زکوٹا جن

حسن پرست معاشرے میں اپنے دبتے ہوئے رنگ ، کوتاہ قد اور عام سے نقش و نگار والا ایک شخص ٹی وی سکرین پر کب سے کام کر رہا تھا کسی کو یاد بھی نہیں۔ لیکن نوے کی دہائی میں ٹی وی دیکھ کر بڑے ہونے والے اکثر بچوں کو چیختے ہوئے زرد لباس میں، سر پر سینگ والی ٹوپی پہنے یہ شخص پیارا لگتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک دوست جن تھا۔ جس کا نام زکوٹا تھا۔ جو گرج دار آواز میں پوچھتا تھا : مجھے کام بتاوُ ، میں کیا کروں؟ میں کس کو کھاوں؟

ہم میں سے اکثر بچے اس کردار کے اصلی نام سے واقف نہیں تھے۔ اور شاید انہیں اصلی جن ہی سمجھتے تھے۔ اس لئے ان کے تصور میں آج بھی جن ایک گہرے رنگ، چھوٹے قد اور گرجتی آواز والا کردار ہے۔

لیکن منا لاہوری کو اپنا یہ کردار کیسا لگتا ہوگا؟ کیا وہ ہمیشہ ایک جن کی حیثیت سے جانے جانا چاہتے ہوں گے؟ کیا وہ اپنی کبھی اس خول سے نکل کر کوئی اور کردار نبھانے کے قابل نہیں تھے؟ کیا ان کی اداکاری میں اتنا دم نہیں تھا کہ وہ آیندہ کے کسی ڈرامہ میں ایک باپ، بھائی، شوہر یا محبوب کا کردار نبھا سکتے؟

ہمارے حسن پرست معاشرے نے ایک فنکار کو صرف اس لئے ضائع کر دیا کیونکہ وہ سکرین پر اسے ایک بارجن تسلیم کر چکے تھے۔ اس لیے کسی لکھاری ، کسی پروڈیوسر نے ایسا کوئی کردار تخلیق ہی نہیں کیا جو منا لاہوری کو زکوٹا کے زرد لباس سے نکال کر کسی تھری پیس سوٹ میں پیش کرتا، کسی دفتر کی کرسی پر بٹھا دیتا یا کسی لان میں چہل قدمی کرتا دکھا دیتا۔

شوبز کی صنعت میں حسن کی بہت مانگ ہے، لیکن حقیقی دنیا میں سب لوگ کسی ایک معیار کے مطابق نہیں تخلیق ہوتے۔ ہر ایک کی اپنی شکل، شباھت، قد کاٹھ، رنگ و نقوش ہوتے ہیں۔ اسی لیے دنیا کے دیگر ممالک میں ایسے کردار بھی لکھے جاتے ہیں جو رائج معیار حسن سے الگ ہوتے ہیں۔ جن سے عام آدمی انسیت محسوس کرتا ہے۔ جو لوگوں میں احساس کمتری نہیں پیدا ہونے دیتے بلکہ جینے کا حوصلہ بنتے ہیں۔

اور فنکار کو بھی کام ملتا رہتا ہے، ان کے گھر کا چولہا بھی جلتا ہے اور ان کی پہچان کی بھوک بھی مٹتی رہتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے