انسان شیطان کیوں بن جاتا ہے؟

شیطان کو کسی نے دیکھا نہیں، شیطان بری خصلتوں، برائیوں کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ شیطان ہر قوم، ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ شیطان، شیطان کی حیثیت سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ اپنی سوسائٹی، اپنے ماحول کے اچھے اور برے اثرات انھیں انسان یا شیطان بنادیتے ہیں۔ انسانوں سے محبت، انسانوں کی بھلائی کا سوچنا، انسان کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے، انسانوں سے تعصب برتنا، انسانوں سے نفرت کرنا شیطانی خصوصیات میں شامل ہے۔

بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے بھارت میں بھی اچھے اور برے لوگ موجود ہیں ۔ بھارت ذات پات کے بندھنوں میں بھی بندھا ہوا ہے۔ اونچی ذات کے لوگ نچلی ذات کے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتے بلکہ ایسا انسان سمجھتے ہیں جس کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی، چھوت چھات جیسی بیماریاں بھارتی معاشرے میں گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ یہی برائیاں بڑھ کر دوسرے مذاہب تک پھیل گئی ہیں ان برائیوں کو بڑھاوا دینے میں مذہبی انتہا پسند جماعتیں خصوصی کردار ادا کررہی ہیں۔

بھارت کی ابتدائی سیاسی قیادت اپنی بشری کمزوریوں کے باوجود اس حقیقت کا ادراک رکھتی تھی کہ انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے، امتیازات کا خاتمہ کرنے کے لیے سیکولر ازم کا فلسفہ اہم کردار ادا کرتا ہے یہ فلسفہ جہاں مذہبی شناختوں اور ان سے پیدا ہونے والی برائیوں کوکنٹرول کرتا ہے وہیں انسانوں کو بلا امتیاز مذہب و ملت ایک دوسرے کے قریب لانے، ایک دوسرے سے محبت کرنے اور مذہبی یکجہتی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس حقیقت کے ادراک ہی کی وجہ سے بھارت کی ابتدائی قیادت نے سیکولر ازم کو بھارتی آئین کا حصہ بنایا۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانی قیادت کے اٹھ جانے کے ساتھ ساتھ بھارت میں مذہبی انتہا پسند طاقتیں مضبوط ہوتی گئیں ان شیطانی طاقتوں میں آریہ سماج جیسی پرانی جماعتوں کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس ہندو مہاسبھا، راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتی جنتا پارٹی جیسی کٹر مذہبی جماعتیں بھی وجود میں آئیں ۔ بی جے پی جیسی انتہا پسند مذہبی جماعت دوسری بار بھارت پر حکومت کررہی ہے اس جماعت کی مذہبی انتہا پسندی میں مسلمانوں سے نفرت اس کی پہچان بن گئی ہے۔ بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعتوں کی یہ سائیکی ہے کہ مسلمان 12 فی صد ہونے کے باوجود ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کرتے رہے یہ بھارتی ہندوؤں پر ایک ایسا ظلم ہے جس کی تلافی ممکن نہیں لیکن یہ انتہا پسند طاقتیں ’’ماضی بعید کی زیادتیوں‘‘ کے خلاف اب تک کسی نہ کسی حوالے سے نفرتوں کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ نازیبا سلوک پاکستانی شہریوں کے ساتھ نفرت کا اظہار اسی سائیکی کی علامتیں ہیں جو انتہا پسند ہندوؤں کی پہچان بن گئی ہیں۔

بھارت کے انتہا پسند ہندو طبقات کا یہ فلسفہ ہے کہ تقسیم کے بعد بھارت میں مسلمانوں کو رہنے کا حق نہیں ۔ انھیں پاکستان اور بنگلہ دیش چلا جانا چاہیے۔ یہ نفرت انگیز آوازیں ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہیں اور حال میں ابھی چند دن پہلے بھارتی جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ وینائے کاتیار نے ایک نفرت انگیز بیان میں کہا ہے کہ ’’مسلمانوں کو بھارت میں رہنے کی ضرورت نہیں انھیں پاکستان چلا جانا چاہیے۔ یہ آواز نئی نہیں ہے بلکہ 70 سال پرانی ہے آئی ٹی کے انقلاب نے دنیا کے مختلف دور دراز رہنے والوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے بلکہ انھیں ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔

دنیا کے غریب عوام اب سوچ رہے ہیں کہ ان کی تعداد دنیا کی مجموعی آبادی میں 80 فی صد سے زیادہ کیوں ہے ان کی رات دن کی محنت کی کمائی پر دو فی صد کا قبضہ کیوں ہے۔ شیطان اپنی بری خصلتوں سے پہچانا جاتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 80 فی صد سے زیادہ آبادی کو دو وقت کی روٹی سے محتاج رکھنے سے بڑی بری خصلت کوئی اور ہوسکتی ہے؟ کیا 80 فی صد عوام کی غربت اور بد حالی میں مذہبی تقسیم کا بھی کوئی دخل ہے؟ بلاشبہ انسان کو بے شمار حوالوں سے تقسیم کرکے اس کے طبقاتی اتحاد میں بے شمار دراڑیں ڈال دی گئی ہیں لیکن ان بے شمار تقسیموں میں سب سے گہری تقسیم مذہب کی ہے۔ ہر مذہب میں 80 فی صد سے زیادہ غریب لوگ موجود ہیں۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ وینائے کاتیار کا تعلق بھارت کے امیر طبقے سے ہے یا غریب طبقے سے اس کا ہمیں علم نہیں لیکن وہ مذہب کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف جو زہر اگل رہا ہے وہ خود اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے 80 فی صد غریب طبقات کے حق میں بھی زہر قاتل ہے۔

ہر ملک کی 2 فی صد ارب پتی اشرافیہ کو یہ احساس ہے کہ ان کی امارت اس وقت تک قائم ہے جب تک انسان ذات پات رنگ نسل زبان قومیت اور مذاہب میں بٹا ہوا ہے جس دن دنیا کا انسان اس تقسیم سے آزاد ہوکر انسان بن جائے گا اور اسے طبقاتی جبر کا احساس ہوجائے گا وہ لٹیری کلاس کو اسی طرح گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دے گا جیسے انقلاب فرانس میں عوام نے فرانس کی اشرافیہ کو کاٹ کر پھینک دیا تھا۔ انقلاب فرانس انسانوں کی 80 فی صد اکثریت پر دو فی صد لٹیری اقلیت کے مظالم کا نتیجہ تھا۔ آج دنیا کے کئی ملکوں میں فرانسیسی اشرافیہ سے زیادہ مظالم ہورہے ہیں اور عوام یہ مظالم اس لیے برداشت کررہے ہیں کہ یہ تقسیم ہیں۔

دنیا کے ہر ملک، ہر قوم میں آر آر ایس جن سنگھ بی جے پی اور وینائے کاتیار موجود ہیں اور انسانوں کے درمیان نفرت کی آبیاری کررہے ہیں اس میں وہ لوگ بھی ہیں جو اشرافیہ کے ایجنٹوں کے طور پر پورے شعور کے ساتھ یہ غلیظ کردار ادا کررہے ہیں اور وہ بھی ہیں جو نادانستگی اور علم و شعور کی کمی کی وجہ سے مختلف حوالوں سے انسانوں کے درمیان نفرتیں ، عداوتیں پھیلارہے ہیں۔ ہر ملک کے اہل علم، اہل دانش، اہل فکرکی یہ ذمے داری ہے کہ وہ نہ صرف انسانوں کے تقسیم کے حوالے سے پیدا کی جانے والی طبقاتی شعور پیدا کریں بلکہ اس ظالمانہ طبقاتی نظام کے خلاف جد وجہد کی ترغیب بھی فراہم کریں تاکہ دنیا میں پھیلے ہوئے نفرتوں کے دیوتا وینائے کاتیار کا سروناش ہوسکے۔

ملک و ملت، نگ نسل، ذات پات، دین دھرم کے حوالوں سے تقسیم سادہ لوح عوام کو اس سادہ سی حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ دنیا کا ہر انسان صرف اور صرف انسان کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے اسے ماحول گھرانے مختلف خانوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کا ’’وینائے کاتیار‘‘ انسان پیدا ہوا تھا، لیکن وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا تھا سو وہ ہندو بن گیا۔ وینائے کاتیار ایک انسان کی حیثیت سے پیدا ہوا تھا لیکن وہ بوجوہ بی جے پی میں شامل ہوگیا اور انسان سے شیطان بن گیا۔ بھارت میں ہزاروں دانشور ہیں، ہزاروں مفکر ہیں، ہزاروں اہل علم ہیں، ہزاروں فلسفی ہیں جو انسان کی حقیقت کو جانتے ہیں۔ ان کی یہ نظریاتی ذمے داری ہے کہ وہ بی جے پی کے وینائے کاتیارکو حیوان سے انسان بنانے میں اور انسانوں سے محبت کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے