تیسری شادی کی پہلی کہانی

نکاح ایک مقدس کام ہے اسے طنز اور دشنام کا عنوان نہیں بنایا جا سکتا ۔ عمران خان نے نکاح کیا ہے کوئی جرم نہیں کیا کہ ان کا ہانکا ہی کر لیا جائے ۔ ہمارے ہاں بہت سے افرادکی زندگی کے تاریک ترین گوشوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا جاتا ہے کہ یہ ان کا ذاتی فعل ہے لیکن عمران خان شادی کرتے ہیں توانہیں سینگوں پر لے لیاجاتا ہے۔ باقی حضرات کی جملہ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں بھی یہاں خبر نہیں بن سکتیں لیکن عمران خان کی شادی ہر محفل کا موضوع بن چکی ہے ۔ سوال یہ ہے کیوں؟

میرے خیال میں جہاں دیگر عوامل کارفرما ہیں وہیں عمران خان کی افتاد طبع بھی اس کی ذمہ دار ہے ۔ نجیب لوگ اپنے نجی معاملات کو کوچہ و بازار میں نہیں لاتے ۔ عمران خان سے غلطی یہ ہوئی کہ ڈی چوک کے دھرنے میں وہ اپنی شادی کو زیر بحث لائے اور خود لائے جب انہوں نے کارکنان سے کہا کہ جلدی سے نیا پاکستان بنانا ہے کیونکہ اس کے بعد میں شادی کر لوں گا ۔ انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ تناؤ کے ماحول میں جب وہ مخالفین کا ناطقہ بند کر چکے تھے اگر وہ اپنی شادی کو یوں زیر بحث لائیں گے تو سیاسی مخالفین تو لازم ہے کہ جوب آں غزل کے طور پر دولہے کا سہراکہنا شروع کر دیں ۔ چنانچہ جو ہوا وہ ایک تاریخ ہے ۔

سید مودودی نے کہا تھا غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی ۔ عمران خان کی اس غلطی کے ہاں بھی اولاد نرینہ کا سلسلہ جاری رہا ۔ جناب عارف نظامی نے ان کی شادی کی خبر دی تو تحریک انصاف نے اس کی باجماعت تردید کرنا شروع کر دی حالانکہ یہ عمران خان کا نجی معاملہ تھا اور پارٹی ترجمان کا یہ منصب نہ تھا اس پر بات کرتا ۔ پھر جب شادی کو تسلیم کیا گیا تو اس کا باضابطہ اعلان بھی پارٹی ترجمان نے کیا اور جب نعیم الحق ریحام خان کو بیگم صا حبہ بیگم صاحبہ کہتے پائے گئے تو جاننے والے خوب جانتے ہیں موصوف کی آنکھوں میں کتنی خفت اور بد حواسی تھی ۔

بعد میں ریحام اور عمران میں تناؤ کی خبریں آئیں تو ان کی تردید بھی پارٹی رہنما کرتے رہے ۔ سب سے حیران کر دینے والا منظر وہ تھا جب شیریں مزاری جیسی تعلیم یافتہ خاتون میڈیا کو یہ وضاحت کرتی پائی گئیں کہ ریحام خان نے عمران خان کو نہیں مارا ۔ ریحام نے عمران کو مارا تھا یا نہیں مارا تھا ہر دوصورتوں میں یہ ایک ذاتی معاملہ تھا ۔ پارٹی ترجمان کا یہ کام نہیں تھا کہ ازدواجی امور کی وضاحت کرتیں ۔ اس غیر سنجیدہ رویے نے اصل میں عمران کے سیاسی مخالفین کو شہہ دی کہ جب عمران کی نجی زندگی عمران کی اپنی پارٹی کے ترجمان زیر بحث لا رہے ہیں تو ہم کیوں نہ لائیں چنانچہ جواب آں غزل یعنی دولہے کا سہرا خوب ٹھونک بجا کے کہا جانے لگا ۔

عمران خان کے کارندوں کو مگر ابھی تک یہ احساس نہیں کہ اپنے رہنما کی نجی زندگی کا احترام کیا چیز ہوتی ہے چنانچہ ریحام خان کو ابھی چند روز پہلے عون چودھری دھمکی دیتے پائے گئے کہ تمہارا کچا چھٹا سامنے لایا تو تم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گی ۔ شادی ہو یا طلاق ہو ہر دوصورتوں میں یہ کام فریقین کا ہے کہ اس پر بات کریں ۔ پارٹی ترجمان کا یہ منصب نہیں۔جب پارٹی ترجمان یہ کام کرتے ہیں تو صورت حال مضحکہ خیز ہو جاتی ہے اور آپ کا نجی معاملہ نجی نہیں رہتا، سیاست کے کوچہ و بازار کا موضوع بن جاتا ہے۔

میں ایک عرصے سے کہہ رہا ہوں عمران خان کو صرف عمران خان سے خطرہ ہے اس لیے عمران خان کو عمران خان سے بچانا ہو گا ۔ عمران خان کو اس خطرے کا احساس ہی نہیں ۔ انہیں معلوم ہی نہیں ان کے فیصلے نجی زندگی کے ہوں یا قومی زندگی کے ، وہ ان کے بارے میں ایک تاثر قائم کرتے ہیں اور سیاست میں تاثر حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے ۔ عمران کے بارے میں یہ تاثر تیزی سے طاقت پکڑ رہا ہے کہ وہ گاہے نرگسیت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ وہ انسانی جذبات اور رشتوں سے بے نیاز ہیں ۔ وہ صرف اپنی ذات سے محبت کرتے ہیں ۔ پہلی شادی کی تو اکلوتے بیٹے کا باپ زندہ تھا مگر شامل نہ تھا ۔ شادی برطانیہ میں ہو رہی تھی باپ لاہور میں تھا ۔ اس کو بلانے کا تکلف ہی کسی نے نہیں کیا ۔ اکلوتے بھائی کی بہنیں لاہور میں ہی بیٹھی گنگناتی رہیں کہ ویر ساڈا گھوڑی چڑھیا ۔

دوسری شادی ہوئی تو باپ تو حیات نہ تھے مگر بہنوں میں سے کوئی ایک بھی شامل نہ تھی ۔ اور تیسری شادی کا احوال آپ کے سامنے ہے ۔ لاہور میں شادی ہوئی اور لاہور مینں بیٹھی بہنیں موجود نہیں ۔ ہر دولہا شادی کے وقت خاندان اور احباب کے نجیب ترین افراد کا انتخاب کر کے ساتھ لے جاتا ہے۔ یہاں دولہا کے ساتھ نہ بہنیں نہ کوئی اور رشتہ دار، حتی کہ سیاسی رفقائے کار بھی نظر انداز۔ عون چودھری صاحب وہ کل جمع پونجی تھی جو دولہے کی طرف سے جلوہ افروز تھی ۔ اگر یہ درست ہے کہ آدمی اپنے حلقہ احباب سے پہچانا جاتا تو یہ لمحہ ، لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔

کزن وفات پا جائے تو آپ جنازے پر جانا گوارہ نہ کریں ۔ ڈی چوک پر سالگرہ کے کیک کاٹتے رہیں ۔ یہ بے نیازی ایک کرکٹ کے ہیرو کی حد تک تو چل سکتی ہے، ایک سیاستدان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یہ معاشرہ جیسا بھی ہے کچھ سماجی اقدار کے بارے میں کسی حد تک حساس ضرور ہے ۔ ان اقدار سے کامل بے نیازی آپ کا بطور سیاست دان جو تاثر پیدا کرتی ہے وہ بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس بات کا ابھی تک عمران خان کو علم نہیں ہو سکا تو اگلے انتخابات کا انتطار فرما لیں ۔ خوب سمجھ آ جائے گی۔

شادی آپ کا ذاتی فعل ہے۔ جب مرضی کریں۔اور جب دل چاہے اس کی خبر جاری کریں ۔ معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب آپ شادی کر لیتے ہیں اور اس کی خبر نکل جاتی ہے لیکن آپ اور آپ کی جماعت اس کی تردید کرتے رہتے ہیں پھر ایک روز معلوم ہوتا ہے خبر تو درست تھی ۔ اعتماد کا رشتہ اس وقت کانچ کے کسی برتن کی طرح چھناکے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ جب کارکنان کو شرح ہو کہ ان کا لیڈر جھوٹ نہیں بولتا اور پھر جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو کارکن کا مان ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر ایک وسوسہ جنم لیتا ہے کہ جو رہنما اپنی شادی کے معاملے میں بھی بلا وجہ جھوٹ بولتا ہو وہ دیگر معاملات میں کتنا سچا ہو گا اور اس پر کس ھد تک بھروسہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس وسوسے سے وہ اخلاقی وجود متاثر ہوتا ہے جو تحریک انصاف کا اصل اثاثہ تھا ۔ عمران مگر کون سے جون ایلیا ہیں جو کسی روز اترتی شام کے سایوں میں حساب سودوزیاں کرتے کرتے گنگنا لیں :
’’ میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘‘

اس تلخ نوائی کے ساتھ ساتھ میری طرف سے ان کے لیے ڈھیروں دعائیں اور مبارک ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے