محروم معاشرے کا اثاثہ

بات تو عاصمہ جہانگیر کی کرنی ہے لیکن لکھنے بیٹھا ہوں تو نہ جانے کہاں سے گلیلیو دھم سے میرے دھیان میں آبیٹھا ہے۔ اور وہ بھی عظیم جرمن ڈرامہ نگار بریخت کی ایک تخلیق کے حوالے سے۔ تو چلئے پہلے گلیلیو کو نمٹاتے ہیں کہ جو سترھویں صدی کااطالوی ماہر فلکیات اور فلسفی تھا۔ اس کی سائنسی دریافتیں قدامت پرست مذہبی پیش وائوں کے عقائد سے متصادم تھیں۔ رومن کیتھولک کلیسا نے گلیلیو پر مقدمہ دائر کردیا۔ شدید دبائو ڈالا گیا کہ گلیلیو اپنی دریافتوں سے منکر ہو جائے۔ اور ایسا ہوا کہ گلیلیو نے سرجھکالیا اور توبہ کرلی۔

بریخت نے اپنے ڈرامے میں اس موقع پر گلیلیو کے شاگردوں کی مایوسی کا ذکر کیا اور ان میں ایک نے اپنے استاد سے یہ شکوہ کیا کہ بدبخت ہے وہ ملک کہ جس میں کوئی ہیرو پیدا نہ ہو۔ اب سنئے کہ گلیلیو نے اس کا کیا جواب دیا اور ظاہر ہے کہ یہ بریخت کے ڈرامے کا مکالمہ ہے جس کا ترجمہ میں کچھ یوں کروں گا کہ ’’نہیں… بدبخت ہے وہ ملک جسے ہیرو کی ضرورت ہو۔‘‘ بات ذرا گہری ہے۔ ہیرو کی ضرورت ہوتی ہی کسی ایسے ملک اور معاشرے کو جو مشکلات میں گھرا ہو اور جہاں قدامت پرست اور کٹر قوتیں ترقی اور نئے خیالات پر کفر کا فتویٰ لگاتی ہوں۔ گویا گلیلیو ہیرو بننے کو تیار نہ تھا کیونکہ اس میں جاں کا زیاں بھی ممکن تھا۔ بریخت نے اپنا یہ ڈراما ہٹلر کے عروج کے زمانے میں تحریر کیا تھا اور یہ انتہا پسند آمرانہ قوتوں اور سائنسی حقائق کے درمیان تنائو کا ایک استعارہ تھا۔ اس ڈرامے میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ جبر کے ماحول میں سچائی کا دفاع کس حد تک کیا جاسکتا ہے۔

اس ڈرامے کی معنویت کچھ ایسی تھی کہ ضیاء الحق کے زمانے میں اسے اردو میں اسٹیج کیا گیا۔ اسلم اظہر نے مرکزی کردار ادا کیا اور ہمارے اپنے عمران اسلم بھی اس کا ایک نمایاں حصہ تھے۔ اب پتہ نہیں کہ گلیلیو کی مداخلت میرے اس بیان پر کیا اثر ڈالے گی البتہ گلیلیو سے رخصت ہوتے وقت اس کا ایک مقولہ یاد کر لیتے ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ میں یہ نہیں مان سکتا کہ جس خدا نے ہمیں عقل اور شعور اور احساس سے نوازا ہے وہ یہ چاہے گا کہ ہم اپنی ان صلاحیتوں سے دستبردار ہوجائیں۔ اور ہاں ایک اور اہم بات ۔ موجودہ عہد میں پاپائے اعظم نے کلیسا کی جانب سے گلیلیو سے معافی مانگی ہے۔ یہ تسلیم کیا ہے کہ گلیلیو حق پر تھا اور اس وقت کے مذہبی رہنمائوں نے اس کے ساتھ بہت زیادتی کی تھی۔

اوراب عاصمہ جہانگیر کا کچھ ذکر۔ اور پہلے یہ وضاحت کہ میں ان کا گلیلیو کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کررہا۔ بس یہ سوال اٹھایا ہے کہ کسی ملک میں ہیرو کی ضرورت اور پھر اس میں کسی ہیرو کے ابھرنے سے اس کی خوش قسمتی یا بدنصیبی کا کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ گلیلیو کی موت کو چند برسوں بعد پانچ سوسال ہوجائیں گے۔ دنیا ظاہر ہے کہ بہت بدل چکی ہے۔ لیکن نظریاًت کی جنگ جاری ہے۔ ناقابل یقین سماجی اور سائنسی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ قرون وسطیٰ کی سوچ اور تعصبات بھی ابھی زندہ ہیں۔ قدامت پرستی اور روشن خیالی کی جنگ پاکستان میں کس طرح جاری ہے۔ عاصمہ جہانگیر اس کی ایک روشن علامت ہیں۔ میر ی نظر میں وہ اس مصیبت زدہ ملک کی خوش قسمتی بن کر زندہ رہیں اور اس کی گواہی وہی لوگ دے رہے ہیں کہ جو ان سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کی سوچ کیا ہے۔ ان کے نظریات کیا ہیں اور ان کےمقاصد کیا ہیں۔ ہم کبھی کبھی اپنے دشمنوں سے پہچانے جاتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ہمت اور عزم اور حوصلے کا امتحان بھی یہی ہے کہ ہم کن مخالف قوتوں کو کس طرح للکارتے ہیں اور کس ثابت قدمی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ انسانی حقوق اور مظلوم طبقات کے لئے عاصمہ جہانگیر نے جو جنگ لڑی اس کی کوئی مثال نہیں۔ آپ بس یہ دیکھ لیں کہ پوری دنیا میں ان کی خدمات کا کس انداز میں اعتراف کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تحریک کے حوالے سے انہیں عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ اس طرح وہ ہمارے ملک کی آبرو بن کر زندہ رہیں۔

یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کا نام ان چند خواتین نے روشن کیا کہ جنہیں ان کے اپنے ملک میں اتنی دشواریاں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور میں اپنی موت سے صرف چھ دن پہلے وہ برطانیہ میں، آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تقریب میں شریک تھیں۔ یہ بے نظیر بھٹو کی دسویں برسی کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی۔ مقررین میں جو دو نام سب سے نمایاں تھےوہ تھے عاصمہ جہانگیر اور ملالہ یوسف زئی کے۔ کوئی دوسرے تین نام آپ بتا سکتے ہیں کہ جو ایک جدید، مہذب ، پرامن اور جمہوری پاکستان کی ان سے بہتر علامت بن سکتےہیں؟

عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر ہمیں گزشتہ اتوار کی سہ پہر ملی۔ تب سے اب تک وہ مسلسل جیسے ہمارے ساتھ ہیں۔ ان کے بارے میں خبریں، کالم اور گفتگو جاری ہے۔ اس کے علاوہ وہ ان بے شمار افراد کی یادوں میں ایک روشنی کی مانند موجود ہیں کہ جن کی زندگی کو انہوں نے کسی نہ کسی انداز میں چھوا تھا۔ میں نے بھی پہلے یہ سوچا تھا کہ اس کالم کے لئے میں اپنی چند یادوں کا انتخاب کروں گا۔ پھر میں نے یہ ارادہ بدل دیا کیونکہ 20سال کے عرصے پر محیط ان یادوں کو سمیٹنا ایک مشکل کام ہے۔ پھر اس کالم کا دامن بھی تنگ ہےاور کئی باتوں کے کہنےکا ڈھنگ بھی مجھے نہیں آتا۔ یہ یادیں اپنے قبیلہ بلکہ عاصمہ جہانگیر کے قبیلے کے افراد کے ساتھ گفتگو میں یا کبھی کبھی بغیر کچھ کہے ہی دہرائی جاسکتی ہیں۔

یہ قبیلہ کن لوگوں پر مشتمل ہے اس کا اندازہ آپ عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں شامل خواتین و حضرات کو دیکھ کر کرسکتے ہیں۔ ایک طرح سے اس پاکستان کی روح وہاں موجود تھی جس کا خواب وہ لوگ دیکھتے ہیں جو انسانی حقوق، سماجی انصاف اور باوقار آزادی کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس ملک میں بہت لوگ عاصمہ جہانگیر کو ناپسند کرتے ہیں بلکہ نفرت بھی کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ میری نظر میں اس کی بنیادی وجہ وہ حکمراں خیالات ہیں جو زندگی کے حقائق کے بارے میں کھل کر گفتگو کی اجازت نہیں دیتے۔ وہی بات جو فیض نے کہی تھی کہ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھاکے چلے۔ اور یہ دیکھئے کہ معاشرہ میں کس کس چیز کی کمی ہے۔ علم اور مکالمے کی کمی ہے۔ برداشت اور رواداری کی کمی ہے۔ سماجی انصاف کی کمی ہے۔ اور اب تو افسوس یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی بھی کمی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے