میں نماز کیوں پڑھوں ؟

namaz

Muhmmad hasnain

. . . . . . . . .

بڑی دیر سے لکھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ہر بار کم علمی اور اس سے بڑھ کے کم عملی آڑے آ جاتی ہے۔

مگر آج ہمت کر کے لکھنے بیٹھ ہی گیا ہوں۔

یہ میں نے اپنے لیے لکھا ہے تاہم آپ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

"ہم نے تو دل جلا کہ سر عام رکھ دیا”۔۔۔۔۔۔!


میرا شمار ان  لوگوں میں ہوتا ہے جن کا ماننا ہے کہ اگر انسان کو ڈرانے کے بجائے محبت اور عقلی دلائل سے منوایا جا سکتا ہے ، اس صورت میں وہ اس عمل پر دل و جان سے عمل پیرا ہو جانے کی سعی کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی حقیقت تک پہنچ چکا ہوتا ہے ۔


نماز دین کا بنیادی اور اہم رکن ہے۔ نماز شکر ہے اس ذات کا جس نے مجھے یہ جسم اور جان دی۔ مگر کیا یہ اتنا ہی اہم کام ہے کہ روٹی کمانے سے لے کر پکانے اور کھانے تک، جو کہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ نماز کے لۓ چھوڑ دیا جاۓ؟ کیا روز مرہ کے کام اہم ہیں یا وہ ذات اہم ہے بظاہر جس کا تعلق ہماری زندگی میں نظر نہی آتا؟


اس بات کا جواب جاننا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ایک تو ہمیں ہماری مرضی معلوم کئے بغیر دنیا میں ضروریات کے ساتھ بھیج دیا جاۓ اور اوپر سے دن میں پانچ بار  ہمیں اس بات کا شکر ادا کرنے کے لیے بلایا جاۓ۔


انسان میں ایک خصلت پائی جاتی ہے جس کا نام احسان مندی ہے، اگر کسی مشکل میں کوئی اس کے کام آ جاۓ یا اسے بغیر مانگے ایسا انعام مل جاۓ جس کا نعم البدل نہ ہو تو وہ اس کا احسان مند تا حیات رہتا ہے۔ زندگی ایک نعمت ہے جو ہمیں بغیر مانگے مل گئی۔


اگر آپ سمجھتے ہیں کے زندگی نعمت نہیں ہے تو ابھی موت کی آرزو کر کے دیکھیں۔ لاکھوں مصیبتیں ہوں انسان موت کی آرزو نہی کرتا ہر پل امید کا چراغ جلاۓ رکھتا ہے۔ اگر اسے یہ خوشخبری سنا دی جاۓ کہ وہ ہزار سال جیۓ گا تو ہزارسال بعد بھی وہ موت کو گلے لگانے کے لۓ تیار نہی ہوگا۔ معلوم ہوا کہ زندگی اپنے اندر غیر معمولی کشش اور تنوع رکھتی ہے۔


یہ بات سچ ہے کہ اگر ہم زندہ نہ ہوتے تو موت کا خوف نہ ہوتا۔ مگرذرا خواہش حیات کو پلڑے میں رکھ کے دیکھیں تو احساس ہو گا۔ کتنا کچھ ہے جس سے آج ہم لطف اندوز ہو رہے۔ اگر زندہ نہ ہوتے ان سے لطف اندوز نہ ہوتے۔ محبت ان میں سے بڑی چیز یے۔ خواہ وہ ماں کی مامتا کی صورت میں، باپ کی، بہن کی یا پھر دوست یا کوئی بھی دل کے قریب ترین رشتہ یا احساس کی صورت میں ہو۔


اگر آج انسان کو یہ خبر دے دی جاۓ کہ اسے ابدی زندگی مل گئی ہے تو اس سے بڑھ کہ اس کے لئے کوئی خوشی کی خبر نہی ہوسکتی باوجود یکہ لاکھوں مشکلات اسے زندگی میں پیش آتی ہیں مگر ان سب کو نذر انداز کرکے وہ جاودانی کا جام پینے کو ہر دم تیار ہے۔ اب میں مانوں یا نہ مانوں زندگی اپنے آپ میں ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ جب زندگی ایک ایسا انعام جسکا نعملبدل نہی تو شکر تو بنتا یے اس زات کا جس نے یہ نعمت عطاء کی۔


اب یہ سوال کرنا بیوقوفی ہوگی کہ جو چھوٹی زندگی دے سکتا ہے وہ جاودانی بھی تو عطاء کر ہی سکتا تھا؟


بھائی یہ تو ایسے ہی ہے کہ چھ دن کے بھوکے کو اگر کوئی ترس کھا کہ ایک روٹی دے تو وہ خیرات کرنے والے پہ اعتراض شروع کردےکہ بھائی یہ تو مجھے پی سی میں کھانا بھی کھلا سکتا تھا اس نے صرف ایک روٹی ہی کیوں دی؟


خدا نے ایک سکیم بنائی جس میں اس نے ہمیں بھی شامل کر لیا۔ اس پر ہم احسان مند ہونے کی بجاۓ الٹے اسی سے سوال کردیتے ہیں۔ کہ اس نے ہمیں کیوں بنایا؟ کیا وہ ہمیں خطاء سے پاک پیدا نہی کرسکتا تھا؟


سوچو کبھی تم روبوٹ بناؤ اور وہ تم سے سوال شروع کردے کہ تم نے مجھے کیوں بنایا؟ نیلا نہی پیلا بنانا چاہیے تھا؟


یا پھر ہم کوئی نوکر رکھیں تو وہ ہم سے کہے تم برتن کم خراب کیا کرو، یہ کام مجھ سے نہی ہوتا، تم مجھے تکلیف میں مبتلا کر کے تنخواہ کیوں دیتے ہو جبکہ تم کام کرواۓ بغیر بھی تنحواہ دے سکتے ہو؟

دین کی ضرورت کیوں پیش آئی؟


دنیا کوئی کھیل نہیں، خاص طور پہ تب جب وہ انسان کو اسکی قوت ارادی دے کر دنیا میں خلیفا بنا دیا جاۓ۔ تب ضرورت تھی کسی ضابطے کی جس پہ عمل کرکے لوگ باہمی اتفاق اور محبت سے رہیں۔ تاکہ ڈرایا جا سکے جو لوگ سرکشی اختیار کریں ان کو کہ انکا بنانے والا کوئی ہے۔ اور ایک دن اچھے یا برے اعمال کے لۓ جوابدہ ہونا پڑےگا۔ تب آدمؑ کے دنیا میں آتے ہی ایک ضابطہ دین کی صورت میں اتارا گیا جس کا نام اسلام تھا۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ اسلام نبیﷺ کے آنے کے بعد وجود میں آیا۔ نہی بلکہ محمدﷺ اسی دین کی تبلیغ کے لۓ آۓ تھے جو آدم و حوا کا دین تھا۔

نماز دین کا ستون کیوں ہے؟
نماز یاد دہانی ہے۔ انسان بھول جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے اس نے کچھ ذمہ داریاں اس پہ ڈالی ہیں۔ انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ چیزوں کو جلد فراموش کردیتا ہے۔ جب کوئی انسان پانچ دفعہ اسکے حضور کھڑا ہوتا ہے اسے احساس ہوتا ہے کہ اسپہ کچھ ذمہ داریاں ہیں جنہیں ہر حال میں نبھانا ہے۔


یہ بات بھی درست ہے کہ غیر مسلم جو نماز نہی پڑہتے وہ ہم سے زیادہ اسلام کے چند اصولوں پہ عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ لیکن کیا یہ چند کام ہی انسانیت کے کرنے کہ ہیں؟ انہوں نے بے شک انسانیت کی بے لوث خدمت کی ہے اور ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے ان تمام ایجادات کے لۓ انکا کیوں کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے کہ جو انسان کا شکر ادا نہی کرتا وہ رب کریم کا شکر ادا نہی کرتا۔ مگر انہوں نے اپنی زندگیوں میں کھویا بھی بہت ہے۔ خاندانی نظام، عورت کی عزت، ماں باپ کا احترام، اور بہت سی چیزیں ہیں جنکا شیرازہ وہ بکھیر چکے ہیں۔ ہم نے بھی آج جو دن دیکھے ہیں وہ صرف دین کی اصل سے دوری اور علم بیزاری کا نتیجہ ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ تاکہ یاد دہانی ہوتی رہے کہ اگر میں ظلم کروں گا تو مجھے جواب دہ ہونا پڑے گا۔

ان سب سے ہٹ کر کیا اس کا حق نہی بنتا کہ اس کے سامنے سربسجود ہوا جاۓ جس نے ہمیں ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ کیا اس کی محبت کی کوئی اہمیت نہی جب وہ درد سے ہمیں پکارتا ہے جس کا مفہوم ہے او میرا بندہ تجھے کس نے مجھ سے دھوکے میں ڈال دیا؟ جس کا ہر لفظ چاشنی سے بھرا جو ہر دم ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ یاد دلاتا ہے مجھ سے مانگو اور نماز کے زریعہ مجھ سے مدد مانگو۔


تم کامیابی چاہتے ہو کامیابی تمہارے قدم چومنے کو تیار کھڑی ہے۔ وہ ہر روز پانچ دفعہ اعلان کرکے ہمارا انتظار کرتا ہے۔ کہ شائد آج، شائد آج ہی میرا بندہ لوٹ آۓ میری طرف،۔ وہ پکارتا ہے پانچ دفعہ
حی علی الفلاح
حی علی الفلاح

اور پھر انتظار کرتا ہے۔ کہ شائد ہم سمجھ جائیں!

اس سے ڈرو مت، محبت کرو، اسکی محبت مہنگی نہی پڑتی۔ نجانے ہم کیوں کر گریزاں ہیں اس سے جو سراسر سراپا محبت ہے۔ منبر و محراب ڈراتا ہے مگر وہ رب اتنا رحیم اور محبت والا ہے جب صحابہ نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہیں۔ تو جواب پتہ کیا آیا۔ اس رب نے اپنی قربت کا احساس دلایا کہ ڈرو نہی محبت کرو میں تو قریب ہی ہوں۔
وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورہ بقرہ؛ 186)
ترجمہ : جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں۔

سزا و جزا کا معاملہ؟
دین میں سزا و جزا کا معاملہ عناد و ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ہے۔ سزا ملے گی ہر اس کو جو حق کو جان کر باطل پر ڈٹا رہا اور اپنے فرائض سے منہ موڑتا رہا۔ یہ بات جانتے ہوۓ بھی کہ موت ایک دن آنی ہے اور مجھے ایک دن اس رب کے سامنے پیش ہونا ہے اور اگر میں نے ہٹ دھرمی سے معاملات کۓ تو شرمندگی اٹھانا ہوگی۔
اور مطالبہ بھی کچھ ذیادہ نہی۔ دن میں پانچ مرتبہ کی ترتیب کچھ ایسی ہے اور اس پہ وقت ہی کتنا صرف ہوتا ہے دیکھ کہ شرم سے سر ویسے ہی چھک جاتا ہے۔
فجر: دو فرض ظہر: چار فرض عصر: چار فرض مغرب: تین فرض عشاء: چار فرض

اس پہ ٹوٹل کوئی آدھ پون گھنٹا صرف ہوتا ہے۔ اس آدھ پون گھنٹے سے اگر وہ ذات ہم سے خوش ہو جاۓ تو کیا مہنگا سودا ہے؟
پھر کیوں میں اور آپ سرکشی پہ تلے ہوۓ ہیں۔


اچھا ایک سوال رکعات کی تعداد پر بھی ہو سکتا ہے۔اس پہ میں امام مالک کی راۓ آپکے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم(بن سعید بن عبدالرحمٰن)البوشنجی(ثقہ حافظ فقیہ)نے کہا:میں نے عبداللہ بن عمر بن(میمون بن)الرماح(بلخ کے قاضی) سے سنا،انھوں نے کہا:میں (امام)مالک (بن انس المدنی)کے پاس گیا تو پوچھا:اے ابو عبداللہ!نماز میں کیا فرض ہیں اور کیا سنت ہیں؟یا کہا:کیا نفل ہیں؟تو (امام)مالک(بن انس المدنی) نے فرمایا:زندیقوں کا کلام ہے۔اسے باہر نکال دو۔(سیر اعلام النبلاءح٨ص١١٣-١١٤،تاریخ الاسلام للذہبی ٣٢٧ / ١١،وسندہ صحیح)
اصل میں فرائض کے علاوہ جتنی بھی نماز ہے۔ وہ نوافل ہیں جو نبیﷺ نے مختلف مقامات پہ مختلف تعداد میں ادا کیۓ۔ اس بات سے انکار نہی کہ ان نوافل کی قدر و منزلت بہت ہے مگر ایک بندہ جو پنجگانہ نماز شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لۓ بہترین ہے کہ فرائض سے شروع کرے اور نوافل کی طرف بڑھتا جاۓ۔ کیا فائدہ ہماری ان لمبی لمبی نمازوں کا جن میں خشوع و خضوع ہی نہ ہو۔ تو بہتر ہے پہلے اپنے آپ کو نمازوں پر پکا کرلیں اور پھر آہستہ آہستہ نوافل پر آتے جائیں۔


خشوع و خضوع کو سمجھانے کے لۓ اشفاق احمد صاحب کا ایک کی کتاب سے ایک اقتباس آپ کی خدمت میں رکھتا ہوں۔


"پیرانِ پیر کے شہر بغداد میں ایک بندہ تھا جو کسی پر عاشق تھا اس کے لیے تڑپتا تھا روتا تھا ۔لیکن اس کا محبوب اسے نہیں ملتا تھا ۔اس شخص نے ایک بار دعا کی اے اللہ ! ایک بار مجھے میرے محبوب ک درشن تو کرا دے ۔اللہ تعالیٰ کو اس پر رحم آگیا اور اس کا محبوب ایک مقررہ مقام پر ، جہاں بھی کہا گیا تھا پہنچ گیا ۔دونوں جب ملے تو عاشق چٹھیوں کا ایک بڑا بنڈل لے آیا ۔یہ وہ خط تھے جو وہ اپنےاس محبوب کے ہجر میں لکھتا رہا تھا ۔اس نے وہ کھول کر اپنے محبوب کو سنانے شروع کر دیے ۔پہلا خط سنایا اور اپنے ہجر کے دکھڑے بیان کیے ۔ اس طرح دوسرا خط ، تیسرا خط اور پھر جب وہ گیارہویں خط پر پہنچا تو اس کے محبوب نے اسے تھپڑ رسید کیا اور کہا ” گدھے کے بچے ! میں تیرے سامنے موجود ہوں اپنے پورے وجود کے ساتھ اور تو مجھے چٹھیاں سنا رہا ہے ۔یہ کیا بات ہوئی ” ۔سلطان کہنے لگا بھا جی ! عبادت ایسی ہوتی ہے آدمی چٹھیاں سناتا رہتا ہے ، محبوب اس کے گھر میں ہوتا ہے ، اس سے بات نہیں کرتا ۔ جب تک اس سے بات نہیں کرے گا ۔ چٹھیاں سنانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔
اشفاق احمد زاویہ 2 صفحہ 74″

ہم آج کل نمازوں میں چٹھیاں سنانے کے سوا کچھ نہی کرتے۔ نماز اپنے مالک سے بات کا ذریعہ ہے۔ اسے چٹھیاں سنانے میں ضائع نہ کریں۔جس دن ہم چھٹیاں سنانا چھوڑ دیں گے اس دن اصل میں تعلق اوپر جڑ جاۓ گا۔


اس تحریر کا مقصد ان لوگوں کو اس عمل کی طرف لانا ہے جو یا تو دل چھوڑ بیٹھے ہیں یا اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اس کا سوچنا بھی عجیب لگتاہے۔ یار یہ مت سوچو میں یہ کرتا ہوں وہ کرتا ہوں نماز کیوں پڑھوں۔ وقت نکالو ہر حال میں نماز پڑھو۔


خواہ تم ایک فیشن ڈیزائنر ہو یا سٹیج پو کام کرنے والے ایکٹر۔ تم ٹی وی ایکٹر ہو یا فلمی ایکٹر۔ تم ایک بزنس مین ہو یا ایک عام ریڑھی والے۔ تم زندگی کے کسی بھی شبعہ سے تعلق رکھتے ہو دنیا کی مت سنو نماز کی طرف آ جاؤ۔


کیا ہی اچھا ہو ایک فیشن ڈئزائنر اور ایک سٹیج ایکٹر اذان سنتے ہی اپنا کام روک کر رب کے حضور پیش ہو جائیں۔ ڈرامے اور فلم کے سیٹ پر شوٹنگ روک کہ جب نماز ادا کی جاۓ ۔ ایک بزنس مین جب کار سے اتر کر سڑک کے کنارے جب ریڑھی والے کے ہمراہ رب کی خوشنودی کے لیے نماز پڑھے گا تو کیا ہی اچھا ہو جاۓ۔ ہم اپنی پہچان بنا لیں۔


اسلام فنون لطیفہ کے خلاف نہی ہے سو ڈرو مت نماز کی طرف آ جاؤ، دین سیکھو وہ بس ہم سے اعتدال کا مطالبہ کرتا ہے۔ اپنے کاموں میں دین کو داخل کرلو تمہیں کوئی کام چھوڑنا نہی پڑے گا۔ میرا خیال ہے مصروف سے مصروف آدمی پانچ منٹ تو ہر نماز کے لیے نکال سکتا ہے۔ پھر کوشش سے نوافل کی طرف بڑھتے ہوئے تہجد پہ آ جاؤ۔


دین کو سمجھو۔ دین و دنیا دونوں سنوار لو۔ اعتدال میں آجاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ جب منزلوں پر پہنچو تو پتہ چلے راستہ غلط چن لیا تھا۔

تحریر آپکے حوالے۔

اس دعا کے ساتھ کہ مالک ہمیں علم و عمل کی نعمتیں عطافرمائیں۔ اگر کہیں غلطی ہو تو تعلیم فرما دیں۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اسلام و علیکم
أقول هذا وأستغفر الله لي لكم

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے