیں، ڈاکو کہتے ہیں اور دوسری طرف ایک خط پرزرداری کے بہادر بچوں، سرکاری ملازموں اور قوم کے حقیقی مجرموں کو حفاظتی ضمانت دے دیتے ہیں اور پھر آنکھیں راہوں میں بچھا کر آمد کے منتظر رہتے ہیں، وکیل کو ڈانٹتے ہیں کہ آپ جا کر پہلا سبق جو آپ کو دیا ہے اسے یاد کریں ۔ عدالت میں بلا کر کچھ کہنے سے پہلے ہی گرفتاری کاحکم دیتے ہیں اور پھر گرفتاری کا ٹو سیشن کرواتے ہیں ۔

کسی کو معافی مانگنے پر معاف کر دیتے ہیں اور کسی سے معافی منگوا کر بھی توہین عدالت کی مُہر ثبت کر دیتے ہیں۔ نام لے لے کر گالیاں دینے والے لولوں لنگڑوں کی توہین عدالت نظر نہیں آتی کیونکہ توہین عدالت کی عینک صرف اور صرف جمہوریت کی کی ہوئی توہین ہی دیکھ سکتی ہے ۔ ہر کوئی زبان کو تالے لگاتا پھرتا ہے کہ کہیں توہین عدالت میں بے موت نہ مارے جائیں ۔ ووٹ کا تقدس کیا ہے ؟ لوگ کون ہیں کسی کو منتخب کرنے والے؟ ہم بابے نعمتے یہاں صرف انصاف کرنے بیٹھے ہیں کیا؟ ہمارے پاس چھے دہائیوں کے کیس پڑے ہوئے ہیں ۔ ہم وہ کیوں نمٹائیں ۔ فوج اور سیاستدان ہی کاکام نہیں ہے حکومتیں کرنا ۔ ہمارا کام بھی ہے ۔ ہم بھی ریاست کا تیسرا ستون ہیں ۔ایک چانس ہمیں بھی دیا جائے ۔

اس ساری صورت حال کو دیکھ دیکھ کر ہتھوڑے کی ٹھوک لگانے والوں سے خوف آ رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے