ہم تو چلے اجنبی راہوں پر

عظمت اللہ وڑائچ گجرات میں پیدا ہوئے ،میری ان سے واحد ملاقات اپنے ماموں حاجی غلام رسول کی وساطت سے اسلام آباد ان کی رہائش گاہ پر ہوئی ،عظمت اللہ کی کہانی دلچسپ ہے ،وہ پاکستان ریلوے میں ملازم تھے ،ریلوے سے ریٹائر ہونے والے ملازم سے سوال کیا ،سروس مکمل ہونے کے بعد کیا کچھ کما لیا ،ریٹائر ملازم کے منفی میں جواب اور ملازمین کی حالت زار نے عظمت وڑائچ کو بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا ،انھوں نے نوکری چھوڑ کر ترقی یافتہ ملک جانے کا ارادہ کیا ،یہ 1954ء کی بات ہے ، اس وقت برطانیہ کا ویزہ آسان تھا لہٰذا وہ برطانیہ روانہ ہوگئے ،وہ خالی ہاتھ گئے تھے اس لیے ابتدائی تین دن بھوکے ہی گزاراکرنا پڑا،ابتدا ء میں بے حد مشکلات کا سامنا کیا ،کام کی شروعات جرابیں ،ٹائیاں اور سکارف گھر گھر بیچنے سے کی ،سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے راتیں بھی بسر کی ،یخ بستہ سردی میں بھی بہنوں کی دی ہوئی واحد سویٹر پر ہی گزارا کیا ، رفتہ رفتہ عظمت اللہ وڑائچ کی محنت اور عزم سے حالات بدلنے لگے ،اللہ تعالیٰ کی ذات نے کرم کیا ،1954ء میں خالی ہاتھ برطانیہ پہنچنے والا انسان آج کامیاب ،خوشحال اور خوشگوار زندگی بسر کررہا ہے ،پاکستان اور برطانیہ دونوں ممالک میں کاروبار ،پراپرٹی اور بنک بیلنس موجود ہے ،بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے تمام ضروریات پوری کی ، بیٹے نے نہ صرف کاروبار سنبھال لیا بلکہ کاروبار کو وسعت بھی دی ، اورآج وہ خود پرآسائش زندگی بسر کررہے ہیں ،عظمت اللہ وڑائچ کے مطابق تمام کامیابیوں کا راز خلوص نیت ،دھوکہ نہ دینے ،حق حلال کی کمائی اور ضرورت مندوں کی مدد میں ہے ،ایسے کاموں سے اللہ تعالیٰ کے انعامات مختلف صورتوں میں ملتے ہیں ۔

اس میں شبہ نہیں عظمت اللہ وڑائچ کی کامیابی اللہ تعالیٰ کے کرم اور ان کی مسلسل محنت ،مشقت ،صبر اور بلند حوصلے کا نتیجہ ہے ،بہرحال اس کامیابی کا کریڈٹ برطانوی ریاست کے نظام حکومت کو بھی جاتاہے،جس نے مستقبل کے حالات و واقعات سے نا آشنااجنبی شخص کو ترقی کرنے اورخوشحال بننے کے لیے آزادانہ ماحول فراہم کیا ،جس نے عظمت وڑائچ کی محنت اور کوشش کے برابر صلہ دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور ان کی محنت و مشقت کے نتیجہ میں کامیاب لوگوں کی صف میں کھڑا کردیا ،عظمت اللہ وڑائچ ایسی متعدد مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں،بے روزگاری ،غربت اور نامساعد حالات سے تنگ افراد نے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کیا ،پردیس کی سختیاں و تکالیف سہی بالآخر ایسے افراد کو اللہ تعالیٰ نے محنت کے صلہ میں کامیابیوں سے ہمکنار کیا ۔

ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں ہجرت ارتقائی عمل ہے ،جو صدیوں سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا ،جس ریاست کے ہم باشندے ہیں اس کا قضیہ گزشتہ ستر سال سے حل طلب ہے ،بدقسمتی سے ریاست جموں و کشمیر تین پڑوسی ممالک بھارت ،پاکستان اور چین میں تقسیم ہے ،ہم منقسم کشمیر کے آزادکشمیر نامی حصہ میں موجود ہیں ، آزاد کشمیر میں روزگار کے مواقع محدودہیں ،روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ سرکاری ملازمت ہے جس کا حصول مشکل ترین ہے ،کاروبار میں بھی حالات ا ور ماحول سازگار نہیں ،ریاست کاروبار ی حضرات کو ریلیف دیتی ہے اور نہ ہی تحفظ فراہم کرتی ہے ،انہی وجوہات کی بناء پر آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگ بیرون ممالک یورپ بالخصوص (برطانیہ )،امریکہ اور مڈل ایسٹ میں بہتر روزگار کے لیے آباد ہیں ،آزاد کشمیر کے شہریوں کی سب سے بڑی تعداد برطانیہ میں آباد ہے ،جن کے عزیز واقارب آزاد کشمیر میں ہیں ،اوورسیز کشمیری کمیونٹی نے برطانیہ میں سالوں کی ان تھک محنت و مشقت سے ایک مقام بنایا ہے ،اس تکلیف دہ اور صبر آزماں مسافت کے بعد برطانیہ میں سیٹل کشمیری کمیونٹی آزاد کشمیر میں اپنے عزیز و اقارب سے رشتوں کا تعلق قائم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے ، یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکومت کے سخت امیگریشن قوانین کے باجود اپنے بچوں کی شادیاں آزاد کشمیر میں اپنے عزیز و اقارب میں کرتے ہیں تاکہ رشتوں کایہ دھاگا جڑا رہے ۔راقم بھی بہتر مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے اور رشتوں کے تعلق کو جوڑے رکھنے کے عزم کے ساتھ برطانیہ روانہ ہورہا ہے۔

زندگی کے پچیس برس میں اللہ تعالیٰ نے والدین کی دعاؤں سے بہت عزت و مقام سے نوازا ہے ،اسلام گڑھ کے نواع دیہی علاقہ مواہ رڑاہ میں پیدائش اور پرورش ہوئی ،متوسط طبقہ سے تعلق ہے ،ٹاٹ سکول سے تعلیم کا آغاز ہوا، زمانہ طالبعلمی میں نہ کوئی پوزیشن ملی اور نہ غیر نصابی سرگرمی میں انعام حاصل کیا ،حادثاتی طور پر الیکٹرونک میڈیا میں داخل ہوا،پھر صحافت شوق ا ور جنون بن گیا،علمی و ادبی گھرانے سے تعلق ہے اور نہ ہی بڑا خاندانی بیگ گراؤنڈ ۔ کم علمی وتجربہ کے باوجودچھوٹی عمر میں والدین کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے وہ عزت ،شہرت، مقام و مرتبہ عطا کیا جس کے لیے ہر انسان تمام عمر جدوجہد کرتا ہے، اپنے تمام کیرئیر میں صحافت کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مصروف عمل رہا ،اپنی دانست کے مطابق سچائی اور حقائق کو بغیر لگی لپٹی کے لکھ دیا ،قلم کا غلام بنے بغیر آزادی اور غیر جانبداری سے اپنے فرائض منصبی اداکرنے کی کوشش کی،اس کوشش میں کامیابی و ناکامی کے تناسب بارے خود سے کچھ لکھنے سے قاصر ہوں ،البتہ شعبہ صحافت سے تعلق کی بناء پرکوئی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا ،یہ اللہ تعالیٰ کاشکر ا ور خاص کرم نوازی ہے جس نے قلم میں وہ تاثیر عطاکی کہ قارئین مختلف ذرائع سے پسند،تعریف اورحوصلہ افزائی کے پیغامات بھیجتے رہے ، یہ احساس ملتا رہا کہ مخاطب پتھرکے بت نہیں بلکہ جیتے جاگتے ا نسان ہیں۔کسی سے اختلاف کے باعث انتقام لیا اور نہ تعلق و رشتہ کی بنیاد پرکسی کے حق میں قصیدے لکھے ۔الحمد اللہ خوش قسمتی سے علاقائی ،قبیلائی اور گروہی تعصب سے پاک مختصر صحافتی کیرئیر کا اختتام کررہا ہوں ۔

زندگی کے پچیس سال اور تین سالہ صحافتی کیریئرکو آسان بلکہ شاندار بنانے میں کچھ نام شامل ہیں ،جن کی محبت ،خلوص،قربانی اور احسانات ہمیشہ یادوں میں رہیں گے ، معاشرے میں جو اچھا نام اورمقام ملا والدین کی دعاؤ ں اور بہترتعلیم و تربیت سے ملا ، بہن بھائیوں نے خود نامسائد حالات ،تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کیا مگر میری ہر خواہش پوری کی، ماموں او رخالہ نے ہرمشکل وقت میں بھرپور ساتھ دیااور مشکل کو مشکل نہیں رہنے دیا ،شریک حیات جس کی دعائیں شامل حال رہی ،اپنے خاندان کے تمام افراد نے ہمیشہ بے پناہ محبت اور پیار سے نوازا ، دوستوں نے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ہر قدم ساتھ دیا ، رفاہی تنظیم ویلفیئرسوسائٹی مواہ رڑاہ کی ٹیم نے ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جس کا حصہ بن کر بولنے اور لکھنے کی صلاحیت کو جاننے اور نکھارنے کا موقع ملا ،مخلوق خدا کی خدمت ،ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوا،تنظیم نے صحیح و غلط میں فرق بتا کر درست راستے پر چلنے کی رہنمائی کی ،کیبل چینل کشمیر نیوز کے MDحامد جواد احمد اور اشفاق منیر کی ٹیم کا حصہ بنا جو بعد ازاں صحافتی شوق کا سبب بنا ،برادر اشفاق منیر کے تعاون سے الیکٹرونک میڈیا کا تجر بہ حاصل ہوا،

اپنے محسن بزرگ صحافی مشتاق احمد کشمیر ی کی وساطت سے پرنٹ میڈیا میں کام کا آغاز کیا،پہلی خبرلکھنا بھی ان سے سیکھا،مشتاق احمد کشمیری نے ہمیشہ ہمدردانہ مشوروں سے بھی نوازا ،اسلام گڑھ پریس کلب اسلام گڑھ( موجودہ اتحادی نام چنارپریس کلب اسلام گڑھ ) کے تمام ساتھیوں نے صحافتی دنیا میں استقبال کیا ،سوسائٹی میں بحیثیت جنر نلسٹ متعارف کروایا،نہ صرف قدم قدم پر رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی بلکہ سیکرٹری مالیات اورجنرل سیکرٹری ایسے منصب پر فائز کر کے عزت بخشی ،

سینئر صحافی سید کاشف حسین شاہ ایسے قابل ،باصلاحیت ،میچور،معاملہ فہم اور شفیق استاد کی رہنمائی نے لکھنے کے قابل بنایا،طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے سیکھاتے وقت کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کی ،مخلص اورہمدرد ساتھی ارشد محمودجن کی عملی زندگی کے تجربات اور رہنمائی سے ہر قسم کے حالات و واقعات کا جواں مردی سے سامنے کرنے کا حوصلہ ملا،ندیم احمد صدیقی کی مدد سے الیکٹرونک میڈیا کا experience حاصل کیا ۔

پردیس جیسا بھی ہوں بہرحال آسان ہر گز نہیں ،اپنی دھرتی ماں ،والدین ،عزیز واقارب ،دوست احباب اور پیشہ وارانہ زندگی کو خیر باد کہنا تکلیف دہ امر ہے ،پچیس سال کے بعد آج اجنبی منزل کا اجنبی مسافر ہوں ،اب نئی منزل اور نیا راستہ ہے ،جس کا سامنامشکل یا آسان ہر دو صورتوں میں کرنا ہے ،ہم تو چلے جانب اجنبی منزل خدا خیر کرے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے