پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل نہیں

اسلام آباد: فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پیرس میں ہونے والے اجلاس کے بعد پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ میں شامل نہیں کیا۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں پاکستان کا نام موجود نہیں۔

ترجمان الیگزینڈر ڈانیالے نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کا نام گرے فہرست میں شامل کرنے کی خبروں کی ذمہ دار نہیں ہے۔

ترجمان کے مطابق پاکستان کو تادیبی اقدامات کرنے کے لیے 3 ماہ کا وقت دیا گیا ہے اور اس دوران پاکستان نے یہ اقدامات نہ اٹھائے تو اس کے لیے مشکلات ہوسکتی ہیں۔

ترجمان ایف اے ٹی ایف کا کہنا تھا کہ فی الحال پاکستان سے متعلق سب قیاس آرائیاں ہیں اور بھارتی سفارت کار کچھ چیزیں لیک کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کا آج (23 فروری) آخری دن تھا جس میں پاکستان کا نام ’گرے لسٹ‘ میں ڈالے جانے کے حوالے سے اہم فیصلہ کیا جانا تھا۔

دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ رواں برس 20 جنوری کو امریکا اور برطانیہ نے ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کو گرے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی۔

ترجمان کے مطابق ‘ایف اے ٹی ایف میں پیش کردہ تحفظات امریکی ہیں اور پاکستان نے ان میں سے بیشتر تحفظات کے حوالے سے پہلے ہی اقدامات کیے ہیں اور اس سلسلے میں ایک ایکشن پلان پر باقاعدہ عملدرآمد شروع کر رکھا ہے’۔

ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ‘پاکستان کو ابھی تک ایف اے ٹی ایف اور انٹرنیشنل کوآپریشن ریویو گروپ (آئی سی آر جی) کی رپورٹس کا انتظار ہے’۔

[pullquote]
بھارتی میڈیا کا دعویٰ[/pullquote]

واضح رہے کہ بھارتی میڈیا رپورٹس میں آج یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، تاہم اب اس دعوے کی ایف ٹی ایف اے اور پاکستان کی جانب سے تردید کردی گئی ہے۔

دوسری جانب 21 فروری کو وفاقی وزیر خارخہ خواجہ آصف نے دعویٰ کیا تھا کہ پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں پاکستان پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کی امریکی کوشش ناکام ہوگئی کیونکہ واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل کرانے کی قرارداد پر اتفاق نہیں ہوسکا اور معاملہ 3 ماہ کے لیے مؤخر کردیا گیا۔

تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے پاکستان کے خلاف قرارداد موخر کرنے سے متعلق اطلاعات کی تصدیق سے گریز کیا تھا۔

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ٹاسک فورس کی کارروائی خفیہ رکھی جاتی ہے اور حتمی اعلان تک کچھ کہنا ممکن نہیں۔

[pullquote]فنانشل ایکشن ٹاسک فورس[/pullquote]

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے جس میں امریکا، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خیلج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔

تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔

عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 2012 سے 2015 تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔

[pullquote]’اثر معیشت سے زیادہ امیج پر ہوگا‘[/pullquote]

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر معاشیات محمد سہیل نے کہا کہ گرے لسٹ میں شامل ہونے کا اثر پاکستان کی معیشت سے زیادہ اس کے امیج پر پڑے گا۔

سہیل کے مطابق غیر ملکی ممالک کے ساتھ بنکنگ ٹرانزیکشنز پر تھوڑا بہت اثر ہوگا تاہم اس کا اثر تجارت پر زیادہ نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید پاکستان کو تھوڑی زیادہ بنکنگ فیس دینا ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت جب اگلی مرتبہ یورو بونڈ جاری کرے گی تو فہرست میں شامل کیے جانے کا اثر اس پر پڑ سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے